تازہ تر ین

ننھے بچے کی المناک موت

گوجرانوالہ (خصوصی رپورٹ) لاقانونیت کا شکار شہریوں کی قانونی دادرسی اور انصاف رسانی میں محکمہ پولیس اور ضعلی انتظامیہ کا کلیدی کردار ہے، مگر افسوس ہے کہ اپنے ہاں عدل گستری پر مامور حکومتی ادارے ہی انصاف چکانے کی بجائے انصاف کا خون کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بدیں سبب لاقانونیت کے ڈسے ہوئے اور بے انصافی کے مارے وئے لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے حصول انصاف کی کوشش کرتے ہیں، جس کے نتیجہ میں مارے معاشرے میں جرائم کی شرح میں خوفناک اضافہ ہوتا جارہاہے۔ 18 سمتبر کا اندو ہناک واقعہ ہے کہ چھٹی کا دن تھا، گل روڈ کے رہائشی محنت کش صلاح الدین کے بچوں 10 سالہ احمد 8 سالہ لائبہ 6 سالہ موسیٰ اور 5 سالہ سلیمان نے باپ سے جناح سٹیڈیم گوجرانوالہ میں ہونے والا کرکٹ میچ دیکھنے کی فرمائش کی۔ بدنصیب باپ بچوں کی معصوم خواہش کی تعمیل میں انہیں ساتھ لئے جناح سٹیڈیم جاپہنچا۔ چاروں بچے بڑے شوق اور انہماک کے ساتھ سٹیڈیم کی گراو¿نڈ میں باپ سے جڑے بیٹھے میچ دیکھتے رہے، میچ ختم ہوا، تو تماشائی گھروں کو سدھارنے لگے۔ صلاح الدین اپنے بچوں کے ہمراہ گراو¿نڈ میں جس جگہ بیٹھا میچ دیکھ رہا تھا، اس کے قریب ہی پچ ہموار کرنے کیلئے پچ پر چلایا جانے والا اڑھائی ٹن وزنی رولر بھی کھڑا تھا۔ سٹیڈیم کے گراو¿نڈ میں عبدالحمید نے یہ دیکھے بغیر کہ سٹیڈیم تماشائیوں سے مکمل طور پر خالی ہوچکا ہے یا نہیں رولر کا مین سوئچ آن کردیا اور رولر آناً فاناً قریب بیٹھے محنت کش صلاح الدین کے بچوں پر چڑھ دوڑا۔ صلاح الدین کی چیخ وپکار سن کر اس کے بڑے بچوں 10 سالہ احمد 8 سالہ لائبہ اور 6 سالہ موسیٰ نے تو باپ کی جانب دوڑ لگادی اور بچ نکلے، لیکن 5 سالہ ننھا سلیمان رولر کی زد میں آجانے سے موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔ کمسن سلیمان کے والد صلاح الدین نے بتایا کہ اس کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھے۔ سلمان سب سے چھوٹا تھا، جسے سکول داخل کروائے صرف تین دن ہی ہوئے تھے سلیمان کے دوسرے بہن بھائی 10 سالہ احمد، 6 سالہ موسیٰ اور 8 سالہ لائبہ پہلے ہی سکول جاتے تھے، جس پر سلمان نے بھی سکول جانے کی ضد کی اوراسے نجی سکول میں داخل کرایا گیا اور چھٹی کے دن تمام بہن بھائیوں نے ضدکی کہ جناح سٹیڈیم میچ دیکھنے جانا ہے، جس پر وہ انہیں میچ دکھانے ساتھ لے گیا اور پھر یہ ہولناک حادثہ پیش آگیا۔ متوفی بچے کے دورثاءنے خطرناک وقوعہ کا ذمہ دار سٹیڈیم کی انتظامیہ کو قرار دیا۔ پولیس نے وقوعہ کے مطابق بچے کی ہلاکت کا مقدمہ درج کرکے گراو¿نڈ مین عبدالحمید اور چوکیدار کو حراست میں لے کر تحقیقات شروع کردیں۔ ابتدائی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہجناح سٹیڈیم کی پچ کو ہموار کرنے والا الیکٹریکل رولر 1987ءمیں ڈیزائن کیا گیا، جس کا وزن اڑھائی ٹن ہے۔ 29 سال قبل بننے والے رولر کی وائرنگ اور چینجر سوئچ بھی ناقص ہوچکا جبکہ اس کے علاوہ بھی الیکٹریکل رولر کے استعمال کیلئے کوئی حفاظتی اقدامات یاقواعد ضوابط نہیں۔ دوسری جانب دوران حراست گراو¿نڈ میں عبدالحمید نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا کہ اس نے پچ کی تیاری کیلئے رولر کا مین سوئچ کیا تھا، مگر جب دیکھا تو بچے رولر کے پاس کھیل رہے تھے اور اس کے مینول سوئچ سے چھیڑ چھاڑ کررہے تھے، جس کیوجہ سے رولر چل پڑا اور بچہ اس کے نیچے آکر جاں بحق ہوگیا۔ اس اندوہناک حادثے کا افسوسناک پہلویہ ہے کہ واقعہ کی میڈیا کوریج کے بعد ڈی سی او گوجرانوالہ عامر جان اور مقامی لیگی ارکان اسمبلی عبدالرو¿ف مغل، توفیق بٹ وغیرہ بھی متوفی سلمان کے اہل خانہ سے اظہار یکجہتی اور ان کی اشک شوئی کیلئے ان کے گھر گئے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی ناصرف یقین دہانی کرائی بلکہ ڈی سی او گوجرانوالہ نے اے سی سٹی میاں عتیق اور ڈسٹرکٹ سپورٹس آفسر فیصل امیر کی موجودگی میں کمسن کے گھر بچے کے والد صلاح الدین سے یہ وعدہ بھی کیا کہ سٹیڈیم کے ایک بلاک کو ننھے سلمان کے نام سے منسوب بھی کیا جائے گا۔
نواز لیگی اراکین اسمبلی نے بھی اس موقع پر غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا ”سیاسی اعلان“ اور عزم کیا تھا، مگر دو ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود ڈی سی او کا کوئی وعدہ پورا ہوا نہ اراکین اسمبلی نے محنت کش کو انصاف دلوایا۔ قانونی دادرسی کے تمام در بند دیکھ کر متوفی بچے کے مایوس والد نے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام ایک درد ناک خط لکھا، جس میں انصاف کی اپیل کی نیز چیف جسٹس آف پاکستان کے گوش گزار کیا کہ تمام تر وعدوں اور یقین دہانیوں کے باوجود اس کے جگر گوشے کے قاتلوں کا تاحال تعین ہوچکا ہے اور نہ ہی اسے انصاف مل سکا ہے۔ خوش قمستی سے چیف جسٹس آف پاکستان نے 5 سالہ سلمان کے والد کی فریاد کا نوٹس لے لیا ہے اور ڈی سی او گوجرانوالہ سے سانحہ کی انکوائری بابت رپورٹ اورتمام تر تفصلات طلب کرلی ہیں۔ سپریم کورٹ کے ہیومین رائٹس سیل کو بھجوائی گئی درخواست میںاکرام کالونی کے رہائشی صلاح الدین نے موقف اختیار کیا کہ 18 سمتبر کو پیش آنے والے افسوس ناک واقعہ کے سبب وہ انتہائی دکھ اور تکلیف میں مبتلا ہے۔ ڈی سی او نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کلکڑ کو سانحہ کا انکوائری آفسر مقرر کیا تھا جسے انتظامیہ اور متوفی بچے کے ورثاءکومعاملہ بارے کی گئی انکوائری کی پیش رفت سے آگاہ کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا، لیکن انکوائری آفسر اس کی قانونی مدد کو تیار نہیں۔صلاح الدین نے چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھا کہ وہ اپنے کمسن مقتول بیٹے کے خون ناحق کے معاملہ میں انصاف کا طالب ہے اور اسے امید ہے کہ عدالت عظمی اس کی فریاد ضرور سنے گی اور اسے نہ صرف انصاف ملے گا بلکہ انکوائری رپورٹ سمیت دیگر دستاویزات بھی فراہم کی جائیگی۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کمسن مقتول کے دکھی والد کی فریاد کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی سی او گوجرانوالہ محمد عامر جان کو 21 نومبر تک مفضل رپورٹ بھجوانے کا حکم دیا ہے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain