تازہ تر ین

سپریم کورٹ کا وزیراعظم بارے اہم اعلان, ن لیگ میں کھلبلی

اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری کی جانب سے کیس میں اخباری خبروں کو لانے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ آپ کے موکل کے بارے انگریزی اخباروں میں جو 30 سال تک چھپتا رہا کیا اسے مان لیں ؟اخباری خبروں پر فیصلہ سنایا تو آپ کے موکل کےلئے بھی پریشانی ہو سکتی ہے ¾ یونہی زور نہ لگائیں اور کچی دیواروں پر پیر نہ جمائیں، ہم سیاسی بیانات کا جائزہ نہیں لے سکتے ¾آپ سونے میں کھوٹ کیوں ڈال رہے ہیں؟آپ کو 2006ءسے پہلے شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں کی ملکیت ثابت کرنا ہو گی؟۔ اگر یہ ثابت ہوجائے تو سارا بوجھ شریف خاندان پر ہوگا۔ بدھ کو یہاں وزیراعظم نوازشریف¾ ان کے بچوں کےخلاف منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری کے الزامات اور پاناما لیکس میں سامنے آنے والی معلومات کی تحقیقات سے متعلق درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے کی۔ سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے قائدین اور مسلم لیگ (ن) کے وزراءبھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ عدالت میں پی ٹی آئی کی نمائندگی نعیم بخاری اور بابر اعوان نے کی جبکہ وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ اور ان کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ بھی عدالت میں موجود تھے۔ دوران سماعت عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف کے صاحبزادے کا این ٹی این ہی نہیں ہے۔ مریم نواز وزیر اعظم کی زیرکفالت ہیں اور وہ لندن فلیٹس کی بینی فشل اونر ہیں ¾وزیر اعظم کو یہ بات گوشواروں میں پیش کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہاکہ قطری شہزادے کا خط وزیر اعظم کے مو¿قف سے مختلف ہے ¾نیب اور دیگر ادارے اپنا کام کرنے میں ناکام رہے۔ نیب وزیر اعظم کو بچانے میں لگا رہا۔ نیب چیئرمین کےخلاف آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی جائے ¾اسحاق ڈار نے منی لانڈرنگ کیس میں اعترافی بیان دیا جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اس کیس کا فیصلہ آ چکا ہے ۔پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ رقوم کی منتقلی کی تفصیلات پیش نہیں کی گئیں ¾وزیر اعظم کے بیانات کے بعد وہ صادق اور امین نہیں رہے،وزیر اعظم نوازشریف کو نااہل قرار دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب، قطر اور دبئی میں کاروبار کےلئے رقم موجود نہیں تھی ¾وزیر اعظم نہ ایماندار اور نہ ہی سچ بولنے والے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ بیان حلفی اور معاہدے کے دستخط میں تضاد ہے ¾ یہ نہیں کہنا چاہتا کہ طارق شفیع کے دستخط شہباز شریف نے کئے۔ جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ 12 ملین درہم کی رقم طارق شفیع نے قطر کیسے منتقل کی؟ رقم انہیں ملنے کی دستاویزات موجود نہیںجس پر وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ وہ وزیراعظم کے بچوں کے وکیل ہیں۔ طارق شفیع کی نمائندگی نہیں کر رہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ پانامہ لیکس کیس میں وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے جمع کرائے گئے ضمنی جواب اور تقاریرمیں تضاد ہے جب کہ 2006سے پہلے آف شورکمپنیوں کی ملکیت ثابت ہوگئی تو سارا بوجھ شریف خاندان پر ہو گا۔ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ حامد خان نے قانون پر کتابیں لکھی ہیں اور وہ ایک سینئر وکیل ہیں ان پر ایسی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میڈیا کو ان کے حوالے سے احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ اس کیس کی پانچ سے زائد سماعتیں ہوچکی ہیں اور اس میں مزید ٹائم ضائع کرنے کی بجائے کوئی رزلٹ نکالا جائے اور کمیشن مقرر کیا جائے عوام اس کیس کے حوالے سے جلد کوئی رزلٹ دیکھنا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اس بنچ پر مکمل اعتماد ہے۔ گزشتہ سماعت پر جو الفاظ کا تبادلہ ہوا اس پر جسٹس عظمت سعید سے معافی مانگتا ہوں اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بخاری صاحب آپ اپنے کیس پر توجہ دیں خوشامد نہ کریں ۔ نعیم بخاری کا اپنے دلائل میںکہا کہ ریکارڈ سے ثابت کروں گا کہ وزیراعظم نے غلط بیانی کی اورٹیکس چوری کے مرتکب ہوئے، وزیراعظم نے 13 اپریل 2016 کو قوم سے خطاب کیا اور قوم سے جھوٹ بولا، دوسرے خطاب میں بھی وزیراعظم نے سچ نہیں بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے بیٹے سے پیسے لئے جب کہ وزیراعظم کے صاحبزادے کا این ٹی این نمبرہی نہیں ہے، مریم نواز وزیراعظم کی زیرکفالت ہیں اورلندن فلیٹس کی بینیفیشل آنر ہیں، وزیراعظم کو یہ بات گوشواروں میں ظاہرکرنا چاہیے تھی جبکہ قطری شہزادے کا خط وزیر اعظم کے موقف سے بالکل مختلف ہے۔نعیم بخاری نے کہا کہ نیب اور دیگر ادارے اپنا کام کرنے میں ناکام رہے، نیب وزیر اعظم کو بچانے میں لگا رہا جس پر نیب چیئرمین کے خلاف آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار نے منی لانڈرنگ کیس میں اعترافی بیان دیا، جس پر جسٹس عظمیت سعید شیخ نے کہا کہ اس کیس کا فیصلہ آ چکا ہے۔ نعیم بخاری نے مو¿قف اختیار کیا کہ وزیراعظم نے اپریل 1980 میں 33 ملین درہم میں فیکٹری فروخت کرنے کا بتایا، دبئی میں فیکٹری کب بنائی گئی وزیراعظم نے اپنے بیان میں نہیں بتایا جب کہ دبئی حکومت کے خط پرکوئی دستخط بھی نہیں ہیں، شیئرز کی فروخت کا معاملہ وزیراعظم کی ذہنی اختراع ہے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain