لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ شکر کا مقام ہے کہ ملک میں محاذ آرائی کی کیفیت ختم ہو گئی، ایک بڑی تباہی اور انتشار ختم ہو گیا، خانہ جنگی کی دعوت دی جا رہی تھی جس کا خاتمہ ہو گیا۔ عدالت نے بڑا اچھا قدم اٹھایا اور انصاف کے تقاضوں کے تحت ایسا فیصلہ دیا کہ جس سے انتشار ختم ہو گیا۔ شیخ رشید ایک سینئر سیاستدان میں انہوں نے اپنی پٹیشن کے حوالے سے انہیں جنگ اصولی بنیادوں پر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا جو ٹھیک ہے۔ سپریم کورٹ میں حکومتی وکیل کے موقف سے صاف ظاہر ہوا کہ وہ معاملے کو لٹکانا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ملکی تاریخ کے ایک بڑے بحران کو بڑی حکومت کے ساتھ ایک ہی دن میں فیصلہ کر کے ختم کر دیا جس پر اسے خراج تحسین پیش کیا جانا چاہئے۔ تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دھرنا ختم کرنے کا ٹھیک اعلان کیا ورنہ اسے ضد برائے ضد یا لڑائی ہی سمجھا جاتا۔ پیپلزپارٹی کے پی ٹی آئی بارے بیان پر حیرت ہوئی۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ اندر سے ملی ہوئی ہیں۔ نواز زرداری بات چیت جب ہوئی تھی تو اس وقت ہی ڈاکٹر عاصم کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ میں بخوبی آگاہ تھا کہ ڈاکٹر عاصم کی ضمانت ہو جائے گی۔ بڑے لوگ جب بھی جیل جاتے ہیں تو بیمار پڑ جاتے ہیں تا کہ ہسپتال جا کر رہیں آصف زرداری جب جیل میں تھے تو ان سے ملنے گیا پتہ چلا کہ ہسپتال میں ہیں وہاں تو تو پھر اطلاع ملی کے جیل کے باہر سڑک پار ایک کوٹھی لی گئی ہے وہ وہاں پر ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کی ضمانت اس یقین دہانی کا نتیجہ ہے جو پیپلزپارٹی نے ن لیگ کو کرائی تھی کہ ہم کہیں بھی کنٹینر پر کھڑے نہیں ہوں گے۔ بلاول بھٹو کی ساری دھمکیاں مصنوعی تھیں، پیپلزپارٹی جو اپوزیشن ہونے کی دعویدار ہے۔ ملک بھر میں گرفتاریاں اور ماد دھاڑ ہو رہی تھی تو چیئرمین پی پی کراچی میں دیوالی کی ایک تقریب میں شریک تھے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان میں کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ یہاں صرف شوقیہ آتے ہیں بیان دیتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں وہ پاکستان میںصرف پراکسی وار چاہتے ہیں اس کے لئے خرم گنڈا پور کو آگے لگا کر خود دنیا میں گھومتے پھرتے رہنا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو مار پڑ رہی تھی اور گنڈا پور کی مشاورت ہی ختم نہیں ہو رہی تھی۔ موجودہ حالات میں وفات اور صوبہ متصادم نظر آئے لیکن شکر ہے کہ یہ معاملہ ختم ہو گیا۔ دونوں فریق ہی انتہا پر رہے۔ اگر پرویز خٹک کا راستہ روکا گیا اور شیلنگ کی گئی تو وزیراعلیٰ کے پی کے نے بھی تڑی لگائی کہ اگر حکومت باز نہ آئی تو ہم باغی ہو جائیں گے۔ خاتون رہنماﺅں سے بدسلوکی کے واقعات پر سینئر صحافی نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن خدارا کوئی تو اصول سیٹل کر لے کسی خاتون سیاسی رہنما بارے نازیابا گفتگو، بیان، توہین یا مذاق نہ اڑایا جائے معاشرے کو مہذب بنایا جائے انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اب دھرنا دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت بھی اب براہ کرم سیاسی تلخی کو ختم کرے۔ سیاستدان پڑھے لکھے افراد کی طرح کا طرز عمل اپنائیں اور ایسے الفاظ نہ استعمال کریں جس سے سیاسی لڑائی ذاتی لڑائی میں تبدیل ہو جائے۔ تحریک انصاف کے رہنما اور قانونی ماہر حامد خان نے کہا کہ عدلیہ کی ملک کے حالات پر نظر ہے خاص طور پر سپریم کورٹ ان معاملات پر غافل نہیں رہ سکتی۔ ہم نے ٹی او آرز تیار کر رکھے ہیں ممکن ہے ایک آدھ کا اضافہ بھی کریں۔ اپنے ٹی او آرز عدالت میں داخل کریں گے۔ عدالت کو تمام ریکارڈ پیش کر دیا ہے۔ ن لیگ کو ابھی تک جواب بھی داخل نہیں کرا پائی صرف لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ ان سے یہیں پر جواب لیں اگر کمیشن کو معاملہ بھیجا گیا تو یہ پھر وقت ضائع کریں گے۔ پہلے تمام چیزوں کو سیٹلڈ کیا جائے پھر معاملہ کمیشن کو بھیجا جائے۔ عدالت نے ہمارے موقف کو تسلیم کیا اور ن لیگ کو 2 دن میں جواب داخل کرنے کا کہا ہے۔ واضح ہو چکا ہے کہ کمیشن کو سپریم کورٹ کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ قانونی طور پر بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیا ہے کہ معاملے کو پہلے نمبر پر دیکھا جائے گا۔ تحریک انصاف کا موقف تسلیم کر لیا گیا۔ ہم اسی کیلئے جدوجہد کر رہے تھے ن لیگ نے 7 ماہ ضائع کئے۔ ن لیگ کی پوری کوشش ہے کہ ماضی کی طرح یہ معاملہ بھی دب جائے اور عوام بھول جائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کیس کا ایک ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ سپریم کورٹ میں شیخ رشید کا کیس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر کوئی پارلیمنٹیرین اثاثے چھپائے تو جب بھی پتہ چلے تو اسی وقت مقدمہ کھل سکتا ہے اب تک 9 بڑے سیاسی رہنما نااہل ہو چکے ہیں۔ اثاثوں بارے الیکشن کمیشن کی دستاویزات بڑی مفصل ہے اس میں تمام تفصیلات فراہم کرنا پڑتی ہیں۔ سپریم کورٹ میں سب سے اہم پٹیشن شیخ رشید کی ہے نظر آ رہا ہے کہ سپریم کوورٹ ماضی کے کیسوں کو دیکھتے ہوئے اہم فیصلہ کر دے گی۔ کیپٹن صفدر بارے فیصلہ تو جلد ہو جائے گا اور وہ مریم نواز بارے حقائق پوشیدہ رکھنے پر نااہل ہو جائیں گے۔ 18 ویں ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کی منشا کے مطابق تشکیل دیا جاتا ہے۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر سردار رضا ماضی کے مقابلے میں بہتر شخصیت ہیں آج الیکشن کمیشن میں بڑی اہم سماعت ہونا ہے اس سے بھی کمیشن کی دیانتداری کا پتہ چل جائے گا۔ موجودہ حالات میں عوامی دباﺅ بہت زیادہ ہے اسی باعث سپریم کورٹ بھی صحیح سمت مڑی ہے۔ آج الیکشن کمیشن نے فیصلہ کرنا ہے۔ سردار رضا نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ الیکشن کمیشن ارکان چاروں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس کی مشاورت سے سٹنگ ججز کو بنایا جائے۔ ادارہ بہتر انداز سے چل سکے لیکن انتخابی اصلاحات کمیٹی نے ان کی تجویز مشترد کر دی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے بھی اس تجویز کی تائید نہ کی۔