
Monthly Archives: January 2017


پاکستان کرکٹ کا مستقبل کون ؟ رمیز راجہ نے بڑے نام سے پردہ ہٹا دیا
سڈنی ( ویب ڈیسک ) سابق کپتان رمیز راجا نے سرفراز احمد کو تینوں فارمیٹس کا کپتان بنانے کی تجویز دی ہے۔ایک انٹر ویو میں رمیز راجا نے کہا کہ سرفراز احمد نے ٹی 20 میچوں میں اپنے ا آپ کو منوالیا ہےاس لئے انہیں تینوں فارمیٹس میں ذمے داری دی جاسکتی ہے۔مصباح الحق کو مشورہ دیتے ہو ئے رمیض راجہ نےکہا کہ یہ آئیڈیل وقت ہے کہ وہ کھیل کو خیرباد کہہ دیں، یونس خان بھی ریٹائر منٹ کے بارے میں سوچیں۔

سوناکشی سنہا مختلف کرداروںبارے کیا کہتی ہیں ؟جا نئے خود اُن کی زبانی
ممبئی( ویب ڈیسک ) بولی وڈ اداکارہ سوناکشی سنہا کا کہنا ہے کہ وہ مختلف کردار ادا کرکے لطف اندوز ہو تی ہیں اور ایسے کردارادا کرکے مطمئن ہوتی ہیں۔اداکارہ نے اس حوالے سے کہا کہ اب کسی بھی فلم کوسائن کرنے سے قبل میں خود سے سوال کرتی ہوں کہ یہ کردار میرے اندر موجود فنکار کیلئے چیلنج ہے، جب مجھے اس سوال کا جواب مل جاتا ہے تو میں فلم میں کام کرنے کی حامی بھر لیتی ہوں۔میں ایسے کردار ادا کرنا چاہتی ہوں جو اس سے پہلے میں نے ادا نہ کئے ہوں اور مختلف طرح کی فلموں کا حصہ بننا چاہتی ہوں، فلم اتفاق اس کی تازہ بنیاد ہے،اداکارہ نے کہا کہ فلم کی کہانی کا تقاضا تھا کہ کردار کو دو تناظر میں پیش کیا جائے،مجھے یہ کافی دلچسپ لگا، یہ مکمل طور پر منفی اور مثبت نہیں ہے، اس میں کچھ گرے ایریاز بھی ہیں، جس نے مجھے فلم میں کام کرنے پر مجبور کیا،میں مختلف طرز کے کردار ادا کرنے میں لطف محسوس کرتی ہوں۔

پانامہ کیس کی ڈیڈ لائن جاری …. آخری مرحلہ کس کے نام ، تہلکہ خیز انکشاف
اسلام آباد( ویب ڈیسک ) مسلم لیگ(ن) کے رہنما طلال چوہدری نے کہا ہے کہ ہے کہ عدالت میں مریم نواز کے جواب کے بعد تحریک خاموش ہوگئی ،سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کے رہنما طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ عدالت میں مریم نواز کے جواب کے بعد پاکستان تحریک انصاف کو چپ لگ گئی ہے کیونکہ تحریک انصاف مریم نواز کو وزیراعظم کے زیر کفالت ثابت نہیں کرسکی اور اب کیس نوازشریف سے ہٹ کرشریف فیملی کے بچوں تک محدود ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ثابت کریں گے کہ مریم نواز بینیفشل اونر نہیں جبکہ آدھا کیس پی ٹی آئی کے اپنے وکلاء نے حل کردیا لہذا آئندہ 2 سے 3 سماعتوں میں کیس حل ہوجائے گا۔

سڈنی ٹیسٹ …. چوتھے روز کا کھیل ختم ، پاکستانی بلے بازوں کا کڑا امتحان
سڈنی( ویب ڈیسک ) تیسرے اور آخری ٹیسٹ کے چوتھے روز کھیل کے اختتام پر پاکستان نے آسٹریلیا کی جانب سے دیئے گئے 465 رنز کے ہدف کے تعاقب میں ایک وکٹ پر 55 رنز بنا لئے۔سڈنی ٹیسٹ کے چوتھے روز پاکستان نے آسٹریلیا کی جانب سے 465 رنز کے ہدف کے تعاقب میں اپنی اننگز کا آغاز کیا تو 15 اوورز کا کھیل باقی تھا، قومی ٹیم کا اسکور 51 رنز تک پہنچا تو آسٹریلوی اسپنر ناتھن لیون کی گیند پر شرجیل نے مڈ وکٹ پر اونچا شاٹ کھیلنے کی کوشش میں ڈیوڈ وارنر کو کیچ تھما دیا، اوپنر نے آو¿ٹ ہونے سے قبل 38 گیندوں پر6 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 40 رنز بنائے۔ نائٹ واچ مین یاسر شاہ 3 رنز پر ناٹ آو¿ٹ ہیں جبکہ اظہر علی نے 11 رنز بنا رکھے ہیں۔ آسٹریلیا کی جانب سے ناتھن لیون نے واحد وکٹ حاصل کی، اب کھیل کے آخری روز پاکستان کو فتح کیلئے مزید 410 رنز درکار ہیں اور اس کی 9 وکٹیں باقی ہیں۔اس سے قبل کینگروز نے 223 رنز کی برتری حاصل کرنے کے باوجود پاکستان کو فالو آن کرانے کے بجائے خود بیٹنگ کرتے ہوئے2 وکٹوں کے نقصان پر 241 رنز بناکر دوسری اننگز ڈیکلیئر کردی، میزبان اوپنر ڈیوڈ وارنر نے ابتدا ہی سے جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 23 گیندوں پر ففٹی مکمل کی، انہیں 55پر وہاب ریاض نے بولڈ کیا، سٹیون سمتھ (59) نے یاسر شاہ کی گیند پر سرفراز احمد کو کیچ دیا، آسٹریلیا کا ٹوٹل 2 وکٹ پر 241 تک پہنچا تو کپتان نے اننگز ڈیکلیئر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کو فتح کیلئے 465 رنز کا ٹارگٹ دیا۔ عثمان خواجہ 79 اور پیٹر ہینڈز کومب 40 پر ناٹ آو¿ٹ رہے۔قبل ازیں چوتھے روز کا کھیل بارش کے باعث تاخیر سے شروع ہوا تو پوری مہمان ٹیم پہلی اننگز میں 315 رنز پر ڈھیر ہو گئی، پاکستان نے اپنی پہلی نامکمل اننگز 8وکٹ پر 271 رنز سے شروع کی تو یونس خان 136اور یاسر شاہ 5 رنز کے ساتھ کریز پر آئے،اس وقت بھی فالو آن سے بچنے کیلیے 67 رنز درکار تھے، سینئر بیٹسمین میزبان بولرز کا آخر تک ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے اور 175 رنز بنا کر ناٹ آو¿ٹ رہے لیکن ٹیل اینڈرز ساتھ چھوڑ گئے، جوش ہیزل ووڈ نے دونوں کو چلتا کردیا، یاسر شاہ 10 رنز بنا کر سلپ میں سٹیون سمتھ کو کیچ دے بیٹھے اور اسی اوور میں عمران خان بھی بولڈ ہو گئے۔ آسٹریلیا کی جانب سے ہیزل ووڈ 4، ناتھن لیون3، مچل سٹارک اور سٹیو اوکیف ایک ایک وکٹ لے اڑے۔ یاد رہے کہ کینگروز نے اپنی پہلی اننگز 8 وکٹ پر 538 رنز بناکر اپنی اننگز ڈیکلیئر کردی تھی۔

لودھراں ٹرین حادثہ: متعدد گھروں کے چراغ گل….علاقے میں خوف وہراس
لودھراں(ویب ڈیسک) آدم واہن ریلوے اسٹیشن کے قریب 2 رکشے ٹرین کی زد میں آنے سے اسکول کے 7 بچوں سمیت 8 افراد جاں بحق ہو گئے۔تفصیلات کے مطابق ہزارہ ایکسپریس حویلیاں سے کراچی کے لئے آ رہی تھی کہ آدم واہن اور لودھراں کے درمیان ریلوے پھاٹک کھلا ہونے کے باعث 2 رکشے ٹرین کی زد میں آگئے۔ ترجمان ریلوے کے مطابق حادثے کے نتیجے میں اسکول کے 6 بچے موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے جب کہ رکشہ ڈرائیور اور ایک بچے کو طبی امداد کے لئے وکٹوریہ اسپتال منتقل کیا گیا جہاں دونوں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔عینی شاہدین کے مطابق ریلوے پھاٹک کھلا ہوا تھا جب کہ حادثے کے وقت ریلوے کا کوئی ملازم وہاں موجود نہیں تھا۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ حادثے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے اور غفلت برتنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے لودھراں کے قریب ٹرین حاڈے کا نوٹس لیتے ہوئے ریلوے حکام کو ریلوے ہیڈ کوارٹر طلب کرلیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کی ہلاکت کے ذمہ داروں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ڈی سی او ریلوے نے حادثے کی عجیب منطق پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہزارہ ایکسپریس سے پہلے مال گاڑی گزری تھی اور رش کی وجہ سے گیٹ کیپر پھاٹک بند نہ کر سکا۔ دوسری جانب ہزارہ ایکسپریس کے عملے اور ریلوے پھاٹک کے گیٹ کیپر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

عمران خان کی سیاست بارے آفریدی بارے کا اہم انکشاف

مردان کے بلے باز کا سڈنی ٹیسٹ کے چوتھے روز بھی ایک اعزاز اپنے نام
سڈنی( ویب ڈیسک ) سڈنی ٹیسٹ میں یونس خان نے ایک اور ریکارڈ اپنے نام کر لیا ہے ، وہ ایس سی جی میں ناقابل شکست 175 رنز بنا کر پانچویں ٹاپ سکورر بن گئے ہیں۔ سڈنی ٹیسٹ سینئر قومی بیٹسمین یونس خان کیلئے یادگار بن گیا۔ خان آف مردان نے کینگروز کے خلاف 175 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔ پہلی اننگز میں ناقابل شکست رہنے والے مڈل آرڈر بیٹسمین سڈنی کے میدان پر پانچویں ٹاپ سکورر بن گئے۔ ایس سی جی پر ویسٹ انڈیز کے برائن لارا 277 رنز کیساتھ پہلے ٹاپ سکورر بلے باز ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ روز یونس خان نے کینگروز کے دیس میں کیریئر کی پہلی سنچری داغی تھی۔ آسٹریلیا کے خلاف سنچری بنانے کے بعد وہ تمام ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک میں سنچری سکور کرنے والے دنیا کے پہلے بیٹسمین بن گئے تھے۔

پاکستانی عوام سے بہتر غذا اپنے ہی دیس میں کون کھاتا ہے
لاہور (خصوصی رپورٹ)ملک میں دودھ دینے والے 63 لاکھ جانور ہیں یہ جانور سالانہ 35 سے 40 ارب لیٹر دودھ دیتے ہیں پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن ہم دنیا میں خراب مضر صحت اور جعلی دودھ بنانے والی سب سے بڑی قوم بھی ہیں۔پاکستان میں دودھ کی چار قسمیں دستیاب ہیں پہلی قسم لوز ملک یا گوالوں کا دودھ ہے یہ دودھ کل پیداوار کا 93 فیصد ہے ملک کی اکثریت یہ دودھ استعمال کرتی ہے دوسری قسم ٹیٹرا پیک دودھ ہے یہ دودھ گتے کے ایسے ڈبوں میں فروخت ہوتا ہے جن کی اندرونی سائیڈ پر دھات کی باریک تہہ چڑھی ہوتی ہے یہ دودھ دو سے تین ماہ تک قابل استعمال ہوتا ہے تیسری قسم بوتلوں اور پلاسٹک کے لفافوں میں دستیاب دودھ ہے یہ دودھ دو سے تین دن تک استعمال کیا جا سکتا ہے ملک کے لاکھوں شہری یہ دودھ استعمال کرتے ہیں اور چوتھی قسم خشک دودھ ہے یہ دودھ سال چھ مہینے تک استعمال ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے کروڑوں شہری یہ دودھ چائے میں استعمال کرتے ہیں مائیں بچوں کو خشک دودھ پلاتی ہیں اور پاکستان کی زیادہ تر بیکریوں اور مٹھائیوں میں بھی یہ خشک دودھ استعمال ہوتا ہے آپ یہ سن کر حیران ہو جائیں گے دودھ کی یہ چاروں اقسام مضر صحت اور انسانوں کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔تازہ دودھ زیادہ سے زیادہ دو سے تین گھنٹے محفوظ رہتا ہے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے لیے دودھ دور دراز علاقوں اور مضافات سے لایا جاتا ہے ۔ لاہور اور راولپنڈی کی مثال لیجیے لاہور شہر کے لیے اوکاڑہ چشتیاں قصور جھنگ اور وزیر آباد سے دودھ آتا ہے جب کہ راولپنڈی کے لیے جہلم اور سرائے عالمگیر سے دودھ لایا جاتا ہے۔ دودھ کے بیوپاری گوالوں سے دودھ لیتے ہیں چھوٹے بڑے ٹینکرز میں بھرتے ہیں اور یہ دودھ بڑے شہروں کو سپلائی کر دیا جاتا ہے بھینس سے انسانی ہونٹوں تک دودھ میں دو مرتبہ انتہائی خوفناک ملاوٹ ہوتی ہے دودھ میں پہلی ملاوٹ گوالہ کرتا ہے یہ زیادہ اور فوری دودھ حاصل کرنے کے لیے بھینسوں کو ہارمون کے انجکشن لگاتا ہے یہ انجکشن خواتین کو ڈلیوری کے دوران لگائے جاتے ہیں اور یہ میڈیکل اسٹورز سے عام مل جاتے ہیں یہ سستے بھی ہوتے ہیں یہ انجکشن جوں ہی بھینس کو لگایا جاتا ہے یہ فورا دودھ دے دیتی ہے یہ دودھ مقدار میں 20 سے 30 فیصد زیادہ بھی ہوتا ہےیہ ہارمون بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں گوالے چھوٹی مشینوں کی مدد سے دودھ سے کریم نکال لیتے ہیں یہ اس کریم کا مکھن اور دیسی گھی بناتے ہیں اور مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں دودھ کریم کے بعد پتلا ہو جاتا ہے۔ گوالے پتلے پن کو چھپانے کے لیے دودھ میں ڈیٹرجنٹ پاڈر (سرف) ڈال دیتے ہیںڈیٹرجنٹ دودھ کو گاڑھا بھی کر دیتا ہے اور یہ اس میں جھاگ بھی پیدا کر دیتا ہے یہ لوگ سرف کی کڑواہٹ ختم کرنے کے لیے دودھ میں بعد ازاں بلیچنگ پاڈر ڈالتے ہیں بلیچنگ پاڈر دودھ کو ذائقے دار بھی بنا دیتا ہے اور اس میں چمک بھی پیدا کر دیتا ہے یہ دودھ گوالوں سے بیوپاریوں کے پاس آتا ہےبیوپاری اس میں یوریا کھاد ہائیڈروجن پر آکسائیڈ بورک پاڈر پنسلین ایلومینیم فاسفیٹ اور فارملین ڈال دیتے ہیں یہ کیمیکل اینٹی بائیوٹک بھی ہیں اور یہ پریزرویٹوز بھی ہیں یہ دودھ کو خراب ہونے سے بچاتے ہیں بیوپاری یہ دودھ ہوٹلوں چائے خانوں ریستورانوں دودھ دہی کی دکانوں اسٹورز مٹھائی اور بسکٹ بنانے والے کارخانوں تک پہنچاتے ہیں یہ دودھ ڈورٹو ڈور بھی پہنچتا ہے یہ جب ہمارے ہونٹوں تک پہنچتا ہے تو اس میں 20 کیمیکل مل چکے ہوتے ہیں اور یہ صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ وہ 93فیصد دودھ ہے جو ملک کے زیادہ تر لوگ استعمال کرتے ہیں ہم اب ٹیٹرا پیک بوتل لفافوں اور خشک دودھ کی طرف آتے ہیں یہ تینوں بھی انتہائی خطرناک ہیں۔ ٹیٹرا پیک کے لیے دودھ کو 135 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے یہ درجہ حرارت دودھ کی غذائیت ختم کر دیتا ہے یہ طریقہ کار دودھ کی لائف تو بڑھا دیتا ہے لیکن دودھ اس کے بعد دودھ نہیں رہتا یہ سفید پانی بن جاتا ہے کمپنیاں اسے دوبارہ دودھ کی شکل دینے کے لیے اس میں خشک دودھ پام آئل اور سبزیوں کا تیل ملا دیتی ہیں یہ ملاوٹ دل کے امراض اور بلڈ پریشر کا باعث بنتی ہے دوسرے نمبر پر بوتل اور لفافے کا دودھ آتا ہے۔ یہ دودھ 85 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے اور یہ دو سے تین دن تک قابل استعمال ہوتا ہے لیکن کیمیکل پریزرویٹوز اور ہارمون ان میں بھی ہوتے ہیں یہ نہ ہوں تو یہ دودھ پاکستان جیسے گرم ملک میں جلد خراب ہو جائے لہذ دودھ فروش گوالے بیوپاری اور کمپنیاں دودھ میں کیمیکل ضرور ڈالتی ہیںپیچھے رہ گیا خشک دودھ یہ دودھ انتہائی مضر صحت بھی ہوتا ہے اور یہ دودھ دودھ بھی نہیں ہوتا یہ پاڈر مِلک اور کیمیکلز کا مرکب ہوتاہے کمپنیاں اس مرکب میں خشک دودھ پام آئل چینی اور چند نامعلوم کیمیکل ملاتی ہیں اور خوبصورت پیکنگ میں مارکیٹ میں بیچ دیتی ہیں یہ دودھ ٹی وائیٹنر کہلاتا ہے یہ کالی چائے کو سفید بناتا ہے لیکن یہ سفیدی انسانی جسم کے کس کس حصے کو داغدار بناتی ہے آپ تصور نہیں کر سکتے۔ یہ خرابیاں صرف دودھ تک محدود نہیں ہیں یہ بیکری کی مصنوعات مٹھائیوں ٹافیوں اور چاکلیٹ تک جاتی ہیں یہ تمام مصنوعات دودھ سے بنتی ہیں اور ہمارے دودھ میں 20 کیمیکل ہوتے ہیں یہ 20 کیمیکل بیکریوں مٹھائیوں کی دکانوں اور چاکلیٹ فیکٹریوں تک پہنچ کر 40 ہو جاتے ہیں ان میں مصنوعی رنگ مصنوعی خوشبو پلاسٹک دھاتیں اور گندہ پانی بھی شامل ہو جاتا ہے چنانچہ زہر میں زہر مل کریہ بڑا زہر بن جاتا ہے۔ آپ ایک برانڈ کا چاکلیٹ دوبئی سے خریدتے ہیں تو یہ پاکستان پہنچتے پہنچتے پگھل جاتا ہے لیکن آپ جب وہ چاکلیٹ پاکستان سے خریدتے ہیں تو وہ دھوپ میں بھی خراب نہیں ہوتاآپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا دنیا بھر میں چاکلیٹس کو فریج میں رکھا جاتاہے لیکن ہمارے چاکلیٹس ریکس میں ہوتے ہیںکیونکہ ہمارے چاکلیٹس خالص نہیں ہوتے ان میں تازہ دودھ کی جگہ سبزیوں کا تیل اور جانوروں کی چربی شامل ہوتی ہے اور یہ وہ فیٹس ہیں جو انسانی جسم کے درجہ حرارت پر نہیں پگھلتے چنانچہ یہ بچوں کو وقت سے پہلے جوان بھی کر دیتے ہیں اور بیمار بھی ۔ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے ہم دودھ بیکری اور خوراک کے نام پر زہر کھا رہے ہیں یہ زہر 65 برسوں سے ہماری رگوں میں اتر رہا ہے ہماری تین نسلیں اس زہر کا نشانہ بن چکی ہیں۔ ایک زہر کی نشاندہی کر دی باقی 40 زہر ابھی تک پوشیدہ ہیں یہ راز بھی جس دن کھلے گا یہ پوری قوم کو سکتے میں لے جائے گا۔ ہمارے ملک میں بکریاں مرغیاں اور گدھے ہم انسانوں سے بہتر خوراک کھا رہے ہیںیہ خالص چارہ کھاتے ہیں یہ ہم سے زیادہ صحت مند ہیں یہ ہم سے زیادہ فعال ہیں جب کہ ہم گدھوں سے زیادہ گندی اور خوفناک خوراک کھا رہے ہیں۔
لاہور (خصوصی رپورٹ)ملک میں دودھ دینے والے 63 لاکھ جانور ہیں یہ جانور سالانہ 35 سے 40 ارب لیٹر دودھ دیتے ہیں پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن ہم دنیا میں خراب مضر صحت اور جعلی دودھ بنانے والی سب سے بڑی قوم بھی ہیں۔پاکستان میں دودھ کی چار قسمیں دستیاب ہیں
باقی صفحہ4بقیہ نمبر21
پہلی قسم لوز ملک یا گوالوں کا دودھ ہے یہ دودھ کل پیداوار کا 93 فیصد ہے ملک کی اکثریت یہ دودھ استعمال کرتی ہے دوسری قسم ٹیٹرا پیک دودھ ہے یہ دودھ گتے کے ایسے ڈبوں میں فروخت ہوتا ہے جن کی اندرونی سائیڈ پر دھات کی باریک تہہ چڑھی ہوتی ہے یہ دودھ دو سے تین ماہ تک قابل استعمال ہوتا ہے تیسری قسم بوتلوں اور پلاسٹک کے لفافوں میں دستیاب دودھ ہے یہ دودھ دو سے تین دن تک استعمال کیا جا سکتا ہے ملک کے لاکھوں شہری یہ دودھ استعمال کرتے ہیں اور چوتھی قسم خشک دودھ ہے یہ دودھ سال چھ مہینے تک استعمال ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے کروڑوں شہری یہ دودھ چائے میں استعمال کرتے ہیں مائیں بچوں کو خشک دودھ پلاتی ہیں اور پاکستان کی زیادہ تر بیکریوں اور مٹھائیوں میں بھی یہ خشک دودھ استعمال ہوتا ہے آپ یہ سن کر حیران ہو جائیں گے دودھ کی یہ چاروں اقسام مضر صحت اور انسانوں کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔تازہ دودھ زیادہ سے زیادہ دو سے تین گھنٹے محفوظ رہتا ہے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے لیے دودھ دور دراز علاقوں اور مضافات سے لایا جاتا ہے ۔ لاہور اور راولپنڈی کی مثال لیجیے لاہور شہر کے لیے اوکاڑہ چشتیاں قصور جھنگ اور وزیر آباد سے دودھ آتا ہے جب کہ راولپنڈی کے لیے جہلم اور سرائے عالمگیر سے دودھ لایا جاتا ہے۔ دودھ کے بیوپاری گوالوں سے دودھ لیتے ہیں چھوٹے بڑے ٹینکرز میں بھرتے ہیں اور یہ دودھ بڑے شہروں کو سپلائی کر دیا جاتا ہے بھینس سے انسانی ہونٹوں تک دودھ میں دو مرتبہ انتہائی خوفناک ملاوٹ ہوتی ہے دودھ میں پہلی ملاوٹ گوالہ کرتا ہے یہ زیادہ اور فوری دودھ حاصل کرنے کے لیے بھینسوں کو ہارمون کے انجکشن لگاتا ہے یہ انجکشن خواتین کو ڈلیوری کے دوران لگائے جاتے ہیں اور یہ میڈیکل اسٹورز سے عام مل جاتے ہیں یہ سستے بھی ہوتے ہیں یہ انجکشن جوں ہی بھینس کو لگایا جاتا ہے یہ فورا دودھ دے دیتی ہے یہ دودھ مقدار میں 20 سے 30 فیصد زیادہ بھی ہوتا ہےیہ ہارمون بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں گوالے چھوٹی مشینوں کی مدد سے دودھ سے کریم نکال لیتے ہیں یہ اس کریم کا مکھن اور دیسی گھی بناتے ہیں اور مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں دودھ کریم کے بعد پتلا ہو جاتا ہے۔ گوالے پتلے پن کو چھپانے کے لیے دودھ میں ڈیٹرجنٹ پاڈر (سرف) ڈال دیتے ہیںڈیٹرجنٹ دودھ کو گاڑھا بھی کر دیتا ہے اور یہ اس میں جھاگ بھی پیدا کر دیتا ہے یہ لوگ سرف کی کڑواہٹ ختم کرنے کے لیے دودھ میں بعد ازاں بلیچنگ پاڈر ڈالتے ہیں بلیچنگ پاڈر دودھ کو ذائقے دار بھی بنا دیتا ہے اور اس میں چمک بھی پیدا کر دیتا ہے یہ دودھ گوالوں سے بیوپاریوں کے پاس آتا ہےبیوپاری اس میں یوریا کھاد ہائیڈروجن پر آکسائیڈ بورک پاڈر پنسلین ایلومینیم فاسفیٹ اور فارملین ڈال دیتے ہیں یہ کیمیکل اینٹی بائیوٹک بھی ہیں اور یہ پریزرویٹوز بھی ہیں یہ دودھ کو خراب ہونے سے بچاتے ہیں بیوپاری یہ دودھ ہوٹلوں چائے خانوں ریستورانوں دودھ دہی کی دکانوں اسٹورز مٹھائی اور بسکٹ بنانے والے کارخانوں تک پہنچاتے ہیں یہ دودھ ڈورٹو ڈور بھی پہنچتا ہے یہ جب ہمارے ہونٹوں تک پہنچتا ہے تو اس میں 20 کیمیکل مل چکے ہوتے ہیں اور یہ صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ وہ 93فیصد دودھ ہے جو ملک کے زیادہ تر لوگ استعمال کرتے ہیں ہم اب ٹیٹرا پیک بوتل لفافوں اور خشک دودھ کی طرف آتے ہیں یہ تینوں بھی انتہائی خطرناک ہیں۔ ٹیٹرا پیک کے لیے دودھ کو 135 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے یہ درجہ حرارت دودھ کی غذائیت ختم کر دیتا ہے یہ طریقہ کار دودھ کی لائف تو بڑھا دیتا ہے لیکن دودھ اس کے بعد دودھ نہیں رہتا یہ سفید پانی بن جاتا ہے کمپنیاں اسے دوبارہ دودھ کی شکل دینے کے لیے اس میں خشک دودھ پام آئل اور سبزیوں کا تیل ملا دیتی ہیں یہ ملاوٹ دل کے امراض اور بلڈ پریشر کا باعث بنتی ہے دوسرے نمبر پر بوتل اور لفافے کا دودھ آتا ہے۔ یہ دودھ 85 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے اور یہ دو سے تین دن تک قابل استعمال ہوتا ہے لیکن کیمیکل پریزرویٹوز اور ہارمون ان میں بھی ہوتے ہیں یہ نہ ہوں تو یہ دودھ پاکستان جیسے گرم ملک میں جلد خراب ہو جائے لہذ دودھ فروش گوالے بیوپاری اور کمپنیاں دودھ میں کیمیکل ضرور ڈالتی ہیںپیچھے رہ گیا خشک دودھ یہ دودھ انتہائی مضر صحت بھی ہوتا ہے اور یہ دودھ دودھ بھی نہیں ہوتا یہ پاڈر مِلک اور کیمیکلز کا مرکب ہوتاہے کمپنیاں اس مرکب میں خشک دودھ پام آئل چینی اور چند نامعلوم کیمیکل ملاتی ہیں اور خوبصورت پیکنگ میں مارکیٹ میں بیچ دیتی ہیں یہ دودھ ٹی وائیٹنر کہلاتا ہے یہ کالی چائے کو سفید بناتا ہے لیکن یہ سفیدی انسانی جسم کے کس کس حصے کو داغدار بناتی ہے آپ تصور نہیں کر سکتے۔ یہ خرابیاں صرف دودھ تک محدود نہیں ہیں یہ بیکری کی مصنوعات مٹھائیوں ٹافیوں اور چاکلیٹ تک جاتی ہیں یہ تمام مصنوعات دودھ سے بنتی ہیں اور ہمارے دودھ میں 20 کیمیکل ہوتے ہیں یہ 20 کیمیکل بیکریوں مٹھائیوں کی دکانوں اور چاکلیٹ فیکٹریوں تک پہنچ کر 40 ہو جاتے ہیں ان میں مصنوعی رنگ مصنوعی خوشبو پلاسٹک دھاتیں اور گندہ پانی بھی شامل ہو جاتا ہے چنانچہ زہر میں زہر مل کریہ بڑا زہر بن جاتا ہے۔ آپ ایک برانڈ کا چاکلیٹ دوبئی سے خریدتے ہیں تو یہ پاکستان پہنچتے پہنچتے پگھل جاتا ہے لیکن آپ جب وہ چاکلیٹ پاکستان سے خریدتے ہیں تو وہ دھوپ میں بھی خراب نہیں ہوتاآپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا دنیا بھر میں چاکلیٹس کو فریج میں رکھا جاتاہے لیکن ہمارے چاکلیٹس ریکس میں ہوتے ہیںکیونکہ ہمارے چاکلیٹس خالص نہیں ہوتے ان میں تازہ دودھ کی جگہ سبزیوں کا تیل اور جانوروں کی چربی شامل ہوتی ہے اور یہ وہ فیٹس ہیں جو انسانی جسم کے درجہ حرارت پر نہیں پگھلتے چنانچہ یہ بچوں کو وقت سے پہلے جوان بھی کر دیتے ہیں اور بیمار بھی ۔ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے ہم دودھ بیکری اور خوراک کے نام پر زہر کھا رہے ہیں یہ زہر 65 برسوں سے ہماری رگوں میں اتر رہا ہے ہماری تین نسلیں اس زہر کا نشانہ بن چکی ہیں۔ ایک زہر کی نشاندہی کر دی باقی 40 زہر ابھی تک پوشیدہ ہیں یہ راز بھی جس دن کھلے گا یہ پوری قوم کو سکتے میں لے جائے گا۔ ہمارے ملک میں بکریاں مرغیاں اور گدھے ہم انسانوں سے بہتر خوراک کھا رہے ہیںیہ خالص چارہ کھاتے ہیں یہ ہم سے زیادہ صحت مند ہیں یہ ہم سے زیادہ فعال ہیں جب کہ ہم گدھوں سے زیادہ گندی اور خوفناک خوراک کھا رہے ہیں۔

پرائس کنٹرول کمیٹیاں ناکام….اہم چیزیں3روپے کلوپھر مہنگی
اسلام آباد (آن لائن)ملک میں وافر مقدار میں ذخائر ہونے کے باوجود چینی کی قیمت میں اضافے نے سوال اٹھا دئیے ہیں۔ ہول سیل مارکیٹ میں 3 روز میں کلو چینی 3 روپے مہنگی ہوگئی۔اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت صنعت و پیداوار نے بتایا تھا کہ شوگر ملزکے پاس 15 دسمبر2016 تک 12 لاکھ 30 ہزار ٹن چینی کے ذخائر موجود ہیں۔ 4 لاکھ ٹن ماہانہ طلب کے حساب سے ذخائر5 فروری 2017 تک کے لئے کافی ہیں۔اس بریفنگ پر اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ڈھائی لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن فیصلے کا اثرہول سیل مارکیٹ نظر آنے لگا ہے۔تین روز میں ہول سیلز مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت 59 روپے سے بڑھ کر 62 روپے ہوچکی ہے۔ یعنی 100 کلو چینی کا تھیلے پر 300 روپے کا اضافہ ہوچکاہے۔