لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پارلیمانی اجلاس بلایا جانا خوش آئند ہے کہ ون پوائنٹ ایجنڈا پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوئیں۔ اس وقت امریکہ بھارت اور افغانستان کو پیغام دینے کی ضرورت تھی کہ ہم سب متحد ہیں اجلاس کے مثبت اثرات سامنے آئیں گے۔ کامیاب کاوش پر وزیراعظم اور تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو مبارکباد دیتا ہوں۔ تحریک انصاف اگر حکومت کو یقین دہانی کرائے کہ اگر انہیں مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کیلئے بیرون ملک جانے والے وفد میں نمائندگی دی جائے تو وہاں وہ صرف اس مسئلہ پر بات کریں گے اور گو نواز گو کا نعرہ نہیں لگائیں گے تو حکومت انہیں بھی نمائندگی دے سکتی ہے۔ بارہا کہہ چکا ہوں کہ بیرون ممالک میں مسئلہ کشمیر پر ان لوگوں کو بھیجا جائے جن کی سنی جاتی ہے اور عمران خان بھی ایک ایسا ہی فرد ہیں ان سے درخواست کروں گا کہ دنیا میں اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کریں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ آج کے اجلاس میں جو ہوا وہ تو موچی دروازہ یا مینار پاکستان پر کی گئی تقاریر ہی لگتی ہیں گویا آپ پاکستان کی عوام میں اپنی اپنی لابی کو مخاطب کر رہے تھے کہ ہم مسئلہ کشمیر پر ایک ہیں۔اور بھارت، مقبوضہ کشمیر کے عوام اور دیگر طاقتور ممالک کو بتا رہے تھے کہ ہم میں اس مسئلہ پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر آج اجلاس کا یہ مقصد تھا تو پھر تو اسے کامیاب کہا جا سکتا ہے لیکن مسئلہ کشمیر پر کوئی مستقل پالیسی کا فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ مستقل پالیسی شاید اسی وجہ سے نہیں بن سکی کہ ہر دور حکومت میں مسئلہ کشمیر پر مختلف پالیسی اختیار کی جاتی رہی ہے۔ کبھی کشمیر میں مجاہدین بھیجے گئے تو کبھی اسے مردہ گھوڑا قرار دیا گیا۔ کبھی اس کے 6 حصے کرنے کی بات کی گئی۔ سینئر صحافی نے کہا کہ وزارت خارجہ اور تمام سیاسی جماعتوں سے امور خارجہ کے ماہر کو لے کر بیٹھ جانا چاہئے اور مسلسل مشاورت کر کے ایک مستقل پالیسی بنائی جانی چاہئے جو ریاست کی پالیسی ہو اور ہر حکومت اس پر عملدرآمد کی پابند ہو۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کشمیر میں جدوجہد کرنے والوں کی نہ تو حافظ سعید مدد کر رہے ہیں نہ ہی جماعت اسلامی فعال ہے۔ 3 ماہ سے وہاں جاری آزادی کی جدوجہد وہیں کے لوگ کر رہے ہیں پاکستان سے ان کی کوئی مدد نہیں کی جاتی۔ کشمیری اب تنگ آ چکے ہیں اور مرنے مارنے پر اتر آئے ہیں اسی لئے تو غیر تربیت یافتہ نوجوان بھی بھارتی فوجی اڈوں پر حملے کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے بلوچستان اور سندھ میں کشمیر کے حوالے سے وہ احساس نہیں پایا جاتا جو ہونا چاہئے۔ ایک زمانے میں آزاد کشمیر کی تحریک آزادی کا بیس کیمپ سمجھا جاتا تھا اور وہاں مختلف سیاسی جماعتیں تھیں اس وقت کہا جاتا تھا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو وہاں نہیں جانا چاہئے جو ایک اچھی پالیسی تھی اب تو جو پاکستان کا وزیراعظم ہے اس کی وہاں بھی حکومت قائم ہے۔ پچھلے دنوں ایک ملاقات میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم نے بتایا کہ قائداعظم کے سیکرٹری رہنے والے کے ایچ خورشید کو کشمیر کی صدارت سے اتار کر گرفتار کر لیا گیا تھا جب انہوں نے یہ تھیوری پیش کی کہ آزاد کشمیر کو آزاد ریاست تسلیم کر لیں جو سارے کشمیر کی نمائندگی کرتی ہے پھر تمام دوست ممالک سے اس کو تسلیم کرائیں اس کے بعد ہمیں ہمیں اپنا کیس خود لڑنے دیں ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ رینجرز نے سندھ میں باقاعدہ بتایا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ میں پکڑے جانے والے 100 میں سے 81 تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔ پہلے تو صرف ایک ہی سیاسی جماعت کا کہہ کر ٹال دیا جاتا تھا۔ مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے سینئر صحافی نے کہا کہ اپنے باخبر ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ سی پیک کے حوالے سے چین میں تشویش پائی جاتی ہے۔ چین اب تک 36 ارب ڈالر دے چکا ہے اور ریل کی پٹڑیوں کی اپ گریڈیشن کیلئے مزید 8 ارب ڈالر دے دیا ہے۔ چین بھارت امریکہ گٹھ جوڑ کے بعد چین ہی دنیا میں ہمارا آخری دوست رہ گیا ہے اگر ہم اس کی جانب سے دیئے گئے موقع سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے تو یہ ہماری بدقسمتی ہو گی۔ سیاسی جماعتوں سے بھی بڑھ کر یہ ذمہ داری بلوچستان اور کے پی کے پر عائد ہوتی ہے جہاں سے سی پیک نے گزرنا ہے۔ چین نے کہہ دیا ہے کہ ارمچی سے تین سو ٹرالوں کا پہلا قافلہ جلد روانہ ہونے والا ہے جو تجارتی سامان لے کر گوادر پہنچے گا اور یہ وہاں سے دنیا بھر میں بھیجا جائے گا۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ جب تمام پارلیمانی لیڈروں کو بلایا گیا ہے تو شیخ رشید کو بھی بلایا جائے۔ شیخ رشید نے حکومت پر جو الزامات لگائے ہیں ان کا جواب وہ خود ہی بہتر دے سکتے ہیں۔ حکومت سے ہمارے شدید اختلافات اپنی جگہ ہیں لیکن بھارت اور دنیا کو پیغام دینا تھا کہ پاکستان کی خود مختاری کیلئے بھارت کے معاملہ پر ہم سب متحد ہیں۔ کشمیریوں کے ساتھ مکمل ہمدردی رکھتے ہیں۔ ہم نے دنیا کو یہ پیغام دے دیا ہے۔ حکومت سے یہ بھی کہا ہے کہ قومی اتحاد کی راہ میں جو بھی رکاوٹیں ہیں ان کو دور کرے پانامہ ایک بڑی رکاوٹ ہے اسے حل کیا جائے۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال پانامہ لیکس کے بعد سامنے آئی ہے ہمارا قومی فرض بنتا تھا کہ پارلیمانی اجلاس میںشریک ہوتے اس لئے اس کو مثبت انداز میں لیا جانا چاہئے۔ ہم اپنی ذمہ داریوں سے قطعاً غافل نہیں ہیں۔ حکومت پانامہ پر لیت و لعل سے کام لے رہی تھی اس لئے ضروری سمجھا کہ عوامی جلسہ کیا جائے اور عوام نے بھرپور انداز میں شرکت کر کے حکومت کے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ پانامہ عوامی ایشو نہیں ہے۔ بلاول بھٹو نے اجلاس میں پانامہ پر بات کی اور کہا کہ حکومت اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور جوائنٹ بل پر پیش رفت کرے اس سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے ورنہ معاملات بگڑ سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی اگر جوائنٹ بل پر پیش رفت نظر نہ آئی تو ممکن ہے کہ وہ سرکوں پر نہ نکلنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر بات ہوئی سب کے خیالات سنے گئے۔ حکومت جو قرارداد پہلے لائی تھی وہ تو بالکل ٹھس اور بے جان تھی۔ اب مشترکہ اعلامیہ میں بلوچستان اور پانی کے مسئلہ سمیت اہم ایشوز شامل کئے گئے ہیں جن پر سب نے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر حکومت نے جتنے بھی وفود باہر بھیجے پی ٹی آئی واحد جماعت ہے جس کو ان میں نمائندگی نہیں دی گئی۔ لندن میں خبریں کی نمائندہ شمع جونیجو نے کہا کہ پاکستان میں سی پیک کو جس طرح تماشا بنا دیا گیا ہے اس پر چین پریشان ہے۔ کبھی روٹ کو تبدیل کر دیا جاتا ہے کبھی صوبوں اور سیاستدانوں کے تحفظات سامنے آ جاتے ہیں۔ چین والے روتے ہیں کہ اَب ان سیاستدانوں سے ہماری جان چھڑائیں۔ بیرون ملک کے سفارتکاروں سے بات کریں تو وہ ہمارے ندیدے پن کا ذکر کرتے ہیں جس پر افسوس ہوتا ہے۔ قدرت نے ہمیں سنٹرل ایشیا تک رسائی کا اتنا اچھا موقع دیا ہے اور ہم اسے تماشہ بنا رہے ہیں۔ حکومت کی مذمت نہیں کرتی لیکن تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں سے کہنا چاہتی ہوں کہ مثبت رول ادا کریں۔ بدقسمتی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے سی پیک کو صرف سیاسی اور معاشی فائدے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔