تازہ تر ین

برطانوی نظام ” عدل“ پر سوال اُٹھنے لگے

کراچی (نجیب محفوظ سے) صوبائی دارالحکومت میں لندن سے یہ خبر آنے کے بعد کہ الطاف حسین کو منی لانڈرنگ کے کیس سے بری کر دیا گیا ہے سیاسی حلقوں میں بحث شروع ہو گئی ہے کہ برطانوی نظام عدل بری طرح ناکام ہو گیا اوار لندن سے بھی بعض پاکستانی یہاں فون کر رہے ہیں کہ کسی شخص کے گھر سے 5 ہزار پونڈ بھی برآمد ہو جائیں تو اسے منی لانڈرنگ میں سزا ہو جاتی ہے پھر الطاف حسین کے خلاف تو اتنے ثبوتوں، گواہیوں کے باوجود انہیں صاف بری کیوں کر دیا گیا جبکہ سرفراز مرچنٹ نے خود تسلیم کیا تھا کہ میرے ذریعے بھاری مقدار میں بڑی بڑی رقوم کی ہر ماہ منی لانڈرنگ ہوتی رہی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی طرف سے سرکاری طور پر شکایت کی گئی کہ الطاف حسین لندن میں بیٹھ کر کراچی میں لوگوں کو جائز اور قانونی حکومت کے خلاف اکسا رہے ہیں لیکن اس پر بھی برطانوی حکومت اور نظام انصاف کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ دریں اثناءلندن کے بعض ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ قانونی حلقوں بالخصوص پاکستانیوں میں بحث جاری ہے برطانوی نظام قانون نے اس ضمن میں کمزوری کیوں دکھائی۔ قانون اور سیاست سے متعلق بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ برطانوی پولیس کے پاس بے شمار تحریری ثبوت اور گواہیاں موجود ہیں لیکن بہت اوپر سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس مقدمے کو آگے بڑھانے کے بجائے حتم کر دیا جائے کیونکہ اگر یہ کیس عدالت میں چلتا ہے تو تمام تحریری ثبوت سامنے لانے ہوں گے اور یہ افواہ عام ہے کہ ان سب ثبوتوں میں یہ ثبوت بھی شامل ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں انڈیا سے بھی ایم کیو ایم کو رقوم وصول ہوتی رہی ہیں اگر کیس عدالت میں چلتا ہے تو الزام انڈیا کی طرف بھی جائے گا جس سے برطانوی حکومت بالخصوص اس کے حساس ادارے اور ایجنسیاں پسند نہیں کرتیں۔ اور ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ اور انڈیا کے مابین تعلقات اس شواہد کے برسرعام آنے پر حراب ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ اِن افواہوں اور خبروں کی حقیقت کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایسی باتوں کے ثبوت صرف برطانوی حکومت کے پاس ہو سکتے ہیں جو بالعموم پاکستان کے خلاف ان علیحدگی پسندوں کو تحفظ اور سیاسی پناہ فراہم کرتی ہے جو پاکستان سے فرار ہو کر برطانیہ پہنچتے ہیں وہ بلوچستان کے علیحدگی پسند ہوں یا ایم کیو ایم کے انہیں مکمل تحفظ دیا جاتا ہے اور یہ پاکستانی حلقوں میں یہ خیال بھی عام ہے کہ یہی نہیں بلکہ پاکستان سے آنے والے ان سول اور پولیس افسروں کو بھی تحفظ دیا جاتا ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان میں بعض اپوزیشن پارٹیو ںاور تنظیموں کی طرف سے انہیں جان کا خطرہ ہے لندن میں موجود ایک پاکستانی سے ٹیلی فون پر رابطہ ہوا تو اس نے کہا کہ جب سے برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوا ہے یوں لگتا ہے کہ یہاں بھی پاکستان کی طرح مارشل لا لگ گیا ہے اور قانون میں عملدرآمد میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain