تازہ تر ین

لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات نئے چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کیلئے فیورٹ

لاہور (سیاسی رپورٹر) 29 نومبر کو ریٹائر ہونے والے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود الوداعی تقریبات میں حصہ لے رہے ہیں اور اس تاریخ سے قبل نئے چیئرمین کا اعلان متوقع ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل زبیرمحمود حیات کے بارے میں خبریں مل رہی ہیں کہ وہ سب سے سینئر ہیں لیکن چونکہ ان کے ایک بھائی لیفٹیننٹ جنرل اور دوسرے میجر جنرل ہیں اس لئے انہیں آرمی چیف بنائے جانے کی توقع نہیں ہے البتہ ان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے طور پر تقرری کا امکان یقینی نظر آتا ہے۔ سابق فوجی جرنیلوں اور ریٹائرڈ اعلیٰ افسروں کے خیال کے مطابق جنرل زبیر محمود حیات کو مختصر مدت کے لئے بہاول پور کا کور کمانڈر بنایا گیا تھا لیکن پھر جی ایچ کیو میں تعینات کر دیا۔ جہاں انہیں ڈائریکٹر جنرل سٹریٹجک پلاننگ کا انچارج بنا دیا گیا اور واضح رہے اس پوسٹ پر فائز کس شخص کو ترقی دے کر آرمی چیف آج تک نہیں بنایا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر تینوں بھائیوں میں سے سینئر لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو آرمی چیف بنایا جاتا ہے تو پہلی بار ایسا ہو گا کہ پاک فوج کے دو لیفٹیننٹ جنرلوں اورایک میجر جنرل میں سے سینئر بھائی کو آرمی چیف بنا دیا جائے۔ اس لئے خیال ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر کر دیا جائے گا جو اگرچہ پاک فوج کا سینئر ترین افسر ہوتا ہے۔ لیکن اُس کے پاس براہ راست کوئی اختیار نہیں ہوتا بلکہ وہ افواج پاکستان کے تینوں شعبوں یعنی آرمی، نیوی اور ایئرفورس کے سربراہوں کے درمیان رابطے کے فرائض انجام دیتا ہے اور رسمی طور پر تینوں شعبوں کی سربراہی کرتا ہے یوں بھی لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات کو آرمی سرکلز میں کتابی جرنیل یعنی بہت پڑھا لکھا اور دانشور خیال کیا جاتا ہے تاہم اُنہیں جنگجو یا سخت مزاج جنرل نہیں سمجھا جاتا۔ البتہ وہ دفتری ضابطوں کے بہت پابند تصور کئے جاتے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف آخری فیصلہ کریں گے۔ پہلے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے حوالے سے کچھ بحث ہو جائے۔ روایت کے طور پر اور قانونی اعتبار سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی آرمی، نیوی اور ایئرفورس سے بھی ہو سکتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے پہلے چیئرمین جنرل شریف تھے جو یکم مارچ 1976ءکو اس عہدے پر فائز ہوئے اور 13 اپریل 1978ءتک کام کیا اُن کا تعلق آرمی سے تھے۔ دوسرے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی ایڈمرل شریف تھے جو نیوی سے آئے اور 13 اپریل 1978ءسے 13 اپریل 1980ءتک رہے۔ بعد ازاں اوپر نیچے آرمی سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا انتخاب کیا گیا۔ جنرل محمد اقبال خاں 13 اپریل 1980ءسے 22 مارچ 1984ءتک رہے اس کے بعد پھر آرمی سے جنرل رحیم الدین خاں کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنایا گیا وہ معروف ادیبہ ثاقبہ رحیم الدین کے شوہر اور جنرل ضیاءالحق کے بیٹے اعجاز الحق کے سسر تھے۔ 22 مارچ 1984ءسے 29 مارچ 1987ءتک چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی رہے اور اُن کے بعد جنرل اختر عبدالرحمن کی باری آئی وہ بھی آرمی میں تھے۔ 29 مارچ 1987ءسے 17 اگست 1988ءتک اس عہدے پر کام کیا۔ 17 اگست کو بہاولپور کے قریب بستی لال کمال کی فضاءمیں فوجی طیارہ پھٹنے سے وہ جنرل ضیاءالحق اور امریکی سفیر کے ہمراہ شہید ہو گئے۔ (اُن کے صاحبزادے ہمایوں اختر اور ہارون اختر سیاست میں ہیں۔ غازی اختر بزنس کر رہے ہیں) جنرل ضیاءالحق کی شہادت کے بعد یہ عہدہ جنرل مرزا اسلم بیگ کے حصے میں آیا جو آرمی چیف کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے پر بھی رہے بعد ازاں 10 نومبر1988ءکو غلام اسحق خان نے ایڈمرل افتخار احمد سروہی کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنایا جن کا تعلق نیوی سے تھا وہ 17 اگست 1991ءتک اس عہدے پر رہے۔ یہ دوسرا موقع تھا کہ نیوی کے افسر نے اس عہدے پر کام کیا۔ 17 اگست 1991ءکو آرمی کے جنرل شمیم عالم خان نے یہ عہدہ سنبھالا اور 9 نومبر1994ءتک کام کیا۔ پھر باری ایئرفورس کی آئی اور ایئر چیف مارشل فیروز خان 9 نومبر 1994ءسے 1997ءتک چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی رہے۔ جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف بھی تھے اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بھی وہ 9 نومبر 1997ءسے 7 اکتوبر1998ءتک رہے۔ جہانگیر کرامت کے بعد پرویز مشرف آرمی چیف تھے جو اکتوبر 1998ءمیں بنے 17 اکتوبر 2001ءتک بیک وقت آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی رہے اور پھر پرویز مشرف نے 7 اکتوبر 2001ءکو جنرل محمد عزیز خان کو جو مشرف کے بااعتماد جنرل تھے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنا دیا جو 6 اکتوبر2004ءتک رہے اُن کا تعلق بھی آرمی سے تھا اگلے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بھی آرمی کے جنرل احسان الحق آئے جو 6 اکتوبر 2004ءسے 7 اکتوبر 2007ءتک اس عہدے پر فائز رہے۔ بعد ازاں پھر آرمی کے جنرل طارق مجید 8 اکتوبر 2007ءسے 7 اکتوبر 2010ءتک چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے پر کام کرتے رہے۔ بعدازاں 8 اکتوبر 2010ءکو آرمی ہی کے جنرل خالد شمیم وائس چیئرمین بنے۔ 8 اکتوبر2010ءسے 7اکتوبر 2013ءتک اس منصب پر کام کیا۔یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ نیوی کے ایڈمرل افتخار سروہی اور ایئرفورس کے ایئر چیف مارشل فاروق فیروز خان چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنائے گئے تو صدر غلام اسحق خان اور وزیراعظم بینظیر بھٹو تھیں گویا جب کبھی نیوی یا ایئرفورس کی باری آئی تو سول حکمران تھے اور آئین کے مطابق وزیراعظم مشورہ دیتی تھیں حتمی منطوری صدر مملکت کے ذمہ دی۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جہانگیر کرامت اور پرویز مشرف دونوں کو آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے دیئے گئے تو ملک کے وزیراعظم نوازشریف تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنرل خالد شمیم وائیں کو سنیارٹی کے اعتبار سے اکتوبر 2010ءکو آرمی چیف بننا تھا تو جنرل کیانی کو توسیع دے دی گئی اور وہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بن گئے۔ حالیہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور انہوں نے الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ لہٰذا لازم ہے کہ 29 سے پہلے نئے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا فیصلہ کر دیا جائے اور اس کے ساتھ ہی نئے آرمی چیف کا اعلان بھی ضروری ہو گا۔ کیونکہ یہ دونوں عہدے ایک ساتھ پُر ہوئے تھے اور ایک ساتھ ہی خالی ہو گئے ہیں۔ عام خیال ہے کہ جنرل زبیر محمود حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر کیا جائے گا اور اس شکل میں لیفٹیننٹ جنرل قمر باجوہ، لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے یا لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم میں سے کس کو آرمی چیف بنائے جانے کا امکان ہے۔روایت کے مطابق چونکہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی آرمی کی بجائے ایئرفورس یا نیوی سے بھی لیا جا سکتا ہے جس کی پہلے سے مثالیں موجود ہیں لہٰذا اس بات کا بھی امکان ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات یا کسی اور آرمی جنرل کی بجائے قرعہ فال کسی ایئرفورس یا نیوی کے اعلیٰ افسر کے نام بھی نکل آئے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain