اسلام آباد (ویب ڈیسک) اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا عوام ووٹ کے ذریعے ایوان میں بھیجتے ہیں اور پارلیمنٹ بڑا مقدس ایوان ہے۔ ایوان میں کہے ایک ایک لفظ کی اہمیت ہوتی ہے کیونکہ ایوان آئین بناتا ہے اور اس سے ادارے جنم لیتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا مقدس ایوان کو بچانے کیلئے اپوزیشن نے اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت ہمیں طعنے دیئے گئے اور میری ذات پر حملے کیے گئے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت تیزی سے مقبولیت کھو رہی ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے خورشید شاہ کو پاناما کیس کے معاملے پر بات کرنے سے گریز کرنے کی ہدایت اور کہا پاناما کا معاملہ عدالت میں ہے۔ اس پر اپوزیشن لیڈر نے کہا پارلیمنٹ سپریم ہے جو عدالت سے زیادہ مقدس ہے۔ خورشید شاہ نے کہا وزیراعظم کا پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کو سیاسی قرار دینا افسوسناک ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے کہ کیا سیاست جھوٹ ہے؟۔ سیاست خدمت اور عبادت ہے جبکہ سیاست کو جھوٹ سمجھنے والے آمریت کی سوچ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا منتخب وزیراعظم کی سوچوں کا مظہر سیاست اور پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے بیان کو جھوٹ قرار دینا ایوان کی توہین ہے۔ ماضی میں آمروں سے لڑتے رہے ہیں اور خون کی ضرورت پڑی تو دیا۔ جیلوں میں جان پڑا تو گئے لیکن ایوان کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دیا۔ جب ایوان کا لیڈر جھوٹ بولے تو ایوان کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟۔ حکمران عوام سے جھوٹ بولے تو وہ سوالیہ نشان میں آ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا پارلیمنٹ پر ایوان کے اندر سے حملہ ہوا ہے۔ چیف جسٹس ہمارا نہیں پورے پاکستان کا ہے متنازع نہ بنائیں۔ میں چیف جسٹس پر انگلی نہیں اٹھا سکتا لیکن لوگوں کی سوچ بتا رہا ہوں۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا ایک وقت تھا وزیر اعظم کے پیچھے لوگ چھپتے تھے آج وزیراعظم قطری شہزادے کے خط کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔ خورشید شاہ نے کہا جمہوریت کیلئے ہم نے دشمنیاں بھی بھلا دیں اور پارلیمنٹ کے استحکام اور ایوان کی توقیر کیلئے سیاست کی۔ دبئی والے کی زبان کاٹ دی گئی جبکہ بے نظیر بھٹو شہید کیلئے زمین تنگ کر دی گئی اور انہیں باہر جانا پڑا۔ آصف زرداری جیل کاٹتے رہے لیکن پیپلز پارٹی نے مشکل میں مسلم لیگ ن کا ہاتھ تھاما۔ جن کیلئے اتنا کچھ کیا وہ کہتے ہیں پارلیمنٹ میں بیان سیاسی تھا۔ سب سے زیادہ خسارے میں تو پیپلز پارٹی کو بنایا جا رہا ہے۔ کوئی فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ دیتا ہے کوئی کہتا ہے یہ ملے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا وکیل خود نہیں بولتا کلائنٹ کی زبان بولتا ہے۔ اگر آپ نے بات نہیں کی تو بتائیں وکیل نے عدالت میں جھوٹ بولا۔ اتنے دن گزر گئے عدالت میں جو بولا گیا اس کی تردید نہیں کی گئی۔ اس کا مطلب ہے جو عدالت میں بولا گیا وہ حقیقت ہے۔