Tag Archives: saudi arabia

عمرہ زائرین کیلئے بڑی خوشخبری

ریاض(ویب ڈیسک) سعودی عرب نے عمرہ زائرین کیلئے بائیو میٹرک تصدیق کی شرط دسمبر تک مﺅخر کر دی ہے،عمرہ درخواست گزار دسمبر سے قبل موجودہ سسٹم کے تحت ویزا حاصل کر سکیں گے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی عرب نے عمرہ زائرین کیلئے فنگر پرنٹس دینے کی شرط دسمبر تک موخرکر دی ہے۔ ترجمان سعودی سفارتخانہ کے مطابق بائیومیٹرک نظام پوری دنیا میں رائج ہے۔ بائیومیٹرک سہولت سے پاکستانی جدہ ایئرپورٹ پرطویل انتظارسے بچ سکیں گے۔ عمرہ درخواستگزار دسمبر سے قبل موجودہ سسٹم کے تحت ویزا حاصل کر سکیں گے۔ ترجمان سعودی سفارت خانہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے مسائل حل کرنے کوبڑی اہمیت دیتاہے۔ پاکستانی ذائرین کو تمام ترسہولیات فراہم کی جائیں گی۔

ایران کا مقصد سعودی عرب پر حملہ تھا

سعودی عرب (ویب ڈیسک)عرب اتحاد کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل احمد العسیری نے کہا ہے کہ ایران نے یمن سے سعودی عرب کی سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچانے کی سازش تیار کی تھی۔انھوں نے کہا کہ ”اس سازش کا آغاز یمنی سرحد سے کیا گیا تھا اور اس کے جواب میں سعودی عرب اور عرب ممالک پر مشتمل اتحاد کی فورسز نے مملکت کے دفاع کے لیے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف اور صدر عبد ربہ منصور ہادی کی قیادت میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے دفاع کے لیے مداخلت کی تھی“۔ وہ مارچ 2015ئ سے جاری آپریشن فیصلہ کن طوفان کا حوالہ دے رہے تھے۔
احمد العسیری نے انٹرویو میں بتایا کہ ایران نے اپنے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے مقامی ملیشیاو¿ں کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔ تہران نے حوثی ملیشیا کی مالی اور اسلحی مدد کا آغاز سنہ 2004ئ سے کیا تھا اور تب حوثیوں نے معزول یمنی صدر علی عبداللہ صالح کی حکومت کے خلاف بغاوت برپا کی تھی۔یمن میں جاری خانہ جنگی کے دوران میں حوثی باغی ایران کے مہیا کردہ اسلحے کو استعمال کررہے ہیں اور اس حوالے سے آئے دن خبروں اور رپورٹس کی شکل میں انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔امریکا اور خلیجی ممالک بھی ایران پر حوثی باغیوں کو اسلحہ مہیا کرنے کے الزامات عاید کرتے ہیں جبکہ ایران سرکاری سطح پر ان الزامات کی تردید کرتا چلا آرہا ہے۔
جنرل احمد العسیری نے بتایا کہ سعودی انٹیلی جنس کو ایرانی ذرائع کی جانب سے حوثی جنگجوو¿ں کو ایک سو ڈالرز روزانہ دینے کا پتا چلا ہے۔اس کے علاوہ لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کی یمن میں حوثیوں کی تربیت کے لیے موجودگی کی انٹیلی جنس اطلاعات سامنے آچکی ہیں۔انھیں سعودی عرب کے اندر خودکش کارروائیوں کی بھی تربیت دی گئی تھی۔انھوں نے کہا کہ سعودی فورسز کو یمن کو ایک ایسا میزائل اڈا بننے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں تھی جہاں سے سعودی مملکت کی سلامتی اور استحکام کو خطرات لاحق ہوسکتے تھے جبکہ ایرانیوں نے ایسی ہی سازش کی تھی اور وہ یمن کو ایک فوجی اڈے میں تبدیل کرکے وہاں سے سعودی مملکت پر حملے کرسکتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یمن کا سرحدی علاقہ اس سازش کے نتیجے میں غیر مستحکم بن جاتا اور پھر وہاں سے ایجنٹوں کو سعودی عرب میں دراندازی کا موقع مل جاتا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ یمن میں جنگ کے آغاز کے بعد سے سعودی عرب کی جانب 48 بیلسٹک میزائل داغے گئے ہیں اور حوثی ملیشیا کی جانب سے سعودی مملکت کی حدود میں یا یمن کے اندر سعودی فورسز پر 138 راکٹ فائر کیے گئے ہیں۔
بریگیڈیئر عسیری کے بہ قول یہ یقین کیا جاتا ہے کہ یہ میزائل چین ،شمالی کوریا اور سابق سوویت یونین کی ریاستوں میں تیار کیے گئے تھے۔اس کے علاوہ ایران ان میزائلوں کی تیاری اور مرمت کا ذمے دار رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ سب خطرناک بات یہ ہے کہ یہ ہتھیار ملیشیاو¿ں کے کنٹرول میں ہیں اور وہ غیر ریاستی عناصر ہیں۔اگر کسی ملک میں کوئی ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے تو اس کی حکومت کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے لیکن غیر ریاستی عناصر کو کوئی تسلیم نہیں کرتا ہے۔اس لیے ان کے قبضے میں آنے والے جدید ہتھیار بہت ہی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ اگر ایران یمن میں حکمرانی کی کوشش کرتا تو سعودی عرب کی فضائی دفاعی صلاحیتوں کو دو محاذوں مشرقی اور جنوبی محاذ پر لگا دیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔انھوں نے مزید بتایا کہ اس وقت قریباً ایک لاکھ سکیورٹی اہلکار یمن کے ساتھ واقع سرحد پر تعینات ہیں اور وہ چند روز ہی میں یمن پر قبضہ کرسکتے تھے لیکن ہمارا یہ مقصد نہیں تھا کیونکہ ہم یمن میں قانونی حکومت کی حمایت کررہے تھے اور اس کی پورے ملک میں عمل داری چاہتے تھے۔
انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج دو سال کی جنگ کے بعد حوثیوں کو مہیا کیے جانے والے بیرونی ہتھیاروں تک رسائی سے محروم کردیا گیا ہے۔وہ اپنے بہت سے تربیت یافتہ جنگجوو¿ں اور لیڈروں سے محروم ہوچکے ہیں اور بہت سے دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ یمن میں کھیل کا پانسا پلٹ چکا ہے اور وہ اتحادی فورسز کے حق میں ہوچکا ہے۔

جنرل (ر)راحیل کی سربراہی کا راستہ کس نے روکا ؟

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں بننے والے اسلامی اتحاد بارے کئی ماہ سے خبریں شائع ہو رہی ہیں لیکن حکومت کی جانب سے کہیں تردید نہ کی گئی۔ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خبریں آئیں پھر بھی تردید نہ کی گئی۔ وزیر دفاع نے بھی تصدیق کی اور دو دن بعد بیان بدل دیا۔ مشیر خارجہ تو ان سے بھی آگے نکل گئے اور ایسے کسی اتحاد میں شمولیت کا امکان بھی مسترد کر دیا۔ پوری قوم عذاب میں مبتلاہے کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔ میرے نزدیک وزیر دفاع کے ایک دم بیان بدل دینے اور اسلامی فورس میں شمولیت کے حوالے سے انکار کی وجہ امریکہ اور روس کی جانب سے آنے والا دباﺅ ہے۔ ایران نے بھی کھل کر اس اتحادی فورس بارے تشویش اور ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ ایران، عراق، شام، لبنان جیسے اہم ملک اس اتحاد میں شامل نہیں ہیں اوباما انتظامیہ تو اس اتحادی فورس کے حق میں تھی چند ماہ قبل جب اس اسلامی اتحادی فورس کا اعلان کیا گیا تو امریکہ نے کوئی مخالفت نہیں کی تھی لیکن اب نئے امریکی صدر ٹرمپ اس کے حق میں نہیں ہیں اس باعث حکومت کو یکدم یو ٹرن لینا پڑا۔ سینئر صحافی نے کہا کہ آنے والے دنوں میں سعودی فرمانروا براہ راست وزیراعظم نوازشریف سے فون پر بات کریں گے اور مطالبہ دہرائیں گے۔ شام اور سعودی عرب میں جنگ چل رہی ہے اور شام کی پشت پناہی کرتے ہوئے روس بھی پورا دباﺅ ڈال رہا ہے کہ اسلامی اتحادی فورس نہ بنائی جائے۔ ایران کی نیوز ایجنسیاں بھی اس اتحاد کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جنرل (ر) راحیل شریف کے خلاف مہم چل رہی ہے۔ جنرل (ر) راحیل شریف شاید اب بھی اسلامی اتحادی فورس کے حوالے سے کوئی بات نہیں کریں گے لیکن ان کے کولیگ جنرلز اس حوالے سے بات کرتے رہیں گے۔ جنرل (ر) امجد شعیب نے تو مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ راحیل شریف کو جانے کی اجازت دے، اس بات کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ جنرل (ر) راحیل شریف تو جانا چاہتے ہیں لیکن دنیا کی بڑی طاقتوں اس اسلامی اتحادی فورس کے بنانے کے خلاف متفق ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں جنرل (ر) راحیل شریف کے خلاف جو یکدم ایک کمپئن شروع ہوتی ہے اس میں ہمارا ایک پڑوسی ملک بھی شامل ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ میں اس بے تکی اور بیہودہ دلیل سے بالکل اتفاق نہیں کرتا کہ راحیل شریف کو سعودی عرب میں اسلامی اتحادی فورس کی سربراہی کیلئے بھیج دیا گیا تو وہ کوئی ملکی راز بھی افشا کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں کتنے ہی فوجی افسر، پولیس افسر اقوام متحدہ کے تحت مختلف ممالک میں فرائض انجام دے رہے ہیں کیا ان کے بارے میں بھی یہی سوچ اپنائی جائے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ آرٹیکل 62,63 اگر واقعی اتنا خطرناک قانون ہے، ن لیگ، پیپلزپارٹی اپنے اتحادیوں سے مل کر اسے آئین سے نکال سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی آرٹیکل 62,63 بارے جو ریمارکس دیئے ان سے اتفاق نہیں کرتا۔ جن ججز صاحبان نے اسے ناقابل عمل قرار دیا ان سے ایک پاکستانی کی حیثیت سے عرض کرتا ہوں کہ آئین کے شروع میں تعارف میں قائداعظم کی تقاریر سے اقتسابات لے کر شامل کئے گئے، تمام علماءنے متحد ہو کر قرارداد مقاصد کی منظوری دی کہ شریعت کے خلاف کوئی قانون سازی نہ ہو گی آج تک کسی عدالت نے قرارداد مقاصد کی مخالفت نہیں کی ہے۔ میری درخواست ہے کہ آرٹیکل 62,63 پر سپریم کورٹ میں دوبارہ بحث کرائی جائے، عوامی ریفرنڈم کرا لیا جائے کہ یہ کہ آرٹیکل 62,63 منظور ہے یا نہیں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ بی بی سی، وائس آف امریکہ یا دیگر غیر ملکی خبر رساں ادارے خبر دینے میں آزاد ہیں۔ پانامہ میں میں اب تک جو کچھ سامنے آیا ہے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ابھی عدالت نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا صرف ریمارکس دیئے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ سکول غیر جانبداری سے کیس سن رہی ہے۔ سینئرصحافی نے کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ خود کو لبرل اور سیکولر ظاہر کرنے کیلئے جو منہ میں آئے کہہ دے۔