اسلام آباد(ویب ڈیسک) قومی اسمبلی میں قبائلی نشستوں میں اضافے کیلئے 26 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کردیا گیا۔اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور شمالی وزیرستان سے رکن اسمبلی محسن داوڑ نے سابقہ فاٹا کے علاقے میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافے سے متعلق 26 ویں آئینی ترمیمی بل بحث کیلئے ایوان زیریں میں پیش کردیا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں نے اس بل کی حمایت کی۔26 ویں آئینی ترمیم بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ فاٹا میں ترقیاتی کاموں کے مکمل ہونے تک خصوصی مراعات دی جائیں، جب تک امن قائم نہیں ہوتا وہاں کے عوام کوخصوصی سہولیات دی جائیں، میں اس ایوان کی طرف سے آئینی ترمیم پر قوم کو مبارک باد دیتا ہوں۔پرویز خٹک نے کہا کہ جن علاقوں کو علاقہ غیرکہا جاتا تھا اب وہ اپنا علاقہ بن گیا ہے، کاش ستر سال پہلے ہم ایسا فیصلہ کر لیتے، ہم کوشش کررہے ہیں کہ فاٹا میں بنیادی سہولیات اور روزگار کا بندوبست کیا جائے۔نورالحق قادری نے کہا کہ آئین میں ترمیم و اصلاح کے پیچھے عوامی مفاد کارفرما ہوتا ہے، آج فاٹا کی 12 نشستیں بحال کرنے پرمبارکباد پیش کرتا ہوں۔عبدالقادر پٹیل نے بھارتی جیلوں میں قید پاکستانی ماہی گیروں کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ کچھ دن پہلے بھارتی جیل میں قید ایک پاکستانی ماہی گیر کی لاش واپس آئی، میں اس کے جنازے میں گیا تو اسکی انکھیں نکالی ہوئی تھیں، کیا ہم نے صرف یکطرفہ خیر سگالی دکھانی ہے۔شاہ محمود قریشی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان پرامن طریقے سے بھارت سے معاملات حل کرنا چاہتا ہے، ہم نے بھارت پر اخلاقی دباؤ ڈالنے کے لیے بھارتی قیدی رہا کیے، بھارت اشتعال انگیزی چاہتا ہے اور ہم کشیدگی ختم کرنا چاہتے ہیں، پاکستان نے اپریل میں 360 بھارتی ماہی گیر رہا کئے، ہم نے بھارتی حکومت سے متعلقہ فورمز پر معاملہ اٹھایا ہے، عبدالقادر پٹیل سے اتفاق کرتا ہوں، آپ آئیں، ہم ماہی گیروں کی واپسی کے لئے مشترکہ لائحہ عمل بنائیں گے۔
Tag Archives: national assembly
(ن) لیگ نے قومی اسمبلی میں بہاولپوراورجنوبی پنجاب صوبہ کیلیے آئینی ترمیمی بل جمع کرادیا
اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لئے آئینی ترمیمی بل جمع کرادیا۔مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں احسن اقبال، رانا تنویر، رانا ثناءاللہ، عبدالرحمن کانجو کی جانب سے قومی اسمبلی میں بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لئے آئینی ترمیمی بل جمع کرایا گیا۔ صوبوں کی تشکیل کے لئے آئینی ترمیم کا عنوان ’آئینی (ترمیمی) ایکٹ مجریہ 2019 ‘ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل ایک میں ترمیم سے بہاولپور، جنوبی پنجاب کے صوبوں کی تشکیل کے الفاظ شامل کئے جائیں۔آئینی ترمیمی بل کے مطابق بہاولپور صوبہ وہاں کے موجودہ انتظامی ڈویژن پر مشتمل ہوگا، جنوبی پنجاب صوبہ موجودہ ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژنز پر مشتمل ہوگا اور ترمیم کے بعد ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژنز صوبہ پنجاب کی حد سے نکل جائیں گے۔آئینی ترمیمی بل میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 51 میں ترمیم سے صوبائی نشستوں میں ردوبدل کی جائے، ترمیم کے بعد بہاولپور صوبہ کی 15 جنرل ، خواتین کی 3 نشستیں ملا کر قومی اسمبلی میں کل 18 نشستیں ہوجائیں گی، جنوبی پنجاب صوبہ کی 38، صوبہ پنجاب کی 117، خیبرپختونخوا کی 55، صوبہ سندھ کی 75، بلوچستان کی 20 اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی قومی اسمبلی میں 3 نشستیں ہوں گی۔ترمیم کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 326 ہوگی جس میں 266 جنرل نشستیں اور 60 خواتین کی نشستیں ہوں گی، جنرل الیکشن 2018 میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات سے منتخب شدہ ارکان قومی اسمبلی اور پنجاب سے خواتین کی مخصوص نشست پر کامیاب ہونے والی خواتین موجودہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونے تک اپنی ذمہ داریاں انجام دیتی رہیں گی، موجودہ اسمبلی کی مدت کی تکمیل کے ساتھ یہ کلاز ختم ہوجائے گا۔آئینی ترمیمی بل میں آئین کے آرٹیکل 59 میں بھی ترمیم کی بات کی گئی جس کے نتیجے میں بہاولپور صوبہ کی صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی کل تعداد 39 ہوگی جس میں سے 31جنرل، 7خواتین اور ایک غیرمسلم کی نشست ہوگی، جنوبی پنجاب صوبہ کی صوبائی اسمبلی کی کل نشستیں 80 ہوں گی جن میں سے 64 جنرل، 14 خواتین اور 2 غیرمسلموں کے لئے ہوں گی، بلوچستان اسمبلی کی نشستوں کی کل تعداد65، خیبرپختونخوا کی 145، پنجاب کی 252، سندھ کی 168 ہوں گی۔بل کے مطابق آئین کے آرٹیکل 154 میں ترمیم کی جائے جس کے ذریعے نیشنل کمیشن برائے نئے صوبہ جات تشکیل دیا جائے تاکہ حدود اور دیگر امور کا تعین ہوسکے، آئین کے آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کرکے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی ان نئے صوبہ جات میں پرنسپل سیٹس قائم کی جائیں۔آئینی ترمیمی بل میں کہا گیا کہ 9 مئی 2012 کو پنجاب اسمبلی اپنی اپنی الگ قراردادوں متفقہ طورپر بہاولپور صوبہ اور جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کی منظوری دے چکی ہے، ان خطوں کے عوام اپنے صوبوں کے قیام کے لئے ایک عرصے سے اپنے مطالبے کے حق میں جدوجہد کررہے ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قائمہ کمیٹیوں کے فارمولے پر اتفاق
اسلام آباد(ویب ڈیسک ) حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قائمہ کمیٹیوں کے فارمولے پراتفاق ہوگیا حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قائمہ کمیٹیوں کے فارمولے پراتفاق ہوگیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اوراتحادیوں کو 20 کمیٹیوں کی چیئرمین شپ ملے گی جب کہ اپوزیشن جماعتوں کو 18 کمیٹیوں کی سربراہی دی جائے گی۔قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کی سربراہی حکومت کو دینے پر اتفاق ہوا ہے، ریاض فتیانہ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے چیئرمین ہوں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا تھا کہ قائمہ کمیٹیوں کے معاملے پر حزبِ اختلاف سے اب کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہے، جو اپوزیشن کے پاس کمیٹیاں تھیں وہ ان کے پاس رہیں گی اور جو حکومت کے پاس تھیں وہ موجودہ حکومت کے پاس جائیں گی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اچھا لیڈر قوم کے حالات دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ بہتر کیا ہو سکتا ہے، حکومت کی ساکھ اس پر منحصر ہے کہ ہم کتنی قانون سازی کرتے ہیں۔
شیخ رشید کو کس نے 2002میں تھپڑ مارا اور کس رہنماءنے درگت بنائی۔۔سنسنی خیز انکشافات
اسلام آباد (ویب ڈیسک)وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت پر تنقید کی جا سکتی ہے لیکن ادارے کو گالیاں دینا قابل مذمت ہے، تحریک انصاف نے 2014 میں بھی استعفے دیے لیکن پھر گھٹنوں کے بل چل کر واپس آئے، شیخ رشید کو 2002 میں ایک کرنل نے تھپڑ مارا تو شاہد خاقان عباسی نے اس کرنل کی درگت بنائی، یہ تو ان کی اوقات ہے اور یہ پارلیمنٹ کو گالی دیتے ہیں، پارلیمنٹ کے بغیر سیاستدانوں کا کوئی وجود نہیں ہے، آپ جس ایوان کا قائد ایوان بننے کی خواہش رکھتے ہیں اس ایوان کو گالی دے رہے ہیں، آپ کو اداروں کی تکریم کا احساس نہیں اس لیے سڑکوں پر خوار ہو رہے ہیں۔
314سیاسی جماعتیں پھنس گئیں ۔۔۔ انتخابی عمل سے باہر ہونے کا امکان
اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) انتخابات ایکٹ 2017ءکی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کیلئے درکار سخت قانونی تقاضوں کی بدولت سیاسی جماعتیں مشکل میں پھنس گئیں۔ الیکشن کمیشن میں جمعیت علمائے اسلام (ف) ‘ بلوچستان نیشنل پارٹی‘ جے یو آئی (س) سمیت 314 سیاسی جماعتیں تاحال آئندہ انتخابات لڑنے کی اہل نہیں ہوئیں اور صرف گیارہ فیصد سیاسی جماعتیں مطلوبہ معیار پر پورا اتریں۔ الیکشن کمیشن کی دستاویز کے مطابق الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ملک کی 352 سیاسی جماعتوں میں سے اب تک صرف 38 سیاسی جماعتوں نے دو ہزار پارٹی ممبران اور دو لاکھ روپے کی رجسٹریشن فیس سمیت تمام قانونی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں۔ دستیاب الیکشن کمیشن کی دستاویزات کے مطابق الیکشن کمیشن میں اس وقت 352 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں موجودہ حکومت کی اہم اتحادی جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دوسری مذہبی جماعت جے یو آئی (س) نے تاحال الیکشن کمیشن میں اپنے دو ہزار پارٹی کارکنوں کی تصدیق شدہ تفصیلات اور پارٹی رجسٹریشن کی مد میں سٹیٹ بینک میں دو لاکھ روپے جمع نہیں کرائے۔ ان میں سے پاکستان مسلم لیگ ن‘ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز‘ تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی‘ متحدہ قومی موومنٹ‘ عوامی نیشنل پارٹی سمیت صرف 38 سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کی طرف سے نافذ کردہ قانونی تقاضے پورے کئے۔ الیکشن کمیشن ذرائع نے بتایا کہ انتخابات ایکٹ کی منظوری کے بعد ملک کی 89 فیصد سیاسی جماعتیں انتخابی عمل سے باہر ہوتی نظر آرہی ہیں کیونکہ اب تک بیشتر سیاسی جماعتیں مطلوبہ قانونی تقاضے پورے کرنے میں ناکام ہیں کیونکہ یہ ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جن کا ڈھانچہ مکمل نہیں ہے اور ان کے پارٹی عہدیدار بھی نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ چند ماہ قبل پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے انتخابات ایکٹ کے تحت اب ہر رجسٹرڈ سیاسی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کے لئے دو ہزار کارکنوں کی فہرست اور دو لاکھ روپے پارٹی رجسٹریشن فیس کی مد میں جمع کرانے ہوں گے۔
قومی اسمبلی، سینیٹ میں کوئی وزیر خزانہ بننے کا اہل نہیں :وزیر اعظم
اسلام آباد (اپنے نمائندے سے) شاہد خاقان عباسی نے عمران خان کو لیڈر تسلیم کرلیا، کہتے ہیں ملک میں صرف دو لیڈر ہیں ایک نواز شریف دوسرے عمران خان“ آصف زرداری کو لیڈر نہیں مانتا“ ان کے نام پر ووٹ نہیں پڑتا، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کوئی شخص ایسا نہیں جو وزیر خزانہ بن سکے“ جس دن مل گیا فوری وزیر خزانہ بنادونگا“ وہ وزیراعظم ہاو¿س میں سی پی این ای کے وفد سے بات چیت کررہے تھے، وفد کی قیادت سی پی این ای کے صدر اور خبریں کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد نے کی، وزیراعظم نے کہا قائداعظم کے بعد صرف چار لیڈر آئے جن میں ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان شامل ہیں، ان میں دو لیڈر اس وقت موجود ہیں، ایک نواز شریف اور دوسرے عمران خان ہیں، انہوں نے کہا کسی کو آئین کیخلاف ورزی نہیں کرنے دونگا چاہے وہ نواز شریف ہی کیوں نہ ہوں، نواز شریف کو عدالت نے وزارت عظمیٰ سے نااہل کیا ہے سیاست سے نہیں، ابھی تک نواز شریف نے کوئی خلاف آئین کام نہیں کیا“ وفد میں شامل اخبارات کے ایڈیٹروں سے گفتگو میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک میں الیکشن وقت پر ہونگے“ 15 مارچ کو الیکشن کمیشن کی تشکیل مکمل ہوجائے گی“ 15 جولائی کو الیکشن ہوگا جبکہ نئی حکومت یکم اگست سے کام شروع کردے گی“ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں اتنے پراجیکٹ مکمل کئے جو گزشتہ 25 برسوں میں مکمل نہ ہوسکے تھے، انہوں نے کہا نواز شریف نے کبھی میرے کام میں مداخلت نہیں کی ہاں پارٹی سربراہ کے طور پر مشورہ ضرور دیتے ہیں“۔ وزیراعظم نے اے پی این ایس کے وفد سے بھی ملاقات کی اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ملک کے بہترین مفاد میں حکومت چلتی رہنی چاہیے بطور وزیراعظم انہیں کسی اندر یا باہر کے پریشر کی پرواہ نہیں اور وہ کسی قیمت پر اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ملک میں کہیں سیاسی عدم استحکام نظر نہیں آتا اگر کسی کو وہ پسند نہیں ہیں تو بے شک ان کے خلاف عدم اعتماد لے آئے۔ انہوں نے کہا کہ سول اور ملٹری تعلقات اچھی ڈگر پر چل رہے ہیں اور ہر بڑے مسئلے پر سول اور ملٹری قیادت سر جوڑ کر بیٹھتی ہے اور فیصلے کرتی ہے انہوں نے کہا کہ وزارت خزانہ نظام درست انداز میں چل رہا ہے خزانے کی چابیاں ان کے پاس ہیں اور معاملات ٹھیک ہیں۔ وزیراعظم نے کہا نیب کا قانون ایک بُرا قانون ہے اور اس قانون کو ایک آمر نے سیاسی جماعتوں کو توڑنے کیلئے بنایا تھا۔ قوم نے میاں نوازشریف کو ووٹ دیا نوازشریف نے ملک کو ایک صحیح ڈگر پر ڈالا اور اب ان کی حکومت عوام سے کئے گئے وعدے پورے کررہی ہے انہوں نے کہا کہ جس ریفرنس کا وجود نہیں اس پر ایک ہفتے میں دو دو پیشیاں ہوتی ہیں ایسا تو تب بھی نہیں ہوا تھا جب نوازشریف کے خلاف طیارہ کیس بنا تب بھی ہفتے میں ایک سے زیادہ پیشی نہیں ہوتی تھی۔ دوسری جانب عالم یہ ہے 22 ماہ گزرنے کے باوجود ڈاکٹر عاصم کے خلاف 450 ارب کی کرپشن کے مقدمہ کا چارج فریم نہیں ہوسکا۔ وزیراعظم نے کہا کسی کو حکومت میں مداخلت کا حق نہیں سیاسی جماعتیں ایک دن میں بنتی ہیں نہ ہی لیڈر۔ اس کے لئے ایک وقت لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو ایک سال سے عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ عوام خود فیصلہ کرے کہ 28 جولائی کے فیصلے سے ملک کو فائدہ ہوا یا نقصان۔ عدالتوں کو بھی اپنے فیصلے کے اثرات دیکھنے چاہئیں اور ایسے فیصلے نہیں کرنے چاہئیں جس سے ملک عدم استحکام کا شکار ہو۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملکوں کے لئے سب سے اہم چیز معیشت ہوتی ہے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو ملک کی معیشت کے مفاد میں پالیسیز بنانی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنا نہیں چاہتے اور ان کا ذاتی خیال ہے کہ ڈالر کی قدر 110 روپے کے قریب رہنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ روپے کی قدر میں مزید کمی نہیں ہوگی اور مہنگائی قابو میں رہے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ سٹیل مل کا فیصلہ حکومت کو 200 ارب روپے میں پڑا جبکہ کار کے فیصلے کی وجہ سے عالمی عدالت میں حکومت کو 765 ملین ڈالر دینے پڑے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست کے فیصلے ڈرائنگ روم کے بجائے پولنگ اسٹیشنوں پر ہوتے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ بیرونی خسارے کے حوالے سے قیامت کا منظر پیش کرنے والے معاشی حقائق سے واقف نہیں۔ پچھلے سال یہ خسارہ مشینری اور انڈسٹری کی بھاری درآمد سے بڑھا تھا ہم نے معیشت کی ترقی کی شرح میں اضافہ کیا اور اسی طرح ٹیکس ریونیو کی مد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں چیلنج کرتا ہوں ان چار سالوں میں جتنے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے اس کی نظیر پاکستان میں کبھی نہیں ملتی۔ آج بجلی کے بحران کا خاتمہ ہوگیا ہے تاہم اب بھی بجلی کی سیل اور لاگت میں 130 ارب کا خسارہ ہے۔ اس کی ایک وجہ بجلی کے بلوں کی وصولی ہے ہمیں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے صوبوں کو بھی اپنے ذمہ داری ادا کرنا چاہیے اور بجلی کے بلوں کی ریکوری میں وفاقی حکومت سے تعاون کرنا چاہیے۔ آج بجلی کے بل میں 3 روپے تو ہائیڈر پراجیکٹس کی مد میں وصول کئے جا رہے ہیں۔ وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کی تکلیف آج سامنے آرہی ہے سوچے سمجھے بغیر کئے گئے اقدامات کے اثرات آج سب کے سامنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ایک جماعت کے طور پر میچور ہوچکی ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ نوازشریف کے بطور وزیراعظم ہٹتے ہی تین دن میں نیا وزیراعظم منتخب کر لیا گیا۔ خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت وہ اور ان کی کابینہ چلا رہے ہیں تمام فیصلے مشاورت سے کئے جاتے ہیں نوازشریف نے آج تک ان کے کام میں مداخلت کی نہ ہی کسی حوالے سے ہدایات دیں۔ انہوں نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے قانون کی سینٹ سے منظوری کے لئے انہوں نے تمام پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں سے ملاقات کی ہے اور ان کے خدشات دور کر دیئے ہیں۔ جس کے بعد اب اس بل کا سینٹ سے پاس ہونے میں کسی رکاوٹ کا جواز باقی نہیں رہتا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے نگران حکومت کے دور میں 45 ہزار اسلحہ لائسنس بیچے گئے اس سے بڑی کرپشن اور کیا ہو سکتی ہے تاہم اس حوالے سے ایک مربوط پالیسی سامنے لا رہے ہیں۔
اور اب تک کی سب سے بڑی خبر ،38ارکان اسمبلی تحریک ختم نبوت پر قربان ہونے کیلئے تیار
لاہور (نیا اخبار رپوٹ) پیر آف سیال شریف کو ساتھیوں نے ختم نبوت تحریک کیلئے پنجاب سے حکومتی پارٹی کے 38 ممبران قومی اسمبلی کی حمایت کا سگنل دیدیا جبکہ پنجاب اسمبلی سے بھی 20 فیصد سے زائد حمایت کی یقین دہانی کرادی ہے۔ خفیہ اداروں کی ملنے والی رپورٹس سے انکشاف ہوا حمایت کی یقین دہانی کرانے والوں میں سرگودھا، جھنگ اور چنیوٹ کے تقریباً تمام ممبران قومی اسمبلی شامل ہیں۔ پیر بف سیال شریف کو اس حمایت کا یقین انکے مختلف نے جو پنجاب کے بڑے گدی نشین ہیں کرایا ساتھی۔ سرگودھا سے تمام 5، جھنگ سے تمام 4، چنیوٹ سے 2، اٹک سے 1، راولپنڈی سے 2، جہلم سے 1، کوشاب سے 2، میانوالی سے 1، فیصل آباد سے 2، گوجرانوالہ سے 2، حافظ آباد سے 1، شیخوپورہ سے 1، اوکاڑہ سے 2، ملتان سے 2 ، خانیوال سے 3، ساہیوال سے 1، پاکپتن سے 1، وہاڑی سے 1، مظفر گڑھ سے 1، لیہ سے 2، پہاولپور سے 2، بہاولنگر سے 1، اور رحیم یار خان سے 1ممبر اسمبلی کی حمایت کا سگنل پیر آف سیال شریف کو دیا گیا ہے ۔ پنجاب کے مختلف اضلاع جن میں سرگودھا، چنیوٹ، جھنگ، خوشاب، بھکر، میانوالی، چکوال، اٹک ، جہلم، گجرات، منڈی بہاوالدین بہاولپور، بہاولنگر، ملتان، پاکپتن، راولپنڈی، مظفر گڑھ خانیوال، حافظ آباد رحیم یار خان، ٹوبہ ٹیک سنگھ، نارووال سیالکوٹ، اوکاڑہ، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ سے 20 فیصد سے زائد ممبران صوبائی اسمبلی پنجاب کی حمایت کا یقین پیر آف سیال شریف کو دلایا گیا ہے۔ قومی امکان ہے کہ پیر آف سیال شریف اور انکے ساتھی اپنی حمایت کے پہلے حصے کا اعلان گوجرانوالہ میں کریں گے۔ سول خفیہ اداروں کے مطابق اگر ختم نبوت تحریک کا بھر پور آغاز اور ممبران اسمبلی کی استعفوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تو حکومتی جماعت کا اقتداد میں ٹھہرنا مشکل ہوجائے گا۔
وزیر اعظم ہاﺅ س سے لے کر تمام بڑے ایوانوں میں کھلبلی ،وزراءکی دوڑیں کیوں لگیں ؟؟؟
اسلام آباد ( خصوصی رپورٹ ) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ظہرانے میں شرکت نہ کرنے والے لیگی ممبران اسمبلی نے نیا طوفان کھڑا کردیا ، سابق وزیراعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ ، وزیراعظم ہاﺅس ، کیبنٹ انکلیو اور ایوان صدر میں وزراءاور ممبران کی دوڑیں لگودیں ۔ غیر حاضر ممبران کی فہرست طلب کرلی گئی ۔ عدم شرکت کی معقول وجہ نہ ہونے پر شوکاز نوٹس جاری کئے جانے سے متعلق متضاد دعوے ، مریم نواز نے بھی پارلیمنٹ اجلاس میں شرکت نہ کرنےوالے ممبران کا پتہ چلانے کےلئے ویڈیو فوٹیج حاصل کرلی، وفاداریاں بدلنے والوں کیخلاف سخت ایکشن کا فیصلہ ۔ ذمہ دار ذرائع نے آن لائن کو بتایا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے حکومت کی تمام تر کوششوںکے باوجود ظہرانے میں شرکت نہ کرنے والوں کے بارے میں سخت برہمی کااظہار کیا ہے اور ان کے بارے میں ایکشن لینے کا فیصلہ کیا ہے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نواز شریف نے تمام غیر حاضرممبران کی فہرست طلب کی ہے اس سلسلے میں رات گئے تک پارلیمنٹ ہاﺅس ، ایوان صدر ، وزیراعظم ہاﺅس اور سیکرٹریٹ ، کیبنٹ انکلیو اور ایوان صدر میں ہنگامی رابطے کئے گئے اور اکثریتی عدم شرکت والے ممبران کے ٹیلی فونک رابطے منقطع تھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شرکت نہ کرنے والے ممبران اسمبلی کو خود فون کرتی رہی ہیں اس بات پر بھی برہمی کااظہار کیاجارہاہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے دورہ لندن منسوخ کرکے تمام تر توجہ اس بات پر فوکس رکھی کہ ممبران اسمبلی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ظہرانے میں شرکت کریں تاہم ظہرانے میں 128،134اور 138کے علاوہ 146ممبران کی شرکت کی متضاد خبریں آتی رہیں جس کے بعد مریم نواز نے نہ صرف حساس اداروں بلکہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے علاوہ پارلیمنٹ سے شرکت کرنے والے ممبران کی فوٹیج بھی حاصل کرلی ہے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنا دورہ لندن منسوخ صرف اس ظہرانے کیلئے کیا تھا ان کی پاکستان میں موجودگی تمام ممبران اسمبلی کو یہ پیغام دینا تھا کہ وہ پاکستان میں رہیں گے اور اپنے مقدمات کا سامنا کرینگے تاہم اس کے باوجود ممبران کی عدم شرکت نے سیاسی محاذ پر ایک نیا سیاسی طوفان کھڑا کردیا ہے جس کے باعث وزیراعظم ہاﺅس سے لیکر تمام ایوانوں میں کھبلی مچی ہوئی ہے اور مسلم لیگ (ن) پر ایک سکتے کی کیفیت طاری ہے۔
قومی اسمبلی اجلاس کے بعد غیر حاضر ارکان کیلئے بُری خبر آگئی
لاہور،ملتان ‘ کوٹ ادو ‘مظفرگڑھ(خصوصی رپورٹ) قومی اسمبلی کے اہم اجلاس میں حکمران جماعت کے 22غیر حاضر اراکین میں سے 10کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے جن میں وفاقی وزیر سکندر بوسن ‘ این اے 156 خانیوال سے رضا حیات ہراج‘این اے 153ملتان سے رانا قاسم نون ‘ این اے 169وہاڑی سے چودھری طاہر اقبال‘این اے 174راجن پورسے جعفر لغاری ‘ بہاولنگر کے دونوں اراکین قومی اسمبلی طاہر بشیر چیمہ اور عالم داد لالیکا ‘این اے 194رحیم یار خان سے مخدوم خسرو بختیار اور مظفر گڑھ سے باسط سلطان بخاری اور سلطان محمود ہنجرا شامل ہیں۔کوٹ ادو سے منتخب ہونے والے لیگی ایم این اے سلطان محمود ہنجرا نے پریس ریلیز میں بتایا کہ اچانک طبیعت خراب ہونے کے باعث اسمبلی اجلاس میں شامل نہیں ہو سکا۔ مجھے مسلم لیگ (ن) اور پارٹی قیادت پر مکمل اعتماد ہے۔ ذرائع کے مطابق لیگی قیادت ارکان اسمبلی کی اجلاس سے غیر حاضری کے معاملے کو سنجیدہ لے رہی ہے اور غیر حاضر ارکان کو شو کاز نوٹس بھی جاری کیے جا سکتے ہیں۔ادھر معروف صحافی اور اینکر حامد میر نے دعویٰ کیا ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد ن لیگ کی پریشانیوں میں کمی نہیں مزید اضافہ ہوگیا۔ حکمران جماعت کا بے چین گروپ باقاعدہ باغی گروپ میں تبدیل ہوگیا۔ اجلاس کے دوران اسی گروپ کے اراکین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس گروپ میں 25 سے 30 اراکین اسمبلی شامل ہیں۔جبکہ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ایک ایوان سے بل منظور اور دوسرے سے مسترد ہوتا ہے تو پھر معاملہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں چلا جاتا ہےجبکہ قومی اسمبلی اجلاس میں غیرحاضر ہونے والے ارکان کیخلاف ن لیگی قیادت نے ایکشن پلان بنالیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ ارکان اسمبلی کے فنڈز بند کرنے کے علاوہ ترقیاتی کاموں کا آڈٹ کرایاجائے گا۔ اس سلسلے میں ان سے وضاحت مانگ لی گئی ہے۔باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ میٹنگ میں آنے والے بہت سے ارکان یہ بھی کہتے رہے کہ کتنا پریشر اور ڈالیں گے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق 20سے زائد حکومتی ارکان اسمبلی جو اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ انہوں نے واضح طور پر فارورڈ بلاک کی بنیاد رکھ دی۔ آئندہ چند روز میں جیسے ہی دیگر مقدمات سامنے آئیں گے اور حدیبیہ سمیت اہم کیسز کھلیں گے تو فارورڈ بلاک میں مزید ارکان کی تعداد کھل کر سامنے آجائے گی۔
50غیر قانو نی ارکان ،ترمیم کے حق میں 98,مخالفت میں 163ووٹ ،منظر نامہ کیسے تبدیل ہوا ؟
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان پیپلز پارٹی کا نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے پر پابندی کا بل قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے مستر دکر دیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی نے بل کو مسترد ہونے کا اعلان کیا تو نوید قمر اپنی کرسی پر کھڑے ہوئے اور انہوں نے ووٹنگ کے عمل کو چیلنج کیا جس کے بعد سپیکر نے ووٹنگ کی گنتی کا عمل شروع کروایا جس کے بعد صورتحال مکمل طور پر واضح ہو گئی۔ نمبر گیم میں ن لیگ نے بازی ماری اور بل کو کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے پیش کیے جانے والے بل کے حق میں 98 ممبر نے اپنی رائے کا اظہار کیا جبکہ اس بل کی مخالفت میں 163ممبرز نے ووٹ دیا۔ سپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے، اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے 167 ارکان موجود ہیں جب کہ حکومتی اتحادیوں جے یو آئی (ف)کے 13، فنکشنل لیگ کے 5 اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 3 ارکان بھی اجلاس میں شریک ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن میں شامل پیپلز پارٹی کے 45، تحریک انصاف کے 33، ایم کیو ایم کے 24، جماعت اسلامی کے 4 جب کہ مسلم لیگ (ق) اور اے این پی کے 2 ارکان شریک ہیں۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے آرٹیکل 203 میں ترمیم کا بل پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے پیش کیا۔ وزیر قانون زاہد حامد نے کہا ہے کہ پولیٹکل پارٹیز ایکٹ نیا نہیں ہے بلکہ یہ ایکٹ1962میں نافذ کیا گیا ، بھٹودورمیں ایوب خان دورکی پولیٹیکل پارٹیزایکٹ شق 1975میں نکال دی گئی اور سابق صدر پرویز مشرف نے نا اہلی والی شق آئین میں شامل کی، کیونکہ وہ سابق صدر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو سیاست سے باہر رکھنا چاہتے تھے، پولیٹیکل پارٹیز آرڈیننس ہاﺅس میں پیش ہوا لیکن کسی نے اس پر اعتراص نہیں کیا، تمام سیاسی جماعتوں کے ممبران نے اس بل کی حمایت کی تھی، بل ایوان میں منظورہواسینیٹ سے منظورہواتوکسی نے اعتراض نہ کیا اور جب یہ دیکھا گیا کہ اس کا فائدہ نواز شریف کو ہوگا تو انہوں نے اس کے خلاف ترمیم جمع کرادی۔ قومی اسمبلی میں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بل پیش کیا گیا، اس بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے نواز شریف اور بینظیر بھٹو کوپارٹی کی سربراہی سے باہر رکھنے کے لئے پولیٹکل پارٹی ایکٹ میں نا اہلی کی شق شامل کی جبکہ پارلیمنٹ کی سب کمیٹی نے 17نومبر 2014کو اس شق کو نکالنے کی منظوری دی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ قانون میں شرط تھی کہ نا اہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا لیکن اس شرط کو الیکشن ایکٹ کے ذریعے ختم کردیا گیا۔ شق 203 میں جو ترمیم کی گئی وہ آئین کی رو کے خلاف ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا ہے کہ مجھے خدشہ تھا کہ دستاویز میں کچھ گڑ بڑ ہوئی ہوگی، اس لیے میں نے آخری والی دستاویز پر دست خط نہیں کیے۔شازیہ مری مخالفین پر برس پڑیں اور کہا کہ ہمیں جمہوریت کا درس نہ دیا جائے، اندھیروں میں ملاقاتیں کرنیوالے جمہوریت کا درس دے رہے ہیں۔ جلسوں میں کہا جا رہا ہے کہ ہم نظریاتی ہیں جبکہ ذوالفقار بھٹو کا نام لے کر آپ جمہوری نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف اس پارلیمنٹ میں کتنی بار آئے؟ جب شق نکالی اس وقت پانامہ کا کچھ پتا نہیں تھا لیکن پانامہ کے بعد یہ صورت حال شدت پکڑ گئی۔قومی اسمبلی میں نا اہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کے خلاف پیپلز پارٹی کے بل کے دوران مسلم لیگ (ن) کے ظفر اللہ جمالی نے اپنی پارٹی سے اختلاف کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی حمایت میں ووٹ دیا۔ الیکشن ترمیمی بل2017ءقومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے پیش کیا، ان کے بل پر سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ووٹنگ کرائی جس میں بل کی حمایت میں98ممبران نے رائے دی جبکہ 163ممبران نے بل کی مخالفت کی ، یوں بل کو ممبران اسمبلی نے کثرت رائے سے مسترد کردیا۔ بل کی ووٹنگ کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنمائ ظفر اللہ خان جمالی نے حکومت کا ساتھ دینے کی بجائے پیپلز پارٹی کے بل کی حمایت میں ووٹ دیا۔ ظفر اللہ جمالی گذشتہ انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور بعد ازاں مسلم لیگ(ن) میں شمولیت اختیار کی۔
پرویزمشرف نے بینظیر بھٹو‘ نوازشریف کو سیاست سے باہر رکھنے کیلئے نااہلی کی شق آئین میں
شامل کی: زاہدحامد‘ ترمیم آئین کی خلاف ورزی ہے: شاہ محمود قریشی‘ گڑبڑ ہوئی: شازیہ مری
50غیر قانو نی ارکان ،ترمیم کے حق میں 98,مخالفت میں 163ووٹ ،منظر نامہ کیسے تبدیل ہوا ؟