اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک، ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی( پی پی پی) نے نیشنل ایکشن پلان( نیپ) پر عمل درآمد میں ناکامی پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ وزیر داخلہ کے کالعدم تنظیموں سے روابط کی رپورٹ آئی ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس 2 دن کے گرما گرم بحث کے بعد اسپیکر ایاز صادق کی صدارت میں شروع ہوا۔ اجلاس میں سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے شہدا اور شام کے شہر حلب میں جانہ جنگی میں جاں بحق ہونے والوں کیلئے دعا کی گئی۔ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی اعجاز جکھرانی نے الزام لگایا کہ وزیر داخلہ کے کالعدم تنظیموں کے ساتھ روابط کی رپورٹ سامنے آئی ہے، دہشت گردوں سے خفیہ ملاقاتیں کی جائیں گی تو دہشت گردی بڑھے گی۔ اعجاز جکھرانی کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں ہو رہا اور دہشت گردی نے ملک کو تباہ کر دیا ہے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونے پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار استعفیٰ دیں۔ اجلاس کے دوران حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن(پی ایم ایل این) کے رکن اسمبلی اور ریلوے کے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کھرے آدمی ہیں۔ انہوں نے کلاشنکوف کے لائسنس نہیں بیچے۔ قومی اسمبلی میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کو ان کی اتحادی جماعت تحریک انصاف نے تنہا چھوڑ دیا،شیخ رشید کی پیپلزپارٹی کے اعجاز خان جاکھرانی اور وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق سے تلخ کلامی تحریک انصاف کے ارکان خاموشی سے بیٹھے دیکھتے رہے۔ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے شیخ رشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ یہ شخص ڈرامہ لگانا چاہتا ہے مگر اب ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے،اعجا ز جاکھرانی نے کہاکہ شیخ رشید انتہائی بدتمیز شخص ہے۔ شیخ رشید کو نقطہ اعتراض پر بولنے کی اجازت نہ ملنے پر آزاد رکن جمشید دستی احتجاجاً سپیکر ایاز صادق کی ڈائس کے سامنے بیٹھ گئے۔ تفصیلات کے مطابق جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد سپیکرایاز صاد ق سے نقطہ اعتراض پر بولنے کی اجازت مانگتے رہے۔ اس موقع پر شیخ رشید احمد نے کہاکہ اسپیکر صاحب آپ میرے ساتھ ایسا رویہ رکھتے ہیں اللہ آپ کو پوچھے گا جس کے بعد شیخ رشید اپنی نشست پر جاکر بیٹھ گئے،تھوڑی دیر بعد پیپلزپارٹی کے اعجاز جاکھرانی نقطہ اعتراض پر بولنے لگے تو شیخ رشید احمد نے اٹھ کر کہا کہ نقطہ اعتراض پر پہلے بات میں کروں گا،اسپیکر سے میں نے اجازت لے لی ہے۔ اس دوران اعجاز جاکھرانی اور شیخ رشید میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ،اعجا ز جاکھرانی نے کہاکہ شیخ رشید انتہائی بدتمیز شخص ہے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق بھی پیچھے نہ رہے اور شیخ رشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ یہ شخص ڈرامہ لگانا چاہتا ہے مگر اب ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے۔اس موقع پر آزاد رکن جمشید دستی اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے اور شیخ رشید کو نقطہ اعتراض پر بولنے کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج کرنے لگے۔ اس دوران جمشید دستی اور مسلم لیگ ن کے رکن سید محمد عاشق حسین شاہ میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اور جمشید دستی سپیکر کی ڈائس کے سامنے آکر بیٹھ گئے جن کو وفاقی وزیر مملکت شیخ آفتاب نے منا کر واپس ان کی نشست پر بھیجا۔ اس موقع پر شیخ رشید احمد نے اپنی نشست پر کھڑے ہوکر کہا کہ آج 16دسمبر ہے۔ اگر پیپلزپارٹی کے ارکان سانحہ آرمی پبلک سکول اور سقوط ڈھاکہ پر بولنا چاہتے ہیں تو میں پیر کو نقطہ اعتراض پر بات کرلوں گا۔انہوں نے کہاکہ سپیکر صاحب آج جتنی آپ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے اتنی وزیراعظم پر بھی نہیں،میں نے پہلا سپیکر دیکھا ہے جس کی وجہ سے ایوان کا تقدس بڑھنے کی بجائے کم ہوا ہے۔ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے بھی وزیر داخلہ چودھری نثار کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔ اعتزاز کا کہنا تھا کہ چودھری نثار بالکل ناکام وزیر داخلہ ثابت ہوئے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہے۔ چودھری نثار نے آج تک اپنی وزارت میں کچھ نہیں کیا۔ قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی سید خورشید احمد شاہ نے سپریم کورٹ کے سانحہ کوئٹہ پر بنائے گئے انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے چار مطالبات میں پہلے ہی نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل در آمد کامطالبہ شامل ہے اور ہم نے یہ مطالبہ اس لئے رکھا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل در آمد نہیں کیا جا رہا ہے اور اب عدالت عظمی کے کمیشن کی انکوائری رپورٹ نے ہمارے مطالبے کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ اپنے بیان میں قائد حزب اختلاف نے کہا کہ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد نہیں ہو رہا اور اس معاملے میں وزیر داخلہ تذبذب کا شکار ہیں اور اب عدالت عظمی کے کمیشن کی رپورٹ سے ثابت ہوگیا کہ وزیر داخلہ غلط بیانی کرتے ہیں ، وزارت داخلہ میں قیادت کا فقدان ہے اور وزارت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کنفیوژن کا شکار ہے، افسر شاہی وزیر داخلہ کی خوشامد میں لگی ہوئی۔ اب ان حقائق کے بعد وزیر داخلہ کا اپنے عہدے پر براجمان رہنا دہشت گردی کے شکار عوام کے ساتھ بھونڈا مذاق ہوگا۔ اس لئے ضروری ہے کہ وزیر داخلہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری قوم نے دہشت گردی کے خلاف جانیں دیں، اپنا مال لٹایا اور گھر بار چھوڑا اور اپنے ٹیکسوں سے اپنی بساط سے بھی زیادہ پیسہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے صرف کیا لیکن یہ بات نہایت قابل افسوس اور قابل مذمت ہے کہ وزیر داخلہ اور اس کے ماتحت ادارں کی ناقص کارکردگی ، غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے ہم کھربوں روپئے خرچ کرنے کے باوجود بھی تسلی بخش نتائج حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات تو سب پہ عیاں ہے کہ وزارت داخلہ کالعدم تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی کرنے سے قاصر رہی اور کالعدم تنظیموں کے لوگ کبھی ایک روپ میں اور کبھی دوسرے روپ میں آزاد گھوم رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ اور اس کی وزارت کی اگر یہی کارکردگی رہی تو پھر خدشہ ہے کہ ضرب عضب میں سول و ملٹری اداروں نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ بھی ضائع ہو جائیں۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کی قیامت کئی بار اور کئی شہروں میں ٹوٹی مگر وزیر داخلہ نے دہشت گردی کے مقام پر جا کر کبھی اظہار افسوس بھی نہ کیا۔