تازہ تر ین

نور جہاں نے گانے سے انکار کرکے فردوس کا فنی کیرئیر تباہ کردیا

نور جہاں نے گانے سے انکار کرکے فردوس کا فنی کیرئیر تباہ کردیا
اداکارہ فردوس اداکاری کی ایک طویل داستان ہے۔ فردوس کا اصل نام پروین ہے۔ 1963ءمیں اس کو فلم ”فانوس “میں بطور کلاسیکل ڈانسر متعارف کروایا گیا۔ اس کا کردار ایک ایسی ڈانسر کا تھا جو ایک نواب کی قدیم حویلی میں ڈانس کرتی رہتی ہے۔ نواب مرچکا ہوتا ہے اور حویلی کا گیٹ بند رہتا ہے۔ فردوس کا کردار بڑا پراسرار تھا تاہم فنی خرابیوں کے باعث یہ فلم فلاپ ہوگئی۔ فردوس نے جب فنی کیرئیر کی شروعات کی تو ابتدائی طور پر اس کی کچھ فلمیں بری طرح سے ناکام ہوئیں جن میں ”خاندان‘ ملنگ‘ لائی لگ اور عورت“ شامل تھی۔ تاہم 1965ءمیں بننے والی فلم” ملنگی “ سے اسے خاصی کامیابی ملی اور فلم بینوں نے بھی اس کے کام کو بے حد سراہا۔ اس فلم کا ایک گیت آج بھی مشہور ہے۔
”ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں“
جو ملکہ ترنم نور جہاں نے گایا اور فردوس پر پکچرائز ہوا۔ اس کے بعد فردوس کی اکمل کے ساتھ جوڑی بنی دونوں نے مل کر فلم” اکبرا اور چاچا جی“ میں کام کیا جن میں فردوس نے غضب کے ڈانس کئے۔ اس کا منفرد سٹائل اور بکھرے بال ساری شہرت سمیٹ کر لے گئے۔ جلد ہی اکمل اور فردوس میں پیار کی پینگیں بڑھنے لگیں۔ فلم بینوں کی بھی یہی خواہش تھی اکمل اور فردوس کی حقیقی زندگی میں بھی جوڑی بن جائے مگر اکمل 1967ءمیں پراسرار طور پر چل بسا۔ کہا یہ گیا کہ اوور ڈوز کا مسئلہ تھا مگر یہ افواہیں بھی گردش کرنے لگیں کہ فردوس کے بھائیوں نے اسے زہر دیا تھا۔ اکمل 60 کی دہائی کا بادشاہ تھا۔ اکمل کی موت کے بعد فردوس نے اس زمانے کے ٹاپ پنجابی ہیروز کے ساتھ فلمیں کیں جن میں حبیب‘ سدھیر‘ یوسف خان‘ اور
اعجاز درانی بھی شامل تھے جو بعد میں فردوس کی زندگی کا حصہ بن گئے۔ ہدایتکار مسعود پرویز نے 1967ءمیں فردوس اوراعجاز کو لے کر مرزا جٹ بنائی جس کی شاندار کامیابی کے بعد دونوں کو لے کر ”مراد بلوچ“ بھی بنائی گئی اور پرڈیوسر اس رومانی جوڑی کو کیش تصور کرنے لگے جس کے بعد اوپر تلے فردوس اعجاز کی فلمیں ہٹ ہوئیں جن میں جوانی مستانی‘ دلاں دے سودے‘ شیراں دی جوڑی‘ حمیدہ‘ یار تے پیار اور عشق نہ پچھے ذات خاصی کامیاب ہوئیں تاہم مسعود پرویز نے 1970ءمیں اعجاز اور فردوس کو لے کر جب ہیر رانجھا بنائی تو اس نے نہ صرف پاکستان اور بھارت میں بھی تہلکہ مچا دیا۔ بھارت میں بھی ہیر رانجھا کی کاپی بنی مگر کامیاب نہ ہوسکی۔ اس فلم کی موسیقی خواجہ خورشید انور اور گیت مکالمے احمد راہی نے للھے تھے اعجاز اور فردوس کا جب زور شور سے رومانس چلا تب نور جہاں نے ایسا کوئی بھی گانا گانے سے انکار کردیا جو فردوس پرپکچرائز ہونا تھا۔ نور جہاں کے اس انکار سے فلمسازوں نے بھی فردوس کی طرف سے منہ موڑ لیا اور فردوس کی مقبولیت کا گراف روز بروز گرنے لگا۔ اس دوران ریاض ارشد کے ناول اندھی جوانی کو لے کر فلم آنسو بنائی گئی۔ یہ ابتدائی دور کی رنگین فلم تھی اس فلم میں فردوس نے شاہد کی ماں کا کردار ادا کیا اگرچہ فردوس کی اداکاری کو پسند کیا گیا تاہم آنسو بھی فردوس کے کیرئیر کو نہ بچاسکی۔ اس دوران دیگر پنجابی ہیروئنوں ممتاز‘ آسیہ اور انجمن نے آکر اپنی جگہ بنالی۔ فردوس نے 76 میں فلم انڈسٹری کو خیرباد کہا اور 8 سال بعد 84ءمیں دوبارہ فلم انڈسٹری جوائن کر لی مگر جگہ نہ بنا سکی آجکل فردوس ریٹائرڈ زندگی گزار رہی ہے تاہم اس کے نام سے بنی گلبرگ میں فردوس مارکیٹ نے اس کا نام زندہ رکھا ہوا ہے۔
٭٭٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain