Tag Archives: zia shahid kay Sath with mola bakhsh chandioo

لندن یا کراچی ایم کیو ایم سیاسی مصالحتوں نے 2دھڑے بنائے مشیر اطلاعات سندھ کی ضیا شاہد کیساتھ گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) آرمی چیف ملازمت میں توسیع کے حوالے سے خود فیصلہ کریں، ماضی میں توسیع لینے والوں کو اچھا نہ سمجھا گیا، آرمی چیف کی توسیع پر سیاست چمکائی جا رہی ہے، پوسٹر آویزاں کئے جا رہے ہیں دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا، وفاقی حکومت یہ روایت ختم کرے، مراد علی شاہ بہتر وزیراعلیٰ ثابت ہوئے صوبائی معاملات بہتر ہوئے ہیں، ہمارے یہاں جمہوریت پابند ہے۔ وفاق کو صوبوں سے مشاورت کرنی چاہئے، بلاول کے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے اور سیاست چمکائی جاتی ہے، ایم کیو ایم مصالحت کے تحت علیحدہ علیحدہ ہوئی ہے یہ سارا ڈرامہ ہے، ایم کیو ایم اور ن لیگ ضیا دور کی پیداوار ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اور سینئر مولا بخش چانڈیو نے ”چینل۵“ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں خصوصی بات چیت کے دوران کیا۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے ان سے سوالات کئے۔ مولا بخش چانڈیو کا انٹرویو سوالاً جواباً درج ذیل ہے۔سنیٹرمولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ آمروں نے 14 برس گورنر کے عہدے پر رہے تو اس میں کوئی مضائقہ مراد علی شاہ محنتی اور تیز ہے، اس کی تعیناتی کے بعد صوبے میں بہت بہتری آئی ہے۔ قائم علی شاہ نے بھی 8 سال حکمرانی کی۔
ضیا شاہد: ”پی پی نے عشرت العباد پر لگنے والے سنگین الزامات کا کبھی نوٹس کیوں نہیں لیا۔
مولا بخش چانڈیو:سابق وزیر نے کہا کہ ہمارے یہاںجمہوریت مضبوط نہیں ہے۔ گورنر کے عہدے پر عشرت العباد کو لگانے کے بھی کچھ مقاصد تھے۔ ہمارا اس میں کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ ان پر قتل کے کیسز کے کئی معاملات تھے۔ عشرت العباد کے جانے کے بعد نون لیگ کے نہال ہاشمی نے کہا کہ دہشتگردی کی آخری نشانی ختم ہو گئی۔ جمہوریت انتہائی کمز ور ہے۔
ضیا شاہد: ”عشرت العباد جیسا مشکوک آدمی پی پی کے ہر اہم اجلاس میں شریک رہا اس پر کبھی حیرت نہیں ہوئی۔“
مولا بخش چانڈیو: مجھے تو بہت حیرت ہوئی تھی۔ لیکن نظام ایسا ہے کہ سابق گورنر کا کوئی حساب کتاب نہیں ہو سکتا۔ قومی سلامتی اداروں کے خلاف بات ہو تو انہیں چاہئے کہ وہ اٹھا باہر پھینکیں۔
ضیا شاہد:”پیپلزپارٹی نے 14 برس ایسے شخص کو کیسے برداشت کیا جو پارٹی میں بھی مشکوک تھا؟“
مولا بخش چانڈیو: یہاں پابند جمہوریت اور حکومت ہے۔ آزاد فیصلے نہیں ہوتے۔ یہاں کسی پابندی کے بغیر جمہوریت پنپ بھی نہیں سکتی۔
ضیا شاہد: ”گورنر کو ہٹانے پر پیپلزپارٹی نے وفاقی حکومت سے شکایت کس بنیاد پر کی؟“
مولا بخش چانڈیو: سندھ بالخصوص کراچی میں ایک خاص قسم کی جنگ لڑ رہے ہیں جس میں وزیراعظم بھی شریک ہیں۔ کراچی آپریشن پر حکومتی جماعت سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا۔ گورنر کو ہٹا دیتے لیکن مشاورت کے ساتھ، جو فیصلہ مشاورت سے ہوتا ہے اس کے اچھے نتائج نکلتے ہیں۔ سعید الزمان صدیقی نے مشرف دور میں بہادری کا مظاہرہ کیا اب بھی انہیں جرا¿ت کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ یہاں رسم نہیں کہ وقت آنے سے پہلے کسی کو ریٹائرڈ کریں۔
ضیا شاہد: ”بانی متحدہ کے حوالے سے سندھ اسمبلی کی قرارداد اور بلاول کے بیان میں حقیقت کیا ہے؟“
مولا بخش چانڈیو:(ہنس کر کہا )آپ میرا امتحان لے رہے ہیں۔ اعتراف کرتا ہوں کہ بہت سی چیزیں نہیں بتا سکتا۔ البتہ بلاول نے بانی متحدہ کے بارے ایسا نہیں کہا جیسا اپوزیشن نے شور مچا رکھا ہے۔ ایک ہی لفظ کئی معنوں میں استعمال ہو جاتا ہے۔ سیاستدان اس فن سے خوب واقف ہیں۔ ہم طالبان کے خاتمے کی بات کرتے ہیں جو ہم میں سرائیت کر چکے ہیں۔ ایسی باتیں بھی ہوتی رہی ہیں کہ پنجاب میں بھی بانی متحدہ جیسا کوئی ہونا چاہئے۔
ضیا شاہد: ”کیا ایم کیو ایم پاکستان واقعی ایک نئی سیاسی جماعت بن گئی ہے؟ فاروق ستار نائن زیرو پر بیٹھ کر بانی متحدہ کے کہنے پر قتل و غارت کرواتے تھے؟ کیا اب انہیں سچا، کھرا اور محب وطن سمجھیں یا وہی بانی متحدہ کے پرانے ساتھی؟“
مولا بخش چانڈیو: ایم کیو ایم نے جو کیا مصلحت کے تحت کیا میں اس کو مختلف نہیں سمجھتا۔ یہ ابھی بھی پرانے سیٹ اپ کا حصہ ہے، حالات کی وجہ سے علیحدگی کا اعلان کرنا پڑا۔ ففٹی ففٹی اشتہار کی طرح یہ بھی ایک ڈرامہ ہے۔
ضیا شاہد: ”کراچی میں ہر ادارے پر ایم کیو ایم کا راج تھا۔ آج مخصوص گلی، محلے، علاقے اور آبادیوں کو انہوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ پیپلزپارٹی کی کیا غلطی و کوتاہی تھی کہ اس نے پیچھے ہٹ کر ایم کیو ایم کا راستہ صاف کر دیا؟“
مولا بخش چانڈیو: اس حوالے سے ان کے ہاتھ خالی ہیں، اس کا اختیار کسی اور کے پاس ہے۔ فوجی جوانوں پر حملے کئے گئے اس کے بعد کراچی آپریشن کو ضروری سمجھا گیا۔
ضیا شاہد: ”ایم کیو ایم کو ضیا دور میں پروان چڑھایا گیا اب مشرف کا ذکر بھی ہو رہا ہے؟“
مولا بخش چانڈیو: لسانی اور فرقہ وارانہ سیاست ضیا نے شروع کی۔ اسی کے دور میں لسانیت پیدا کی گئی۔ جمہوریت کو ہتھکڑیاں پہنانے کے لئے ہمیشہ کراچی کا رُخ کیا گیا۔ ضیا نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ ایم کیو ایم اور نون لیگ دونوں ضیا دور کے بیج ہیں اب جوان ہو کر پھل دے رہے ہیں۔ کراچی میں ضیا دور کی حلقہ بندیوں کی تبدیلی انتہائی ناگزیر ہے۔ کراچی میں جتنی قتل و غارت مشرف کے دور میں ہوئی ایسی کبھی پہلے نہیںہوئی۔
ضیا شاہد: ”متنازعہ خبر کے معاملے پر پیپلزپارٹی کہاں کھڑی ہے؟“
مولا بخش چانڈیو: پیپلزپارٹی اپوزیشن کے ساتھ کھڑی ہے۔ وفاقی حکومت نے اپنے شائستہ وزیر پرویز رشید کو بکرا بنا کر قبول کیا ہے کہ غلطی انہی کی ہے۔ اب اداروں کو ایکشن لینا چاہئے، ایسی غلطی کی معافی نہیں ہوتی۔ عمران خان نے اکیلے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا جس پر بلاول کا کہا سچ ثابت ہوا۔ رائے ونڈ یا اسلام آباد احتجاج سے تحریک انصاف کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔
ضیا شاہد: کیا آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع ملنی چاہئے یا نہیں، اس سے پہلے بھی 3,3 سال توسیع دی گئی کبھی گھر بھی بھیج دیا گیا؟“
مولا بخش چانڈیو: آرمی چیف راحیل شریف نے اپنا نام بنایا، مشکل وقت میں حکومت کے ساتھ چلے۔ ان کی عزت و احترام ایسے ہی قائم دائم رہنا چاہئے۔ ان کے پہلے فیصلے پر خوشی ہوئی تھی۔ راحیل شریف نامور گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، خود فیصلہ کریں۔ ماضی میں توسیع لینے والوں کو کبھی اچھا نہیں سمجھا گیا۔ ہمارے ملک جیسا ماحول کہیں بھی نہیں ہوتا۔ ایٹمی ملک کے آرمی چیف کی مدت ملازمت یا تعیناتی پر سیاست چمکائی جا رہی ہے۔ عجیب و غریب سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کہیں پوسٹر آویزاں کئے جا رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ اس روایت کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کرے۔