دوبئی(نیو زڈیسک)قومی ٹیسٹ کپتان مصباح الحق نے کہا کہ جیت کے لیے ٹیم کو سخت محنت کرنی پڑی۔گلابی گیند اور وکٹ کے بارے میں اندازے غلط نکلے۔ ایسے لگ رہا تھا کہ میچ بے نتیجہ ختم ہوگا لیکن آخری دو دن کافی دلچسپ کرکٹ ہوئی جس طرح کے ٹف میچز ہو رہے ہیں یہ ہماری ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کافی اچھے ہیں۔ نئے کھلاڑیوں کےلئے پریشر میچزان کے کرکٹ کیرئیر کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوں گے۔ 400ویںاور پہلے ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ میں جیت یادگار لمحہ ہے۔ اگرچہ ڈیرن براوو نے یاسر شاہ کے خلاف اچھی بیٹنگ کی لیکن اس کے باوجود یاسر شاہ قابل داد ہیں ، ذوالفقار بابر کی کمی محسوس ہوئی۔ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز ٹف ہوگی، بیٹنگ پیچز پر 20 وکٹیں لینا ہمارے لیے بھی ایک چیلنج ہوگا۔ان خیالات کا اظہار مصباح الحق نے میچ کے بعد غیر ملکی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کیا۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے ٹیسٹ میچ میں کامیابی ہمارے لیے خوشی کی بات ہے پہلے دو تین دنوں میں لگ رہا تھا کہ میچ کا کوئی نتیجہ نہیں آئے گا،میچ بے نتیجہ ہی ختم ہو جائےگا لیکن جس طرح کا میچ ہوا خاص کر آخری دو دن کافی دلچسپ کرکٹ ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ جس صورتحال میں میچ کا نتیجہ آیا اس پرمیں خوش ہوںکہ پاکستان یہ میچ جیت گیا۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے ٹیسٹ میچ میں فتح کافی مشکل سے حاصل ہوئی ۔جیت کے لیے ٹیم کو سخت محنت کرنی پڑی اور جب اس طرح کی کامیابی حاصل ہوتی ہے ایسی جیت پر خوشی بھی بہت ہوتی ہے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح کے ٹف میچز ہو رہے ہیں یہ ہماری ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کافی اچھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری ٹیم میں جتنے بھی نئے کھلاڑی ہیں جو ایسے پریشر میچز میں کھیلیں گے تو ان کے کھیل میں مزیدنکھار آئے گااور ان کے کرکٹ کیرئیر کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوں گے۔ دوسرے ٹیسٹ میچ کے بارے میں سوال کے جواب میں مصباح الحق کا کہنا تھا کہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز ٹف ہوگی،خاص طور پر جس طرح سے ویسٹ انڈیز نے پہلے ٹیسٹ میچ میں بیٹنگ کی ہے اور ایسی پیچز جوبیٹنگ کے لیے سازگار ہیں ان پیچز پر 20 وکٹیں لینا ہمارے لیے بھی ایک چیلنج ہوگا۔مصباح الحق نے کہا کہ اگرچہ ڈیرن براوو نے یاسر شاہ کے خلاف اچھی بیٹنگ کی لیکن اس کے باوجود یاسر شاہ قابل داد ہیں۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے400ویں ٹیسٹ اور گلابی گیند کے ساتھ پہلے ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ میں جیت کو وہ یادگار لمحہ سمجھتے ہیں لیکن اس جیت کے لیے ٹیم کو سخت محنت کرنی پڑی۔مصباح الحق نے کہا کہ چونکہ پاکستانی ٹیم پہلی بار گلابی گیند کے ساتھ ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ کھیل رہی تھی، لہذا دونوں کے رویے کے بارے میں جو اندازے لگائے گئے تھے وہ مختلف ثابت ہوئے۔مصباح الحق نے کہا کہ دبئی کی پچ عام طور پر دوسرے دن سپنرز کی مدد کرنا شروع کر دیتی ہے لیکن گلابی گیند اور نائٹ ٹیسٹ میں شام کو اوس پڑنے کی وجہ سے گیند کی سلائی کا پھول جانا یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہ میچ بولرز کے لیے آسان نہ تھا۔انھوں نے کہا کہ خاص کر اوس پڑنے کی وجہ سے پچ دوبارہ جڑ جاتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان کے بولرز ویسٹ انڈین بیٹسمینوں کو جلد آﺅٹ نہ کر سکے۔مصباح الحق نے یونی ویژن نیوز سے کہا کہ اگرچہ ڈیرن براوو نے یاسر شاہ کے خلاف اچھی بیٹنگ کی لیکن اس کے باوجود یاسر شاہ قابل داد ہیں جنھوں نے اہم مواقع پر وکٹیں حاصل کیں۔مصباح الحق کا کہنا ہے کہ یہ بات ان کے لیے خاصی تکلیف دہ تھی کہ آپ تین دن تک حریف ٹیم پر حاوی رہیں اور پھر ایک سیشن میں حریف ٹیم ہم پر حاوی رہی۔انھوں نے کہا کہ اگر پاکستانی ٹیم دوسری اننگز میں مزید پندرہ اوورز کھیل کر 400 رنز کی برتری حاصل کر لیتی تو ہو سکتا تھا کہ وہ ویسٹ انڈیز کو جلد آﺅٹ کر لیتے۔انھوں نے کہا کہ جب حریف ٹیم کو بھی جیتنے کا موقع ملنے لگے تو آپ دبا ﺅمیں آجاتے ہیں تاہم پاکستانی بولرز نے سخت محنت کی اور اچھی بولنگ کر کے ویسٹ انڈیز کو آﺅٹ کیا۔مصباح الحق کو امید ہے کہ ابوظہبی میں چونکہ ٹیسٹ میچ دن میں کھیلاجائے گا تو نہ صرف ان کے سپنرز بلکہ تیز بولرز کو بھی مدد ملے گی خاص کر وہ ریورس سوئنگ کر سکیں گے جو ان کی خصوصیت ہے۔انھوں نے بتایا کہ ڈے نائٹ ٹیسٹ میں گیند اوس کی وجہ سے گیلی ہونے کی وجہ سے بولر ریورس سوئنگ بھی نہیں کر سکے۔مصباح الحق نے تسلیم کیا کہ انھیں اس میچ میں لیفٹ آرم سپنر ذوالفقار بابر کی کمی محسوس ہوئی۔دبئی ٹیسٹ میں تین تیز بولر کھلانے کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں جو میچ گلابی گیند کے ساتھ کھیلا تھا اس میں رات کے وقت سیم بولرز بہت موثر ثابت ہوئے تھے لیکن دبئی ٹیسٹ میں تیز بولرز کو اس طرح کی مدد نہیں ملی۔مصباح نے کہا کہ محمد نواز اگرچہ ذوالفقار بابر کی طرح میچ ونر کا کردار تو ادا نہیں کر سکے لیکن انھوں نے اہم مواقع پر وکٹیں حاصل کیں۔