قارئین محترم! آیئے کچھ باتیں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بارے میں ہو جائیں جنہیں 29 نومبر کو ریٹائرڈ ہو کر گھر جانا ہے لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہَے کہ پورے ملک میں عوام کی اکثریت کے دِل میں یہ خیال موجود ہَے کہ شاید عین وقت پر دہشت گردی کے خلاف بھرپور کامیابی حاصل کرنے اور اپنے تین سالہ دَور میں ملک بھر کے اندر جس جگہ لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچی، حادثہ ہوا، زلزلہ آیا، قحط کی شکل پیدا ہوئی، کوئی قدرتی ناگہانی آفت آئی تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سب سے پہلے وہاں پہنچ کر صورتِ حال کو سنبھالا اور پاک فوج نے اُن کی سربراہی میں مصیبت زدگان کی بھرپور امداد کی۔ یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں تو مختلف ٹی وی چینلز یہ خبریں نشر کر رہے ہیں کہ جنرل راحیل شریف نے الوداعی ملاقاتیں شروع کر دیں، پھر بھی ہر دوسرے تیسرے شخص کے دِل میں جنرل راحیل شریف کے لئے محبت اوراحترام موجود ہے کہ وہ چلے گئے تو بھی پاکستانی عوام ہمیشہ اُنہیں یاد رکھے گی۔
آیئے ایک نظر جنرل راحیل شریف کی زندگی اور حالاتِ زندگی پر ڈالیں۔
18 ویں صدی کے وسط یعنی 1840ءمیں ایک کشمیری راجپوت خاندان گجرات کے نواحی قصبے کنجاہ میں آ کر آباد ہوا۔ ان کے آباﺅ اجداد کا پیشہ سپہ گری اور تجارت تھا۔ مہتاب دین نام کے کشمیری راجپوت کا دو منزلہ مکان کسمپرسی کی حالت میں آج بھی کوچہ مہتاب دین کنجاہ میں موجود ہے۔ رانا مہتاب دین کے ہاں محمد شریف نامی بچے نے جنم لیا۔ یہ انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں کا ذکر ہے۔ محمد شریف کی وفات آج سے پانچ سال قبل لاہور میں ہوئی۔ محمد شریف اپنے آبا ﺅ اجداد کی تقلید میں برٹش آرمی کی رائل کور آف سگنلز میں بھرتی ہوئے۔ انہیں بعد ازاں کمیشن آفیسر کے طور پر منتخب کر لیا گیا، جو قیام پاکستان کے بعد بھی تادیر افواج پاکستان میں خدمات انجام دیتے رہے اور بطور میجر آرمی سے ریٹائر ہوئے۔
محمد شریف کے بڑے بیٹے شبیر شریف 28 اپریل 1943ءکو کنجاہ میں پیدا ہوئے۔ بیگم محمد شریف کا تعلق گجرات کی تحصیل کھاریاں کے قصبہ لادیاں کے کشمیری خاندان سے تھا۔ ان کے خاندان کے ایک سپوت میجر راجہ عزیز بھٹی کو 65ءکی پاک بھارت جنگ میں بے مثل بہادری پر بعد از شہادت سب سے بڑا فوجی اعزاز ”نشان حیدر“ عطا کیا گیا۔
کنجاہ قصبے میں اب شاذ ہی کوئی عمر رسیدہ شخص ہو جس نے جنرل راحیل شریف کے والد یا ان کے بیٹوں کو خود دیکھا ہو گا۔ میجر محمد شریف کمیشن ملنے کے بعد کنجاہ سے نقل مکانی کر کے مختلف چھاﺅنیوں سے ہوتے ہوئے بالآخر گلبرگ لاہور میں مقیم ہوئے۔ کنجاہ کے مکان کی حالت زار اور دروازے پر لگے ہوئے تالے کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اس خاندان نے دوبارہ اپنے آبائی شہر سے کوئی رابطہ نہیں رکھا۔
میجر شبیر شہید نشان حیدر کے نام پر ہیلتھ سنٹر کی شکل میں ایک چھوٹا سا ہسپتال کنجاہ میں آج بھی موجود ہے۔
میجر محمد شریف نے اپنے قصبے کے متعدد لوگوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی ترغیب دی۔ حاجی عبدالغنی اس نسل کے آخری فرد ہیں جو آج بھی حیات ہیں ان کے مطابق گزشتہ برس جنرل راحیل شریف کی والدہ کی وفات پر اہلیان کنجاہ تعزیت کے لئے جنرل راحیل شریف کے پاس گئے تو انہوں نے دیہی ہیلتھ سنٹر کی بدحالی کا شکوہ کیا۔ جنرل راحیل شریف نے فوراً ہی وزیراعلیٰ پنجاب کی توجہ اِس طرف مبذول کروانے کے لئے فون پر گفتگو کی۔ اہلیان کنجاہ نے جنرل راحیل شریف کو بچپن یا عہد شباب میں بھی نہیں دیکھا نہ بہت سے لوگوں کو ان سے کبھی ملاقات کا موقع ملا۔ لیکن فوج سے ریٹائر ہونے والے حاجی عبدالغنی کہتے ہیں کہ میجر شریف نے اپنے عزیز و اقربا ہی نہیں اہل علاقہ کی خدمت کو ہمیشہ مقدم جانا لیکن وہ خود کنجاہ کبھی کبھار ہی آئے۔ جنرل راحیل شریف بھی کنجاہ اور گردونواح کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ 50 ہزار آبادی کے تنگ و تاریک گلیوں والے پرانے شہر کی ترقی اور دیگر سہولیات کا خیال کسی کو نہیں آیا اور آج بھی یہ ٹاﺅن اسی حال میں ہے۔
میجر محمد شریف کے بیٹے شبیر شریف، کیپٹن ممتاز شریف اور جنرل راحیل شریف ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ میجر راجہ عزیز بھٹی (نشان حیدر) جنرل راحیل شریف کے سگے ماموں تھے اور سماجی رابطے کے ذرائع پر ان کے چاہنے والے پوری شد و مد سے یہی ثابت کرتے رہے ہیں مگر حقیقت میں راجہ عزیز بھٹی شہید نشان حیدر کا تعلق ان کے ننھیالی خاندان سے ضرور تھا مگر وہ ان کے ماموں نہیں تھے۔
1971ءکی جنگ میں جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف کے جسد خاکی کو لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا، جو شاید اس طرح کی واحد مثال ہے کیونکہ شہید کے ایک دوست کی آخرت سنوارنے کی وصیت خود شبیر شہید نے کی تھی اِن کے دوست تنویر احمد خاں نے عین عالم شباب میں خود کشی کر لی تھی جس کا میجر شبیر شریف کو بہت رنج تھا۔ اس لئے انہوں نے ایک عالم سے فتویٰ لیا کہ میرے مرحوم دوست تنویر کی بخشش کیسے ہو سکتی ہے۔ عالم نے کہا کہ اگر اس کی قبر کے ساتھ کوئی شہید دفن ہو جائے تو تنویر کی بخشش بھی ہو جائے گی۔ شبیر شریف اپنی زندگی میں ہی والدہ محترمہ کو ساتھ لے کر میانی صاحب قبرستان گئے اور انہیں تنویر صاحب کی قبر دکھائی اور خواہش ظاہر کی کہ اگرمیں شہید ہو کر آﺅں تو مجھے اس قبر کے ساتھ دفن کیا جائے۔
جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف جنہیں فوج میں رانا شبیر شریف کے نام سے پکارا جاتا تھا، 1964ءمیں 19 اپریل کو پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے اعزازی شمشیر کے ساتھ پاس آﺅٹ ہوئے اور 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ انہیں تعینات کیا گیا۔ پی ایم اے کاکول میں انہیں اپنے کورس میں اول پوزیشن حاصل ہوئی جس کی بنا پر انہیں بٹالین سینٹر انڈر آفیسر کا عہدہ دیا گیا جو کسی بھی جنٹلمین کیڈٹ کا خواب ہوتا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جنرل (اور بعد ازاں صدر) پرویز مشرف بٹالین جونیئر انڈر آفیسر کے طور پر شبیر شریف کے نائب کے عہدے پر 6 ماہ فائز رہے۔ لیفٹیننٹ شبیر شریف کو 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں تیسرے بڑے فوجی اعزاز ستارہ جرا¿ت سے نوازا گیا، جو ازخود ان کی بہادری اور دلیرانہ شخصیت کا عکاس ہے۔ دشمن کے نرغے میں رہ جانے والی پاکستانی فوجی گاڑی کو دو جانفروش ساتھیوں کے ہمراہ دشمن کی برستی ہوئی فائرنگ سے نکال کر لانے والے شبیر شریف کو اسی وجہ سے اعزاز سے نوازا گیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہماری فوجی گاڑی کو بھارتی افواج اپنی کامیابی و کامرانی کے ثبوت کے طور پر پیش کر سکیں۔
(جاری ہے)
شبیرشریف فطرتاً نڈر اور مہم جو شخصیت کے مالک تھے۔ فوج کے چھوٹے موٹے نظم و ضبط کو پس پشت ڈالنا ان کا معمول تھا۔ اس کے باوجود ان کی نصابی سرگرمیاں اور پیشہ ورانہ کورسز میں پوزیشن صف اول کی رہی۔ ہیوی موٹر سائیکل چلانے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ ابتدائی پیشہ ورانہ کورس کے لئے ہیوی موٹر سائیکل پر لاہور سے کوئٹہ اور واپسی کا سفر ان کی زندگی کی دلچسپ داستان ہے اسی سفر میں موٹر سائیکل سے گر کر شبیر شریف کو اچھی خاصی چوٹیں لگیں مگر اپنے والدین اور اعلیٰ افسروں کو پتہ نہیں چلنے دیا اپنی ابتدائی سروس میں جنگجویانہ فطرت اور مہم جوئی کے ہاتھوں اکثر و بیشتر جسمانی اور ذہنی پریشانیوں کا شکار رہے مگر عسکری لگن کو اپنائے رکھا۔ سینئر عسکری کمان ان کے بعض اقدامات سے خفا بھی ہو جاتی تھی لیکن 65 ءکی جنگ کے دوران لیفٹیننٹ شبیر شریف کی ولولہ انگیز کارکردگی نے تادیبی کارروائی کی بجائے انہیں ستارہ جرا¿ت کا حقدار ٹھہرایا جسے کوئی بھی نوجوان افسر احساس تفاخر سے اپنے سینے پر سجانا چاہے گا۔ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور جنگی کارکردگی کی بنا پر پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں انسٹرکٹر کے طور پر تعینات کرتے ہوئے ملٹری سیکرٹری برانچ کے سربراہ سوچ و بچار اور گومگو کی کیفیت کا شکار ضرور ہوں گے لیکن میجر شبیر شریف نے کاکول کی تاریخ میں کئی نئے باب رقم کئے۔ انتہائی سخت گیر افسر ہونے کے باوجود انہوں نے زیر تربیت کیڈٹس کے دل موہ لئے۔ ان کے اندر نہ جانے کئی صلاحیتیں بیک وقت موجود تھیں۔ تربیت اور ڈسپلن پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور کیڈٹس کا ذاتی طور پر خیال رکھنے میں بھی پیچھے نہیں رہے۔ ان کے تربیت یافتہ کیڈٹس اب خود عرصہ دراز پہلے فوج سے فارغ ہو چکے ہیں لیکن شبیر شریف کے دلچسپ واقعات آج تک یاد رکھے جاتے ہیں اور اکثر پرانے فوجی ان کی باتوں کے ذکر پر فرطِ جذبات سے آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔
1971ءکی پاک بھارت جنگ چھڑی تو شبیر شریف پی ایم اے کاکول میں تعینات تھے۔ بغیر کسی کاغذی کارروائی کے وہ ایک ہی شب میں اپنی یونٹ 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں سلمانکی ہیڈ ورکس کے علاقے میں پہنچ گئے۔ جو بظاہر فوجی نظم و نسق کی خلاف ورزی تھی۔ لیکن شبیر شریف جنگ لڑنا چاہتے تھے۔شاید قدرت نے ان کے لئے پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز وقف کر رکھا تھا۔ 105 بریگیڈ سلمانکی ہیڈ ورکس کے علاقے میں دشمن سے پنجہ آزمائی میں مصروف تھا جس کے بریگیڈ میجر کا نام میجر عبدالوحید کاکڑ تھا۔ (جو بعد ازاں چیف آف آرمی سٹاف بنے) اس بریگیڈ نے بھارت کا 86 مربع کلو میٹر علاقہ قبضے میں لے لیا تھا۔ 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی بی کمپنی کی کمان میجر شبیر شریف کے ہاتھوں میں تھی۔ بھارتی فوج کسی بھی طرح سلمانکی ہیڈ ورکس کو تباہ کرنا چاہتی تھی تا کہ دریا کی دوسری جانب موجود پاکستانی فوج کو محصور کیا جا سکے۔
3 دسمبر71ءکی شب میجر شبیر شریف دشمن کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں کی پروا کئے بغیر اپنے جوانوں کے ساتھ بھارتی علاقے میں گھس کر حملہ آور ہوئے۔ 47 بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کیا۔ 28 بھارتی فوجی قیدی بنا کر اپنے ساتھ واپس لے آئے 4 ٹینک تباہ کرنے کے علاوہ بھارتی علاقے میں ایک اہم نہری پل پر قبضہ کر لیا۔ 3 سے 6 دسمبر کے درمیان دشمن نے پل پر قبضہ واپس لینے کے لئے 14بھرپور حملے کئے۔ میجر شبیر شریف کی زیر قیادت ان کی کمپنی نے تمام حملے پسپا کر دیئے۔ دشمن کے مورچے میں گھس کر میجر نارائن سنگھ کے ساتھ دست بدست ہو کر اس کی سٹین گن چھینی اور اسے موت کی نیند سلا دیا۔ اس لئے میجر شبیر شریف کو فاتح صبونہ کہا جاتا ہے۔ میجر نارائن سنگھ اور 4 جاٹ رجمنٹ پر لگنے والا یہ کاری زخم بھارتی فوج آج تک نہیں بھولی ہو گی۔ میجر نارائن سنگھ اپنے سکھ جاٹ ہونے کی للکار کیلئے مشہور تھا کہ وہ کہا کرتا تھا کہ ہے کوئی مائی کا لعل جو میرے سامنے آئے۔ میجر شبیر شریف اس کے مورچے میں خود کود گئے اور جھپٹ کر اسے موت کی نیند سلا دیا۔
6 دسمبر کی سہ پہر کو دشمن کے ایک بڑے حملے کا دفاع کرتے ہوئے اپنی بٹالین کی اینٹی ٹینک گن سے دشمن کے بڑھتے ہوئے ٹینکوں پر گولے برسا رہے تھے کہ دشمن کی فوج کی طرف سے ایک گولے نے انہیں براہ راست ہٹ(Hit) کیا اور میجر شبیر شریف نے عین حالت جنگ میں جام شہادت نوش کیا۔ میجر شبیر شریف کی اس بے نظیر بہادری پر ان کو نشان حیدر عطا کیا گیا۔
اور اب آئیں میجر شبیر شہید کے چھوٹے بھائی راحیل شریف کی طرف
1981ءمیں گلگت میں ایک نوجوان فوجی افسر بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں بطور جی 3 تعینات تھا اور راولپنڈی سے گلگت کا بس کا سفر چوبیس گھنٹے سے زیادہ ہوا کرتا تھا۔ گلگت میں پی آئی اے کی فوکر طیارے کی آمد و رفت موسم یا دیگر عوامل کی بنیاد پر بند ہو جایا کرتی تھی۔ نوجوان فوجی افسر بالخصوص کسی آتے جاتے ہیلی کاپٹر کے انتظار میں رہتے۔ جی ایچ کیو سے ایک جنرل ہیلی کاپٹر میں گلگت آئے جن کے ساتھ عملے اور مسافروں کے علاوہ دو نوجوان افسر جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پیوما ہیلی کاپٹر گلگت سے فضا میں بلند ہوا تو پتن سے پہلے ہی ہیلی کاپٹر میں فنی خرابی آ گئی۔ پائلٹ نے شاہراہ قراقرم کے قریب ہیلی کاپٹر کو بحفاظت نیچے اتار لیا۔ جونہی ہیلی کاپٹر کا دروازہ کھلا سب نے چھلانگیں لگا کر تیزی سے بھاگنے کو ترجیح دی۔ عقبی نشست پر دونوجوان افسروں میں سے ایک نے باہر نکل کر محفوظ مقام تک پہنچنے کا ارادہ ہی کیا تھا تو اس کے ساتھ کھڑے لحیم شحیم اور مضبوط کاٹھی کے افسر نے بازو سے پکڑ لیا اور کہا ”لالے کِتھے نس رہیاں اے (بھائی کہاں بھاگ رہے ہو) جس پر جونیئر افسر نے کہا سر دیکھتے نہیں ہیلی کاپٹر کے کاک پٹ میں دھواں بھر رہا ہے جو کسی بھی وقت آگ پکڑ سکتا ہے۔ سینئر نوجوان افسر بولا ”اسیں عملے نوں چھڈ کے کس طرح جا سکدے آں (ہم عملے کو چھوڑ کر کس طرح جا سکتے ہیں) جونیئر نوجوان افسر دل ہی دل میں شرمندہ ہوا اور اپنی جلد بازی اور گھبراہٹ پر شرمسار ہوا۔ ہیلی کاپٹر سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوئے جنرل صاحب اور دیگر مسافر شور مچا رہے تھے۔ جلدی باہر نکلو۔ لیکن سینئر نوجوان افسر ٹس سے مس نہیں ہوا اور عملے کے ساتھ اندر ہی موجود رہا۔ ہیلی کاپٹر کے وائرلیس سیٹ کی انٹینا تار کے شعلہ پکڑنے سے اٹھنے والا دھواں متبادل نظام کے فعال ہونے سے بجھ گیا اور ہیلی کاپٹر دوبارہ سفر کے لئے تیار ہو گیا۔ اس سینئر نوجوان کا نام جس نے باہر آنے سے انکار کر دیا تھا راحیل شریف تھا۔