تازہ تر ین

ننھا ‘ نازلی کے عشق میں کسی کام کے نہ رہے اور زندگی کا چراغ گل کر لیا

خاور رفیع (ننھا) کا آخری مکالمہ
خاور رفیع المعروف ننھا کی علی اعجاز سے بڑی دوستی تھی مگر جب خاور رفیع کا اداکارہ اور ڈانسر نازلی سے افیئر چلا تو وہ کسی کام کے نہ رہے۔ علی اعجاز نے بتایا رمضان کا مہینہ تھا مگر رحمتوں اور برکتوں والے مہینے میں بھی ننھا کی پریشانی کم نہ ہوئی وہ کھل کر کسی کو دل کی بات بھی نہیں بتاتا تھا۔ سحری کا وقت تھا‘ علی اعجاز کی ننھا سے ٹیلیفون پر گپ شپ ہوجایا کرتی تھی۔ ایک روز سحری کے موقع پر علی اعجاز نے جب ننھا سے گپ شپ لگانے کےلئے فون کیا تو اس نے بتایا کہ وہ ایورنیو سٹوڈیو میں ہے اور بڑا پریشان ہے جس پر علی اعجاز نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا یار حوصلہ کرو صبح ہوتی ہے تو بات کرتے ہیں جس پر ننھا نے کہا ”یار ججی“ اج دی سویر نہیوں ہونی“ اور پھر اگلی صبح جب لوگوں نے صوفے سے ٹیک لگائے خاور رفیع المعروف ننھا کو بلایا تو اس کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔
احمد ندیم قاسمی اور وحشی جٹ
فلم وحشی جٹ نمائش کےلئے پیش ہوئی تو کسی نے احمد ندیم قاسمی کو بتایا کہ یہ تو ان کی کہانی پر مبنی فلم بنی ہے۔ قاسمی صاحب نے فلم دیکھی تو انہوں نے بھی تصدیق کردی کہ ان کی اجازت کے بغیر فلم بنائی گئی ہے۔ پہلے تو فلم پروڈیوسر ماننے کو تیار نہیں تھا مگر جب قاسمی صاحب نے انہیں قائل کیا کہ وہ مکھو جٹی گھی بیچنے والی ہے اور وہی گنڈاسہ اور گجر ہے۔ ہرطور قاسمی صاحب نے جب فلم کی نمائش رکوا دی تو پروڈیوسر منت سماجت پر اتر آیا اور اس نے قاسمی صاحب سے ڈیمانڈ پوچھی جو پروڈیوسر کے خیال میں بہت زیادہ تھی۔ بار بار سفارشی بھجوائے گئے‘ سفارشیوں میں قتیل شفائی بھی تھے آخر پانچ ہزار میں معاملہ طے ہوگیا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب بتاتے ہیں کہ ایک دن ایک مشکوک سا شخص ان کے پاس آیا اور ایک پوٹلی ان کو پیش کی۔ قاسمی صاحب نے جب وہ رومال کھولا تو اس میں پانچ روپے اور دس روپے کے نوٹوں کی صورت میں پانچ ہزار روپے تھے۔ قاسمی صاحب بتاتے ہیں کہ جب وہ یہ رقم بینک جمع کروانے کےلئے گئے تو کیشئیر نے بے ساختہ کہا ”قاسمی صاحب ”کیہ گل اے تسیں پرچون دی دکان تے نہیں کھول لئی“۔
اداکارہ ترانہ اور قومی ترانہ
ترانہ ماضی کی ایک سینئر اداکارہ تھی۔ بہت سی فلموں میں اس نے کام کرکے اپنے فن کا لوہا منوایا۔ راوی بتاتا ہے کہ ایک بار وہ یحییٰ خان سے ایوان صدر خود ملنے گئی یا یحییٰ صاحب نے بلایا یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا تاہم ترانہ خود بتاتی ہے کہ جب وہ ایوان صدر پہنچی تو دربانوں نے اسے اندر جانے سے روک دیا۔ پریشانی کے عالم میں ترانہ نے ایک چٹ لکھ کر اندر بھجوا دی جس کے فوراً بعد ترانہ کو اندر آنے کی اجازت مل گئی تاہم ملاقات کے بعد جب ترانہ باہر نکلی تو انہیں سکیورٹی گارڈز کے بہت سے سلیوٹ پڑے۔ ترانہ نے ان لوگوں سے پوچھا پہلے تو آپ مجھے اندر نہیں جانے دے رہے تھے مگر اب باہر نکلی ہوں تو سلیوٹ مار رہے ہو جس پر ایک سکیورٹی گارڈ نے یہ کہہ کر ترانہ کو لاجواب کردیا کہ میڈم جب آپ ایوان صدر کے اندر جارہی تھیں تو آپ صرف ترانہ تھیں مگر جب باہر نکلی ہیں تو قومی ترانہ ہیں۔
چائے والا فیاض شامی کون تھا
شاہی قلعہ کے قریب ایک نشئی سے ملاقات ہوگئی جو شاید کسی کینٹین پر گاہکوں کو چائے پلانے پر مامور تھا۔ تقریباً پچیس تیس برس کا یہ شخص جو میلی کچیلی بوشرٹ اور پتلون پہنے ہوئے تھا گاہکوں سے بڑے پتے کی باتیں بھی کررہا تھا۔ اس کی باتیں اس قدر دلچسپ اور دنیاداری سے متعلقہ تھیں کہ ہم بھی دلچسپی لینے پر مجبور ہوگئے۔ جب اس سے نام پوچھا تو اس نے فیاض شامی اپنا نام بتایا۔ پھر خود ہی کہنے لگا جناب آپ تو شاید مجھے ایک چائے والا نشئی اور نہ جانے کیا کچھ سمجھ رہے ہونگے مگر میرا نام فیاض شامی ہے اور میں ریڈیو پاکستان کے سینئر کمپوزر نیاز حسین شامی کا بیٹا ہوں۔ بس نشے کی لت نے یہاں پر پہنچا دیا۔ اللہ تعالیٰ سب کی اولادوں کو نشے کی لت سے محفوظ رکھے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain