لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل معروف پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے ایم کیو ایم کے تمام رہنما ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں لیکن گورنر سندھ عشرت العباد ہی رہے۔ کافی عرصہ قبل لندن میں ایک پروگرام میں ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقات ہوئی تو انہیں الطاف حسین کے مجموعی طرز عمل سے بھی دو ہاتھ آگے ہی پایا۔ وہ بڑی تلخ کلامی سے وفاقی حکومت، فوج اور پنجاب کو اتنا ہی برا بھلا کہہ رہے تھے جتنا بعد میں الطاف حسین نے کھل کر کہا۔ مصطفی کمال جب میئر تھے تو ان کو معمار کراچی اور فرشتہ قرار دیا جاتا تھا، میڈلز اور ایوارڈ دیئے گئے اس وقت مصطفی کمال بھی ہر وقت الطاف بھائی کی گردان کرتے نظر آتے تھے۔ سننے میں آتا ہے کہ مصطفی کمال سے لوٹ مار کے پیسوں پر متحدہ قائد کا جھگرا ہوا جس کے بعد وہ جان کے خطرے کے باعث دوبئی فرار ہو گئے اور وہاں ملک ریاض کے ادارے میں پناہ کی۔ متحدہ کی تاریخ ہے کہ اس میں اختلاف کرنے والے یا تنظیم سے الگ ہونے والوں کو مار دیا جاتا ہے۔ اب مصطفی کمال واپس آ گئے ہیں اور بغاوت کر دی ہے لیکن وہ جن پر الزامات لگا رہے ہیں ان کے بھی ساتھی رہے ہیں۔ فاروق ستار بھی الطاف حسین کے ہر جرم میں برابر کے شریک رہے ہیں۔ متحدہ نے جب جان لیا کہ وہ سندھ کی وزارت اعلیٰ کسی صورت حاصل نہیں کر سکتے تو گورنر شپ لے لی تھی۔ ڈاکٹر عشرت العباد کو الطاف حسین نے چنا تھا۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ جس وقت عشرت العباد سے متحدہ ناراض ہوئی اور انہیں پارٹی سے بھی نکال دیا اس دوران میری عشرت العباد سے ملاقات ہوئی تو وہ بیٹی کی شادی کے کارڈ دینے نائن زیرو جا رہے تھے۔ اس لئے میں کہوں گا کہ ان تمام متحدہ رہنماﺅں کے باہمی تعلقات ایسے ہی تھے اور ایسے ہی رہیں گے کیونکہ یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ ہمارے نمائندہ کراچی وحید جمال کے بقول اگر عشرت العباد واقعی پاکستان میں برطانیہ کے نمائندے ہیں تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ الطاف حسین کو بھی برطانیہ نے پناہ دے رکھی ہے۔ برطانیہ اور امریکہ ایک ہی ہیں۔ نسرین جلیل اور فاروق ستار بھی امریکی سفارتکار کے پاس دوڑے جاتے ہیں اور فریاد کرتے ہیں کہ ہم پر ظلم و ستم بند کرائے۔ یہ رہنما اپنے حقوق اس پارلیمنٹ سے تو نہیں مانگتے جس میں نمائندے کے طور پر بیٹھتے ہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ سے فریاد کرتے نظر آتے ہیں۔ ماضی میں پاک فوج سے کئی غلطیاں ہوئیں جس میں ایک ایم کیو ایم کا قیام بھی تھا۔ یہ جماعت فوجی دور میں بنی اور فوجی دور میں ہی مضبوط ہوئی۔ مشرف ایک بار پہلے بھی متحدہ کا سربراہ بننے کی کوشش کر چکے ہیں اور اب ایک بار پھر کراچی کے مہاجروں کا لیڈر بننے کی کوشش میں ہیں۔ کراچی ایک انتہائی اہم شہر ہے اس پر بڑی طاقتوں کی عرصہ دراز سے نظر ہے اور کئی بڑے ملک چاہتے ہیں کہ اسے ہانگ کانگ کی طرز پر انٹرنیشنل کاروباری سنٹر بنا دیا جائے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ کراچی پاکستان کا شہر اور معاشی حب ہے ہم کبھی بھی کسی ملک کو اجازت نہیں دیں گے کہ اس شہر کو عالمی سطح پر کنٹرول کیا جائے اور عالمی کاروباری سنٹر بنایا جائے۔ اگر منتخب پارلیمنٹ میں اکثریت اس بات کی حامی ہے کہ آرمی چیف کے تقرر میں بھی اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کی جانی چاہئے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ موجودہ صورتحال میں لیکن یہ مسئلہ سامنے آئے گا کہ حقیقی اپوزیشن لیڈر کون ہے اور اپوزیشن لیڈر کی باقاعدہ تعریف متعین کرنا پڑے گی کیونکہ موجودہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو تو ملک کا کوئی شخص بھی اپوزیشن لیڈر نہیں سمجھتا ہر کسی کا خیال ہے کہ عمران خان حقیقی اپوزیشن لیڈر ہیں۔ خورشید شاہ کے تو بیانات میں ہی تضاد ہوتا ہے دبئی سے کال آ جائے تو بھی وہ بیان بدل دیتے ہیں۔ اس حق میں ہی نہیں ہوں کہ صرف دو پارٹیاں مل کر چیف جسٹس، چیف الیکشن کمشنر اور اسی طرح کے بڑے عہدوں پر تقرری کریں اگر یہ دو پارٹیاں جو حکومت میں اور اپوزیشن میں ہیں آپس میں فرینڈلی ہیں تو وہ کیسے کسی ایسے شخص کا تقرر کریں گی جو حقیقی معنوں میں احتساب کر سکتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا بڑے عہدوں کی تقرری میں کردار ہونا چاہئے۔ نیب کی مثال سامنے ہے کہ اس اہم ادارے نے بڑی کرپشن کی تحقیقات اور فیصلہ کرنا ہوتا ہے جبکہ یہاں یہ ہوتا ہے کہ حکومت نیب کو اپنے مخالفوں کے خلاف استعمال کرتی ہے اور اپوزیشن جب حکومت میں آئے تو وہ بھی یہیکردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ خورشید شاہ نے ڈگڈگی بجانے والے سے مراد جو اشارہ کیا ہے وہ فوج کی جانب ہے اور کیا حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر ڈگڈگی بجا رہے ہیں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ ہمارے پرانے دوست نجم سیٹھی نے بیان دیا ہے کہ متنازع خبر سے قومی سلامتی کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ نجم سیٹھی ہمیشہ سے بباطن سیاستدان رہے ہیں نیب پر پابندی کا ریفرنس سپریم کورٹ میں پیش ہوا تو ولی خان، عطاءاللہ مینگل و دیگر میں نجم سیٹھی کا نام بھی شامل تھا۔ بلوچستان اسلحہ سپلائی کیس میں بھی ان کا نام شامل تھا۔ پنجاب میں الیکشن کے دوران 35 پنکچر لگانے کا الزام بھی ان پر لگا جو ثابت نہ ہو سکا۔ متنازعہ خبر کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت میں افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ جن خاتون کا نام اس میں لیا جا رہا ہے وہ نجم سیٹھی کی اہلیہ جگنو محسن ہیں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ وزیر قانون زاہد حامد، نجم سیٹھی اور کئی وزراءکا خیال ہے کہ یہ متنازع خبر والا معاملہ بھی چند دنوں میں ختتم ہو جائے گا۔ آرمی کی جانب سے دباﺅ بھی ختم ہو جائے گا جس کی وجہ یہ ہو گی کہ اس دباﺅ کا مقابلہ کرنے کیلئے حکومت بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملے کو دوبارہ ہوا دے گی جس کا الزام فوج پر لگایا جاتا ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی معراج الہدیٰ نے کہا کہ کراچی کی تعمیر و ترقی میں سابق میئر نعمت اللہ کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ گورنر سندھ عشرت العباد نے اپنے بیان میں جو اعتراف کیا ہے اس سے حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ مصطفی کمال نے نعمت اللہ کے ترقی کے سفرکو آگے بڑھایا لیکن ان کے دور میں کرپشن کی داستانیں بھی سامنے آئیں۔ گورنر عشرت العباد نے بہت سی حکومتوں کے ساتھ چل کر ریکارڈ بنایا ہے۔ موجودہ صورتحال میں بھی ایسا نہیں ہے کہ وہ بہت سے لوگوں کیلئے ناقابل قبول ہیں ان کی پوزیشن کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ نمائندہ خبریں کراچی وحید جمال نے کہا کہ مصطفی کمال کو گورنر سندھ سے کچھ توقعات تھیں جو پوری نہ ہونے پر بیان داغے گئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عشرت العباد کے فاروق ستار پارٹی سے رابطے ہیں اور پاک سرزمین کو مائنس کیا جا رہا ہے۔ دونوں گروپوپں نے جو ایک دوسرے پرالزامات لگائے ہیں ان سے سابت ہوا ہے کہ یہ تمام لوگ جرائم میں برابر کے شریک رہے ہیں۔ عشرت العباد جماعت اسلامی کا حصہ نہیں رہے ان کی ہمدردیاں صرف متحدہ کے ساتھ رہی ہیں۔ عشرت العباد برطانیہ کے نامزد کردہ اور انہی کے وفادار ہیں ان کے پاس برطانوی شہریت بھی ہے۔ جب گورنر سندھ ناراض ہو کر دبئی گئی تو برطانیہ کے دباﺅ پر ہی متحدہ نے انہیں واپس لیا تھا۔