تازہ تر ین

مریم نواز کی درخواست مسترد, نوازشریف کو طلب کر سکتے ہیں

اسلام آباد(آن لائن، این این آئی) پاناما کیس بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ تمام درخواست گزاروں سننے کے بعد وزیر اعظم کو عدالت میں طلب کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرینگے۔ اگر ضرورت ہوئی تو وزیر اعظم کو ضرور بلائیں گے جبکہ عدالت نے وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نوازکا تحریری بیان ان کے دستخط نہ ہونے کی وجہ سے مسترد کردیا۔ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے اپنے دلائل مکمل کر لئے ،مزید سماعت آج پھر ہوگی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس کے معاملے پر دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کے دلائل پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ نے کیس کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ¾وکیل صاحب! آپ کو پتہ ہی نہیں ¾ آپ نے فیصلہ بھی نہیں پڑھا اور حوالہ دے رہے ہیں ¾آپ نے بے بس کر دیا ¾ قانون کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ منگل کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو جماعت اسلامی کے وکیل توصیف آصف نے اپنے دلائل جاری رکھے۔ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل کے آغاز میں ظفر علی شاہ کیس کا حوالہ دیا جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ جس کیس کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں خالد انور نواز شریف کے وکیل نہیں تھے۔ توفیق آصف نے جواب دیا کہ وہ خالد انور کے عدالت میں دیئے گئے دلائل بیان کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کو اسٹیبلش کریں گے کہ مرحوم قانون داں خالد انور نواز شریف کی وکالت کرتے رہے ہیں۔توفیق آصف نے کہا کہ ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے میں ذکر ہے کہ لندن فلیٹس شریف خاندان کے تھے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلے میں لندن فلیٹس کے بارے میں کوئی بات نہیں تھی ¾عدالت نے فیصلہ میں مبینہ کرپشن کا ذکر کیا ¾مبینہ کرپشن کو فیصلہ نہیں کہہ سکتے۔اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف گڈگورننس میں ناکام ہوئے۔انھوں نے جماعت اسلامی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کیس کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ¾کچھ تو پڑھ لیا ہوتا ¾خالد انور نواز شریف کے نہیں درخواست گزار کے وکیل تھے۔اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے وکیل جماعت اسلامی توفیق آصف سے کہا کہ وکیل صاحب! آپ کو پتہ ہی نہیں ہے، آپ نے فیصلہ بھی نہیں پڑھا اور حوالہ دے رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ نہ آپ نے فائل دیکھی اور نہ فیصلہ پڑھا، وکیل صاحب آپ نے بے بس کر دیا ¾ آپ قانون کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کر رہے ہیں’۔اس موقع پر توفیق آصف نے کہا کہ مجھے پیراگراف127 پڑھنے کی اجازت دیں ¾جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو دل کرتا ہے وہ پڑھتے رہیں۔ وکیل جماعت اسلامی نے جواب دیا کہ خالد انور نے نواز شریف کا دفاع کیا تھا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ خالد انور کے پاس نواز شریف کا وکالت نامہ نہیں تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے توفیق آصف کوتاکید کی کہ وکیل کی استدعابتانے کے بجائے عدالت کی فائنڈنگ بتائیں۔جماعت اسلامی کے وکیل نے دلائل کے دوران لندن فلیٹس کا تذکرہ کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ فلیٹس التوفیق کیس میں گروی رکھے گئے۔اس موقع پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے جماعت اسلامی کے وکیل کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے اپنے موکل کو جتنا نقصان پہنچانا تھا پہنچا دیاجس پر توفیق آصف نے جواب دیا کہ لگتا ہے آج عدالت مجھے سننا ہی نہیں چاہتی۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ چاہیں تو گیارہ سال تک دلائل دیں لیکن ایک ہی بات بار بار نہ دہرائیں۔ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے کہا کہ نواز شریف 12 اکتوبر کو گرفتار ہوئے اور معاہدے کے تحت بیرون ملک گئے۔جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ ابھی تک آپ نے جو حوالے دیئے ان کا لندن فلیٹس سے کیا تعلق بنتا ہے۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ ہمیں وہ پڑھانا چاہتے ہیں جو اس فیصلے میں لکھا ہی نہیں۔ بنچ کے سربراہ جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ آپ جن فلیٹس کا حوالہ دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے فیصلے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔ جماعت اسلامی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم چونکہ جیل میں تھا اسی لیے کسی اور نے ادائیگی کر دی تھی جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ یہ دلیل دفاع کے وکیل نے دینی تھی آپ نے دے دی نجی ٹی وی کے مطابق اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنماﺅں نے جماعت اسلامی کے وکیل کے دلائل پر قہقہے لگائے۔توفیق آصف نے دبئی ملز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ طارق شفیع کا بیان حلفی درست نہیں تھا، جس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے اس کو غلط ثابت کرنے کےلئے جوابی بیان حلفی دیا تھا؟توفیق آصف نے جواب دیا کہ عدالت اگر چاہے تو شہادتیں بھی ریکارڈ کرا سکتی ہے۔ تاہم جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جواب دیا کہ فیصلے میں ان تمام زاویوں کا جائزہ لیں گے۔ جماعت اسلامی کے وکیل نے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دبئی مل کی فروخت سے لندن فلیٹس خریدے گئے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ شک کا فائدہ کس کو جاتا ہے۔توفیق آصف نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ وزیراعظم نواز شریف کو عدالت طلب کر کے بیان ریکارڈ کیا جائے اور الزامات کا جواب طلب کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف پر تمام درخواست گزاروں کو جرح کا موقع دیا جائے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جواب دیا کہ جب ہم سب کو سن لیں گے تو اس بارے میں فیصلہ کریں گے اور اگر ضرورت ہوئی تو نواز شریف کو بلائیں گے ورنہ نہیں اس کے ساتھ ہی جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کے دلائل مکمل ہوگئے۔جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پاناما کیس میں عدالت کے معاون احسن الدین نے زیر کفالت ہونے کے لغوی معنی اور تشریح بیان کی اور بتایا کہ دوسروں کے سہارے حاصل کرنے والا زیر کفالت ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ وزیراعظم نواز شریف نے 2012 میں مریم نواز کے نام پر مانسہرہ میں جائیداد خریدی تھی ¾وہ زیر کفالت تھیں۔اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے زیر کفالت ہونے پر کسی کی نااہلی کا فیصلہ بھی دکھانے کا کہا۔ایڈووکیٹ احسن الدین نے عدالت کی معاونت کرتے ہوئے کہا کہ تمام ثبوت سامنے آنے کے بعد عدالت کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔جس پر جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ سارے ثبوت کون سے ہیں؟ ¾ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس سب کو ثبوت نہیں موادکہہ سکتے ہیں۔جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ اگر قانون شہادت کو پرکھنے پر معلوم ہوا کہ مواد کا بڑا حصہ فالتو ہے تو پھر کیا ہوگا؟جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ نتیجہ اخذ کرنے کےلئے عدالت کو کیا طریقہ اختیارکرنا چاہیے ؟جس پر شیخ احسن الدین نے جواب دیا میں طریقہ کار کا تعین کیسے کرسکتا ہوں ¾یہ آپ نے دیکھنا ہے۔بعدازاں کیس کی سماعت (آج)23 جنوری بدھ تک کےلئے ملتوی کردی گئی۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain