راحت کاظمی کا شمار انتہائی پڑھے لکھے فنکاروں میں ہوتا ہے پاکستان ٹیلی ویژن اور فلم کے پڑھے لکھے اداکاروں میں ایک نام راحت کاظمی کا بھی ہے جو 30 جون 1946ءمیں بھارت کے شہر شملہ میں پیدا ہوئے۔ 1968ءمیں سول سروس جوائن کی اور انفارمیشن آفیسر مقرر ہوئے تاہم 1976ءمیں اس نوکری سے استعفیٰ دیدیا اور باقاعدہ اداکاری میں آگئے۔ تیسرا کنارہ جو حسینہ معین نے لکھا ان کے یادگار ڈراموں میں سے ایک ہے۔ آج کل LAS میں ایڈمنسٹریٹو ڈائریکٹر ہیں اور اے لیول کے طلباءکو انگلش لٹریچر اور ڈرامہ پڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ ماضی میں بھی وہ ہمدرد یونیورسٹی کلفٹن کیمپس کراچی میں پڑھاتے رہے ہیں۔ انہوں نے چند اردو فلموں میں بھی کام کیا مگر پذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔ راحت کاظمی نے ٹی وی آرٹسٹ اور ڈرامہ پروڈیوسر ساحرہ کاظمی سے شادی کی جن کے بارے میں اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ ان کے سکرپٹ کو صرف ساحرہ کاظمی اور محمد عظیم سمجھتے ہیں۔ راحت کاظمی کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے ان کا رجحان بھی اداکاری کی طرف ہے۔عارفہ صدیقی نے اپنے سے تیس برس بڑے استاد نذر سے شادی کی
عارفہ صدیقی نے 1980ءمیں چھوٹی سکرین پر اپنی شوخ اداکاری سے اچھی خاصی دھوم مچائی۔ عارفہ کی والدہ طلعت صدیقی اور خالہ ریحانہ صدیقی بھی ریڈیو اور ٹی وی کی معروفاور باصلاحیت اداکارائیں تھیں جبکہ اس کی ایک خالہ ناہید صدیقی کلاسیکل ڈانس پر عبور رکھتی ہیں۔ عارفہ صدیقی نے 1980ءسے اپنے فنی کیرئیر کی شروعات کی۔ اس کی معصومانہ اور بے ساختہ اداکاری ٹی وی ناظرین کو بہت پسند تھی۔ عارفہ صدیقی کے قابل ذکر ڈراموں میں ”فشار“ اور دوسری عطاءالحق قاسمی کی ڈرامہ سیریل خواجہ اینڈ سنز تھی جس میں عارفہ نے اورنگزیب اور علی اعجاز کے مقابل شاندار اداکاری کی تاہم بعد میں ایک سکینڈل کی وجہ سے عارفہ نے ٹی وی سکرین کو خیرباد کہہ دیا۔ عارفہ صدیقی نے کم عمر ہونے کے باوجود کلاسیکل موسیقی کے استاد نذر حسین سے شادی کی جو عمر میں ان سے تیس برس بڑے تھے۔ یہ شادی زیادہ دیر نہ چل سکی اور علیحدگی پر ختم ہوئی تاہم عارفہ صدیقی نے چھوٹی سکرین پر عمدہ اداکاری کے جو نقوش چھوڑے ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔ راشد محمود کی آواز سے پنجابی فلمیں بکتی رہیں راشد محمود کے فنی سفر کی شروعات ریڈیو سے ہوئی جس زمانے میں فلمیں دھڑا دھڑ بن رہی تھیں اور ریڈیو پر ان کی تشہیر کا بھی رواج تھا جس فلم کے بارے میں راشد محمود کی دبنگ آواز میں اس انداز سے اشتہار چلتا ”اج ای ویکھو میٹروپول سینما وچ مولا جٹ“ تو وہ فلم خود بخود ہٹ ہوجایا کرتی تھی۔ راشد محمود کا اصل نام محمد راشد محمود کاشمیری ہے۔ ٹیلی ویژن پر ان کے ڈرامے ”شاہین“ نے خاصی دھوم مچائی جسے قاسم جلالی نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے قابل ذکر ڈراموں میں” الزام‘ دل دے کے جاویں‘ دلربا‘ نوٹنکی‘ اس پار اور خدا زمین سے نہیں گیا “قابل ذکر ہیں۔ راشد محمود کا ایک ہی اکلوتا بیٹا تھا جو اچانک انہیں داغ مفارقت دے گیا مگر بیٹے کے غم کو انہوں نے جس حوصلے سے برداشت کیا وہ انہی کا حوصلہ تھا‘ آج بھی ٹیلی ویژن کےلئے ڈرامے اور ٹیلی فلمیں کررہے ہیں