تازہ تر ین

” حالت جنگ میں ایسی خبر نہیں دی جا سکتی جس سے دشمن کے ہاتھ مضبوط ہوں “ نامور اخبار نویس ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل معروف پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ متنازعہ خبر کے حوالے سے ابھی تک کوئی مصدقہ اطلاع سامنے نہیں آئی۔ اے پی این ایس اور سی پی این ای وفود کی وزیر داخلہ سے طویل ملاقات میں صرف اس موضوع پر بات چیت ہوئی۔ فوج نے اس خبر پر اعتراض اٹھایا اور آرمی چیف نے وزیراعظم سے شکایت کی اور ذمہ داران کو سامنے لانے کا کہا ہے۔ ذاتی خیال ہے کہ فوج کو اس خبر کے حولے سے مکمل معلومات حاصل ہیں کہ کسی نے خبر بھیجی کون کون اس کے پیچھے ہے ثبوت اور سکیننگ موجود ہے۔ فوج اپنی معلومات کو بعص ٹیکنیکل معاملات کے اعث آشکارا نہیں کر رہی۔ حکومت پر خبر کے حوالے سے بڑا دباﺅ ہے کہ ذمہ داران کو سامنے لائے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ پرویز رشید تو اس اجلاس میں شامل ہی نہیں تھے اس لئے وہ تو خبر لیک میں شامل نہیں ہو سکتے وزیر داخلہ بھی کھرے آدمی ہیں انہیں چاہئے کہ تحقیقات کر کے ذمہ داران کو سامنے لائیں اور ہر بندے پر شک و شبہے کا جس طرح اظہار ہو رہا ہے وہ بند ہو جائے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر خبر کے حوالے سے عجیب و غریب کہانیاں چل رہی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ جلد از جلد انکوائری کر کے سچ کو سامنے لائے تا کہ الزامات کا سلسلہ بند ہو۔ آزادی صحافت کیلئے ساری عمر جنگ کی ہے اسی لئے یہ سمجھتا ہوں کہ کسی اخبار یا صحافی کو صفائی کا موقع دیئے بغیر سزا دینا درست عمل نہیں ہے۔ وزیر داخلہ سے ملاقات میں بھی یہی موقف دیا کہ بغیر کسی تحقیقات اور ثبوت کے کسی کا نام ای سی ایل میں ڈال دینا اسے سزا دینا ہے۔ میں نے چودھری نثار سے کہا کہ صرف باہر ہی نہ دیکھیں اپنے بندوں کو بھی چیک کریں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ آزادی اظہار کا مطلب کھلی چھٹی نہیں ہوتا۔ اگر میرے پاس ثبوت اور شواہد نہیں ہیں اور میں خبر دے دیتا ہوں تو میں مجرم ہوں۔ 17 سال کی عمر سے صحافت کے میدان میں ہوں۔ اگر میں ایڈیٹر ہوتا اور میرے پاس وہ خبر آتی تو اسے شائع کرنے کی اجازت نہ دیتا۔ جنگ کا سب سے بڑا فعل سچ ہوتا ہے ملک حالت جنگ میں ہو یا جنگ کی فضا ہو تو کوئی ایسی خبر نہیں شائع کرنی چاہئے جس سے دشمن کو فائدہ پہنچے۔ میں اس لئے خبر کو شائع کرنے سے روک دیتا کہ بھارت تو پہلے ہی پاکستان پر چڑھائی کر رہا ہے۔ پوری دنیا میں پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کو سپورٹ کرتا ہے غیر ریاستی عناصر کو پالتا ہے جس کے باعث امریکہ اور یورپی ممالک بھی اس کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ اس صورتحال میں ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ بھارتی پروپیگنڈے کا مقابلہ کریں اس کی تردید کریں اور بھارت کا اصل مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے لائیں۔ کیا بھارت میں نان سٹیٹ ایکٹرز نہیں ہیں ہمارے یہاں سے بھارت جانے والے فنکاروں، کھلاڑیوں اور دیگر شعبہ ہائے جات سے متعلقہ شخصیات کے ساتھ وہاں کیا سلوک کیا گیا۔ کیا یہ سب آنے والے بھارت کے نان سٹیٹ ایکٹرز نہیں ہیں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ہمیں بھارت کے منفی اور زہریلے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا ہے نا کہ خود ہی ایسی خبریں چھاپ دیں جس سے دنیا بھر میں یہ تاثر جائے کہ بھارت تو سچ بول رہا ہے۔ متنازع خبر کے آتے ہی بھارت نے پروپیگنڈا تیز کر دیا اور پوری دنیا میں پاکستان کا تاثر منفی انداز میں پینٹ کیا۔ اگر کوئی شخص سچ بولنے کیلئے بڑا بیتاب ہے اگر اس کے پاس واقع سچ موجود ہے تب بھی اسے انتظار کرنا چاہئے اور جب جنگ کے حالات نہ رہیں اور نارمل صورتحال ہو تو وہ خبر دے۔ موجودہ صورتحال میں کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے دشمن کے ہاتھ مضبوط ہوں کیونکہ یہ ہماری قومی سلامتی کے خلاف ہے۔ سینئر صحافی نے مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ساری عمر غیر جانبدار صحافت کی ہے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے بڑے اختلافات رہے۔ ان کے دور میں کئی ماہ قید بھی گزارے لیکن ان کی اچھی باتوں پر تعریف کرنے سے کبھی گریز نہ کیا۔ بھٹو صاحب کی بڑی خوبی یہ تھی کہ سندھ سے تعلق کے باوجود انہوں نے کبھی خود کو سندھی لیڈر نہیں سمجھا اور پنجاب سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ بلاول بھٹو نے بڑی مناسب اور اچھی تقریر کی اور حکومت پر خوب دباﺅ ڈالا اور یہ تاثر دیا کہ وہ حکومت کی بی ٹیم نہیں ہیں۔ مطالبات نہ ماننے پر جلسے اور دھرنے دینے کی دھمکی بھی دی۔ حکومت کو جو 4 مطالبات پیش کئے وہ کوئی خاص نہیں ہیں صرف حکومت پر دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ سابق وزیرخزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرکولر ڈیٹ لوڈ شیڈنگ اسی طرح چل رہی ہے۔ ایکسپورٹ سیکٹر تباہ حالی کا شکار ہے جس کی وجہ صرف توانائی بحران ہے۔ حکومت اگر ریفارمز کرنے میں ناکام رہی تو آئی ایم ایف اس کی ذمہ دار ہے۔ اکانومی کی مینجمنٹ تو اس کے پاس ہے وہ یہاں 3 سال سے بیٹھی کیا کر رہی ہے۔ سی پیک کے دو حصے ہیں ایک لاجسٹک ہے جس میں سڑکیں بنائی جائیں گی اس پر 12 ارب ڈالر خرچ آئے گا جبکہ باقی 33 ارب ڈالر توانائی منصوبوں پر خرچ ہونا ہیں۔ بجلی منصوبوں پر زیادہ خرچ کیا جا رہا ہے اور کئی گناہ زیادہ لاگت سے منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں۔ حکومت نے یہ گارنٹی بھی دی ہے کہ اگر کوئی صارف بجلی بل نہ دے سکا تو وہ بل دینے کی پابند ہو گی جس سے بجٹ پر منفی اثر پڑے گا۔ اینکر پرسن منظور ملک نے کہا کہ وزیر داخلہ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ متنازعہ خبر پر تحقیقات کافی حد تک مکمل ہو چکی ہیں اور انکوائری ٹیم ذمہ داران کے قریب پہنچ چکی ہے۔ وزیرداخلہ نے پیشکش کی ہے کہ مجھ سمیت تمام افراد سے پوچھ گچھ کی جائے۔ چودھری نثار خود کہہ چکے ہیں کہ وہ براہ راست انکوائری کمیٹی کا حصہ نہیں ہیں صرف ان کی ہدایت پر کمیٹی تشکیل دی گئی۔ عسکری ادارے کا حکومت پر بڑا سخت دباﺅ ہے کہ فوری خبر لیک کرنے اور توڑ مروڑ کر پیش کرنے والے کو سامنے لایا جائے۔ سول و ملٹری تعلقات قطعاً خوشگوار نہیں ہیں اور اس سے حکومت خوب آگاہ ہے۔ اسلام آباد میں یورپی یونین اور امریکی سفارتکار تمام حالات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain