تازہ تر ین

سی پیک منصوبہ …. تمام” سیاسی جماعتوں“ میں اتفاق

بیجنگ (نیوز ایجنسیاں‘مانیٹرنگ ڈیسک ) اقتصادی راہداری کے اعلیٰ ترین فورم جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ہوا گزشتہ روز بیجنگ میں ہونے والے اس اجلاس میں اہم منصوبوں کی منظوری دی گئی، سی پیک میں سندھ کے تین ترقیاتی منصوبوں کو شامل کرنے کی بھی اصولی منظوری دے دی گئی، جمعرات کو اجلاس کے بعد میں ہونےوالے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے بتایا کہ گوادر بندرگاہ کی اپ گریڈیشن چاروں صوبائی دارلحکومتوں میں ریل ماس ٹرانزٹ، شاہراہ قراقرم کے قابل مرمت حصے کی تعمیر شروع کرنے، ڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب تک سڑک کی تعمیر، کوئٹہ واٹر سپلائی منصوبے اور چنیوٹ میں سٹیل ملز کی منظوری دی گئی ہے اسلام آباد شمالی علاقوں کشمیر گلگت بلتستان اور فاٹا میں اقتصادی زونز تعمیر ہوں گے سی پیک مشترکہ معاون کمیٹی نے جنوب شمالی ٹرانسمیشن لائن منصوبے کی بھی منظوری دی ہے وفاقی وزیر نے کہا کہ دونوں ملکوں کے تعاون سے راہداری منصوبہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے 10ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے جاری ہیں احسن اقبال نے کہا کہ چین کا انرجی گروپ فروری میں پاکستان کا دورہ کرے گاملتان سکھر موٹروے اور قراقرم ہائی وے کی اپ گریڈیشن پر تیزی سے کام جاری ہے انہوں نے کہا کہ گوادر سے سو راب تک شاہراہ مکمل ہو چکی ہے وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان اور چین پانچ شعبوں میں ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں گے انہوں نے کہا کہ چینی قیادت نے پاکستان سے قابل اعتماد دوستی کو ثابت کیا ہے پاکستان میں خطیر سرمایہ کاری پر چین کی حکومت اور عوام کے مشکور ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت نے گوادر میں 300میگاواٹ بجلی منصوبے کی منظوری دی ہے گوادر میں ہسپتال اور ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کی تعمیر کا کام تیز کیا جائے گااحسن اقبال نے کہا کہ پاکستان میں کام کرنے والے چینی ورکرز پاکستان کے معمار ہیں ان کی سیکورٹی کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے گا، علاوہ ازیں چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) میں سندھ کے تین ترقیاتی منصوبوں کو شامل کرنے کی اصولی منظوری دے دی۔وزیراعلی سندھ کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق چینی حکام نے کراچی سرکلر ریلوے، کیٹی بندر اور خصوصی اقتصادی زونز کے پروجیکٹس کو سی پیک میں شامل کرنے کی منظوری دے دی ہے۔اس بات کا فیصلہ بیجنگ میں سی پیک کے حوالے سے ہونے والے پاک چین مشترکہ تعاون کمیٹی(جے سی سی)کے چھٹے اجلاس کے موقع پر کیا گیا جس میں وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ شریک ہوئے۔سرکاری ذرائع کے مطابق پاک چین مشترکہ تعاون کمیٹی(جے سی سی(کے بیجنگ میں ہونے والے اجلاس میں سی پیک کے تحت زیر تعمیر منصوبوں پر ہونے والی پیشرفت کا جائز لیا گیا۔وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی وزیر احسن اقبال نے پاکستانی وفد کی قیادت کی جبکہ وفد کے دیگر ارکان میں وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی، وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ، وزیراعلی خیبرپختونخوا پرویز خٹک، وزیراعلی بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری اور گلگت بلتستان کے وزیراعلی حفیظ الرحمان شامل ہیں جبکہ صوبائی وزیر صنعت شیخ علا الدین پنجاب کی نمائندگی کررہے ہیں۔چین کے ترقی اور اصلاحات کے قومی کمیشن کے نائب چیئرمین چینی وفد کی قیادت کررہے ہیں۔اجلاس میں وزیراعلی سندھ کی جانب سے پیش کی جانے والی تفصیلات کے بعد جے سی سی نے مذکورہ منصوبوں کو سی پیک میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا اور سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ آئندہ تین ماہ میں ان منصوبوں کی فیزیبلٹی رپورٹ پیش کی جائے۔وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے صوبائی وزیر تجارت سید ناصر شاہ کو ہدایت کی کہ وہ مقررہ وقت میں ان پروجیکٹس کی فیزیبلٹی رپورٹس تیار کریں۔یہ توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ چینی حکومت سی پیک کے تحت ان تینوں منصوبوں کی تکمیل کے لیے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کرے گی۔سرکاری عہدے داروں کے مطابق یہ رقم سی پیک کے مغربی روٹس سے منسلک تین اضافی سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کی جانی تھی۔واضح رہے کہ 22 دسمبر کو وزیراعظم نواز شریف نے متعلقہ حکام کو ہدایت دی تھی کہ سندھ حکومت کی خواہش کے مطابق کراچی سرکلر ریلوے اور کیٹی بندرگاہ منصوبے کو سی پیک کا حصہ بنانے کا معاملہ جے سی سی کے اجلاس میں اٹھایا جائے۔اجلاس میں وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بھرپور وکالت کی اور کہا کہ کراچی دنیا کے گنجان آباد ترین شہروں میں سے ایک ہے جس کی آبادی تقریبا دو کروڑ 51 لاکھ کے قریب ہے جو کہ ٹوکیو، گوانگ ژو، سیﺅل، نئی دہلی، ممبئی، نیویارک، میکسیکو سٹی، سا پالو، منیلا اور جکارتہ سے زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی کی آبادی 2030 تک 3 کروڑ 43 لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے لہذا اگر اس شہر میں سرمایہ کاری کی جائے تو منافع کے بہترین مواقع موجود ہیں۔مراد علی شاہ نے اجلاس کو بتایا کہ 42 فیصد مسافروں کا بوجھ پبلک ٹرانسپورٹ کو اٹھانا پڑتا ہے جبکہ نجی گاڑیاں صرف 21 فیصد مسافروں کا بوجھ اٹھاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل موثر ماس ٹرانزٹ سسٹم میں ہے جس میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی، بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم اور لائٹ ریل ٹرانزٹ سسٹم شامل ہے۔مراد علی شاہ نے بتایا کہ کراچی سرکلر ریلوے پہلی بار 1964 میں شروع کیا گیا تھا 1984 تک یہ ٹرانسپورٹ کا موثر ذریعہ بنا رہا۔سرمایہ کاری نہ ہونے اور دیگر وجوہات کی بنا پر اس کی افادیت کم ہوتی گئی اور مسافروں کی تعداد کم ہوگئی جبکہ بالآخر اسے 1999 میں بند کرنا پڑا۔نہوں نے بتایا کہ کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کی منظوری نیشنل اکنامک کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی دے چکی ہے۔وزیراعلی سندھ نے کہا کہ تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن کے ساتھ مل کر منصوبے کی فیزیبلٹی اسٹڈی مکمل کرلی گئی ہے جبکہ منصوبے کے ماحولیاتی اثرات کا بھی جائزہ مکمل کرلیا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ منصوبے کے لیے یوٹیلٹی سروسز کو دوسرے مقام پر منتقل کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔مراد علی شاہ نے بتایا کہ کے الیکٹرک نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس منصوبے کے لیے بلا تعطل بجلی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔انہوں نے سرمایہ کاروں کو یقین دہانی کرائی کہ یہ پروجیکٹ وفاقی اور صوبائی ٹیکس سے مستثنی ہوگا۔وزیراعلی سندھ نے بتایا کہ جاپان نے کراچی سرکلر ریلوے کی لاگت تقریبا 2.6 ارب ڈالر بتائی تھی اور سرمایہ کاری کا خاکہ بھی تیار کیا تھا جس کے تحت 85 فیصد قرض کی بنیاد پر سرمایہ کاری جبکہ 15 فیصد صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے سرمایہ کاری کی جانی تھی۔انہوں نے بتایا کہ منصوبے میں سرمایہ کاری پر منافع کی متوقع شرح 13.8 فیصد ہے جبکہ اس منصوبے سے معاشی فوائد حاصل ہوں گے، وہیکل آپریشن کوسٹ اور ٹریول ٹائم کوسٹ میں کمی آئے گی۔مراد علی شاہ نے سرمایہ کاروں کو دعوت دی کہ وہ کراچی سرکلر ریلوے میں سرمایہ کاری کے لیے وفاقی اور سندھ حکومت کا ساتھ دیں۔انہوں نے منصوبے کو سی پیک میں شامل کرنے کے لیے چینی تعاون کی خواہش ظاہر کی اور کہا کہ وزیراعظم نواز شریف اس کی شمولیت کی منظوری دے چکے ہیں اور خود مختار ضمانت بھی دے چکے ہیں۔جے سی سی نے کراچی سرکلر ریلوے کو سی پیک میں شامل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ وہ تین ماہ میں فیزیبلٹی رپورٹ پیش کرے۔مراد علی شاہ نے جے سی سی کو بتایا کہ کیٹی بندر منصوبہ ایسے مقام پر ہے کہ وہ تھر کول پروجیکٹ کے لیے پاور پارک کا کردار ادا کرسکتا ہے کیوں کہ یہ کوئلے کی کان اور کراچی سے بھی قریب ہے۔کیٹی بندر کراچی سے 160 کلو میٹر دور ہے اور بذریعہ سڑک منسلک ہے،نئی جیٹی کی تعمیر سے کوئلہ برآمد کرنے کی صلاحیت بڑھے گی جبکہ اسے مکمل بندرگاہ بھی بنایا جاسکتا ہے،مراد علی شاہ نے بتایا کہ تھر کول فیلڈ کو خصوصی اقتصادی زون قرار دیا جاچکا ہے اور جو پروجیکٹس اسے سپورٹ کررہے ہیں انہیں متعدد معاشی فوائد حاصل ہورہے ہیں۔اپنے اسٹریٹجک پلان سے کمیٹی کو آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ نئی جیٹی کی تعمیر سے تھر کے کوئلے کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ممکن ہوجائے گا، بجلی پیدا کرنے کی لاگت کم ہوگی اور مناسب قیمتوں پر بجلی کی فراہمی سے ملک کی مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پاور پارک کی پیداواری استعداد 10 ہزار میگا واٹ ہوگی جبکہ ٹرانسمیشن لائن کیٹی بندر کو جامشورو اور مٹیاری گرڈ سے منسلک کرے گی۔مراد علی شاہ نے بتایا کہ اسلام کوٹ سے کیٹی بندر تک کوئلے کی ترسیل کے لیے 235 کلو میٹر طویل ریلوے لائن بچھائی جائے گی جبکہ کیٹی بندر کو نوری آباد سے ملانے کے لیے 190 کلو میٹر طویل سڑک بھی تعمیر کی جائے گی۔انہوں نے جے سی سی سے درخواست کی کہ منصوبے کی اصولی منظوری دی جائے جیسا کہ نومبر میں ہونے والے ٹرانسپورٹ انفرا اسٹرکچر جوائنٹ ورکنگ گروپ کے اجلاس میں طے کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ورکنگ گروپ کے آئندہ اجلاس میں بینکاری کے قابل فیزیبلٹی رپورٹ پیش کردی جائے گی۔جے سی سی نے کیٹی بندر پاور پارک اور بندرگاہ منصوبے کو سی پیک میں شامل کرتے ہوئے فیزیبلٹی اسٹڈی کرانے کا فیصلہ کیا۔وزیراعلی سندھ نے کہا کہ اسپیشل اکنامک زون اتھارٹی سندھ نے تجویز پیش کی ہے کہ ٹھٹھہ میں دھابیجی اور کیٹی بندر اسپیشل اکنامک زونز قائم کیے جائیں۔انہوں نے بتایا کہ دھابیجی ایک ہزار ایکڑ کے رقبے پر محیط ہے جبکہ یہ کراچی سے 55 کلو میٹر کے فاصلے پر سی پیک این 5 یا ایم 9 کے مشرق میں واقع ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کیٹی بندر کا اسپیشل اکنامک زون 3 ہزار ایکڑ کے رقبے پر محیط ہے جبکہ یہ کراچی سے 153 کلو میٹر کی مسافت پر ہے جبکہ اس علاقے کی صنعتی صلاحیتوں کا اندازہ پورٹ کی تعمیر کے بعد لگایا جاسکے گا۔مراد علی شاہ نے جے سی سی اجلاس کو بتایا کہ دونوں مجوزہ اکنامک زونز کی زمینوں کی جانچ مکمل ہوچکی ہے جبکہ جلد ہی کمرشل فیزیبلٹی اور ماسٹر پلان تیار کرلیا جائے گا۔جے سی سی نے فیصلہ کیا کہ ہر صوبے میں ایک خصوصی اقتصادی زون ہوگا اور سندھ میں دھابیجی اسپیشل اکنامک زون قائم کیا جائے گا۔صوبائی وزیر برائے انڈسٹریز منظور وسان نے جے سی سی پر زور دیا کہ خیرپور اسپیشل اکنامک زون کو بھی سی پیک میں شامل کیا جائے تاہم یہ فیصلہ کیا گیا کہ سندھ میں صرف ایک اقتصادی زون تعمیر کیا جائے گا۔جے سی سی نے سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ وہ تفصیلی پلان اور فیزیبلٹی رپورٹ پر کام کرے تاکہ منصوبے کی باضابطہ منظوری دی جاسکے،اس سے قبل بیجنگ میں پاک چین مشترکہ تعاون کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کے دوران منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری علاقائی اور بین الاقوامی روابط کا ایک بڑا منصوبہ بن گیا ہے۔ .وفاقی وزیر نے کہا کہ اس منصوبے سے دنیا بھر میں اربوں افراد مستفید ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت جاری توانائی کے منصوبے دو ہزار سترہ اٹھارہ تک مکمل ہوں گے اور ان سے پانچ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی۔احسن اقبال نے کہا کہ بڑے منصوبوں پر تیزی سے عملدرآمد دونوں ملکوں کی جانب سے سنجیدہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ چینی صدر شی جن پنگ کے ایک پٹی ایک شاہراہ کے ویژن کا عکاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین نے حال ہی میں شمال اور جنوب ٹرانسمیشن لائن سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں جسے توانائی کے منصوبوں سے منسلک کیا جائے گا۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain