لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتےہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ قومی ایشوز پر مشترکہ اجلاس بلایا جانا خوش آئند ہے۔ دنیا کو پیغام جاتا ہے کہ ہم سب متحد ہیں لیکن عوامی بنیادی مسائل پر بات کرنا بھی تو ضروری ہے۔ بجلی بحران کے باعث قوم سخت تکلیف میں مبتلا ہے ایک جوائنٹ سیشن اس مسئلہ پر بھی تو بلایا جائے ”خبریں‘’ میں ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بجلی نہ ہونے کے باعث پوری قوم کے رویے تبدیل ہو گئے ہیں چڑچڑا پن، جھگڑے، دھینگا مشتی ذہنی کوفت، گھروں میں جھگڑے اور طلاقوں کی شرح بڑھ رہی ہے۔ عوام کو سیاست کی نہیں بجلی کی ضرورت ہے۔ ایوان بالا و زیریں میں صرف سیاست کے بجائے کبھی عوام کے مسائل پر بھی بحث ہونی چاہئے۔ آج تک اسمبلی میں یہ بت نہیں سنی کہ ہماری ٹرانسمیشن لائنیں خراب ہیں بجلی دگنی بھی ہو جائے تو یہ لائنیں اسے برداشت ہی نہیں کر سکتی، بارش کا ایک قطرہ بھی گرے تو گرڈ سٹیشن ٹرپ کر جاتے ہیں۔ خدارا یہ مسائل بھی تو حل کئے جائیں ان پر بھی اسمبلیوں میں آواز اٹھائی جائے۔ ریلوے لائن بچھائی جاتی ہے نہ ٹرانسمیشن لائنیں نہ ہی ان کاموں کے لئے رقم مختص کی جاتی ہے۔ سکولوں کی حالت زار دگرگوں ہے ایک کمرے کے سکول میں پانچ کلاسیں بیٹھی ہیں جنہیں ایک استاد ہی پڑھا رہا ہے وہ کیا پڑھائے گا۔ ساری قوم سیاست زدہ ہو چکی ہے جس کو دیکھو سیاست پر بات کرتا نظر آتا ہے۔ معمولی محنت کش سے لے کر اعلیٰ عہدیدار تک ہر کسی کی زبان پر صرف سیاست ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ پچھلے دنوں وزیراعظم سے ملاقات میں واحد شخص تھا جس نے عوام کی صحت کے مسائل پر بات کی باقی سب تو صرف سیاست کی باتیں کرتے رہے۔ میڈیا پر بھی صرف پاور پالیٹکس چلتی رہی ہے۔ عوام کے بنیادی مسائل کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ پی ٹی آئی اگر اسمبلی میں نہیں گئی تو بھی وہ مسئلہ کشمیر پر حکومت کے ساتھ ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ ٹارگٹ کلر سعید نے فاروق ستار، حیدر عباسی، وسیم اختر، ندیم نصرت و دیگر رہنماﺅں بارے انکشاف کیا ہے کہ وہ ٹارگٹ کلنگ کراتے تھے۔ میں ہمیشہ یہی کہتا آیا ہوں کہ صرف الطاف حسین کو ہی مورد الزام ٹھہرا کر جرائم سے پہلو تہی کی جا رہی ہے۔ یہ سب جو علیحدہ جماعتیں بنا کر بیٹھ گئے ہیں یہ سب جرائم میں اس کے ساتھ تھے۔ آج سے ایک سال پہلے تک کیا تصور کیا جا سکتا تھا کہ کوئی عزیز آباد میں جاکر تلاشی لے۔ بابر غوری کو اسلحہ کے حوالے سے لگنے والے الزامات پر زبان کھولنا ہوگی تصدیق یا تردید کرنا ہوگی۔ ان کے دور وزارت میں نیٹو کی 300 کنٹینرز کے غائب ہونے کی خبر ائٓی تھی۔ مجھے کراچی سے لاتعداد افراد فون کر کے بتا چکے ہیں کہ یہ وہی نیٹو کا غائب ہونے والا اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ سکاٹ لینڈ یارڈ بارے کبھی میرا تصور تھا کہ بڑی کمال کی پولیس ہے جس سے کوئی مجرم نہیں بچ سکتا لیکن اب پتہ چلا ہے کہ برطانیہ میں بھی ایک سے ایک بڑا دھوکے باز بیٹھا ہے، ادارے کرپٹ ہیں حکومتیں بددیانت ہیں جس طرح برطانیہ نے الطاف حسین سے لیکر صربیار مری اور خان آف قلات کو پناہ دے رکھی ہے۔ تاکہ ا نہیں وقت پڑنے پر استعمال کیا جا سکے۔ برطانیہ کی آئیڈیل جمہوریت کا چہرہ بھی ننگا ہو گیا ہے۔ کیسے مانا جا سکتا ہے کہ برطانوی قانون اب تک الطاف حسین کے جرائم تک نہیں پہنچ سکا۔ لندن میں خبریں کی نمائندہ شمع جونیجو نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عزیز آباد میں اتنے بڑے اسلحہ ذخیرے کا پکڑا جانا لمحہ فکریہ ہے۔ یہ وہی اسلحہ ہے جو نیٹو کا غائب ہوا تھا جس بارے ذوالفقار مرزا بھی کہتا تھا۔ پیپلز پارٹی کے ایک ذمہ دار نے بتایا ہے کہ کئی اور مکانات ہیں جہاں اتنا ہی اسلحہ پڑا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ کراچی کے مضافات میں آباد پٹھانوں کے پاس بھی ایسا ہی اسلحہ رکھا ہوا تھا جو وہ ایم کیو ا یم، پیپلز پارٹی اور مذہبی دہشتگردوں کو بیچتے رہے۔ پکڑے گئے ا سلحہ کا ایک چوتھائی بھی محرم کے دوران استعمال ہو جاتا تو کیا نتائج سامنے آتے بھارت کو ہم پر پھر حملہ کرنے کی کیا ضرورت رہ جاتی۔ سیاسی قیادت جب تک پوری سچائی کے ساتھ بدامنی اور لاقانونیت کو ختم کرنے کا عزم نہیں کرے گی نتائج سامنے نہیں آئینگے۔ کراچی میں صرف متحدہ کے پاس دیگر پارٹیوں کے پاس بھی بڑی تعداد میں اسلحہ موجود ہے۔ مذہبی دہشتگردوں کے پاس تو شاید اسی سے بھی زیادہ اسلحہ ہوگا۔ پولیس افسران سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ عزیز آباد میں ایسے چار پانچ اسلحہ ڈپو مزید ہو سکتے ہیں۔ سہراب گوٹھ تو نو گو ایریا ہے جہاں کسی کو جانے کی ہمت ہی نہیں پڑتی۔ الطاف حسین سے محض لاتعلقی اختیار کرنے سے تو کوئی پاک صاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان سب متحدہ رہنماﺅں کو پتہ ہے کہ اسلحہ کہاں کہاں چھپایا گیا ہے۔ فاروق ستار و دیگر رہنما اگر واقعی سچے ہیں تو مخبری کیوں نہیں کرتے نشاندہی کر کے اسلحہ پکڑوائیں۔ ایم کیو ایم کا کوئی بھی رہنما چاہے وہ براہ راست ملوث ہے یا نہیں لاعلم تو ہر گز نہیں ہو سکتا۔ کراچی میں گرفت ختم ہونے سے الطاف حسین کی برطانیہ میں وہ سیاسی سپورٹ نہیں رہی جو ایک سال پہلے تک تھی۔ اب تو برطانوی ممبران پارلیمنٹ بھی الطاف حسین کے خلاف بڑے سوالات اٹھا رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے معروف سیاستدان جاوید ہاشمی نے کہا کہ واقعی یہ حقیقت ہے کہ بجلی بحران کے باعث پورا ملک متاثر ہے۔ عوام کے رویے تبدیل ہو چکے ہیں چڑچڑا پن اور جھگڑے بڑھ گئے ہیں۔ بجلی نہ ہونے کے باعث بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا آج کے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے سے پوری دنیا کو کشمیر پر ہمارے متحد ہونے کا تاثر نہیں جائے گا جو بدقسمتی ہے۔ دنیا بھر میں پارلیمنٹ میں بولنے والے پانچ چھ افراد ہی ہوتے ہیں باقی تو صرف بھرتی ہوتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ آج مشترکہ اجلاس میں تقریر ایسی تھی کہ جس میں تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا۔ پاکستان میں 11 مختلف حلقوں سے الیکشن جیتنے والا واحد سیاستدان ہوں۔ ہمیشہ اپوزیشن میں رہنے کی خواہش کی۔ بدقسمتی سے ہماری ترجیحات ہی علط ہیں۔ ایک حکومت ایک کام شروع کرتی ہے تو دوسری آ کر اسے روک دیتی ہے۔ پرویز مشرف دور میں نیب نے پہلے سال کام ٹھیک کیا تھا۔ ہمارے یہاں ہمدردی کے ووٹ مل جانا جمہوریت کے لئے اچھا نہیں ہے۔ جمہوریت اسی وقت مضبوط ہوئی ہے جب حکومت کو مدت پوری کرنے کا موقع ملے۔