تازہ تر ین

ٹرمپ کے حکم کا نشانہ صرف مسلمان, امریکی عدالت کا بڑا فیصلہ

واشنگٹن(سپیشل رپورٹر سے) امریکہ کی اپیلز کورٹ نے کہا ہے کہ وہ “جتنا جلد ممکن ہوا” اس بارے میں فیصلہ سنا دے گی کہ آیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سات مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے کی پابندی کے حکم نامے کو معطل کرنے والے وفاقی جج کے پاس اس کا قانونی جواز تھا یا نہیں۔محکمہ انصاف اور واشنگٹن اور منیسوٹا ریاستوں کے وکلا نے سان فرانسسکو کی عدالت کے تین رکنی بینچ کے سامنے اپنے دلائل بذریعہ فون پیش کیے۔امریکی اٹارنی اوگسٹ فلنج کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کا حکم نامہ ان اختیارات کے تحت جاری کیا گیا جو انھیں کانگرس اور آئین نے تفویض کیے ہیں کہ وہ امریکہ آنے کا سفر کرنے والوں کے لیے “مناسب اقدام” وضع کریں۔انھوں نے اس جانب اشارہ کیا کہ کانگرس اور سابق اوباما انتظامیہ پابندی کے زمرے میں آنے والے ممالک کے بارے میں یہ تعین کر چکی تھی کہ یہ حکام کے لیے تشویش کا باعث ہیں کیونکہ یہ ممالک دہشت گردی کا خطرہ یا دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے والے تھے۔ان ممالک میں ایران، عراق، شام، لیبیا، سوڈان، یمن اور صومالیہ شامل ہیں۔فلنج کا کہنا تھا کہ امریکہ میں گرفتار کیے گئے متعدد صومالیوں کے الشباب کے دہشت گردوں سے مراسم تھے۔حکومتی وکیل نے اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ مقدمہ اتنی تیزی سے آگے بڑھا کہ حکومت کو ٹرمپ کے حکم نامے کی حمایت میں تمام ثبوت فراہم کرنے کا وقت نہیں مل سکا۔لیکن ان کے بقول گزشتہ ہفتے واشنگٹن کے وفاقی جج کی طرف سے اس حکم نامے پر امتناع جاری کیا جانا “اختیارات سے تجاوز” اور صدر کے اختیارات کو “منسوخ” کرنے کے مترادف تھا۔ریاست واشنگٹن کے وکیل نواہ پرسیل نے عدالت کو بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ بغیر مکمل عدالتی جائزے کے سفری پابندی کی بحالی سے ان کے بقول ملک کو “افراتفری” میں ڈالنا چاہتی ہے۔جب پرسیل سے پوچھا گیا کہ اس سفری پابندی سے ریاست واشنگٹن کے شہریوں کو کیا نقصان پہنچا تو ان کا کہنا تھا کہ اس حکم نامے نے خاندانوں کو منقسم کیا، غیر ملکوں طلبا کو متاثر کیا اور لوگوں اس غیر یقینی میں مبتلا کر دیا کہ اگر وہ سفر کرتے ہیں تو کیا وہ واپس امریکہ آسکیں گے۔جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ سفری پابندی مسلمانوں کے خلاف امتیازی کیسے ہے کیوںکہ مسلمانوں کی اکثریت اس سے متاثر نہیں ہوئی۔ اس پر پرسیل نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہر ایک مسلمان متاثر ہو گا تو ہی کوئی اقدام غیر آئینی ہوگا۔انھوں نے ججز کو بتایا کہ صدر کے احکامات مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے تناظر میں ہیں، اور ان کے بقول ٹرمپ اپنی صدارتی مہم میں یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ مسلمان تارکین وطن پر مکمل پابندی لگائیں گے۔دیگر 15 ریاستوں کے وکلا نے بھی واشنگٹن اور منیسوٹا کی ریاستوں کی حمایت میں اپنے دلائل جمع کروائے۔ امریکی شہری حقوق کی تنظیم، لگ بھگ 100 کمپنیوں اور ڈیموکریٹس کے ایک گروپ بمشول سابق وزرائے خارجہ جان کیری اور میڈلین البرائیٹ نے بھی اپنے دلائل جمع کروائے۔اپیل کورٹ نے سوال کیا ہے کہ کیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کی جانے والی سفری پابندی صرف مسلمانوں کے خلاف ہے؟۔تین رکنی بنچ کے ممبر جج رچرڈ کلفٹن نے عدالتی کاروائی کے دوران سوال کیا کہ اگر اس پابندی سے پوری دنیا میں موجود صرف 15 فیصد مسلمان متاثر ہو رہے ہوں تو کیا یہ پابندی امتیازی سلوک کہلائی جا سکتی ہے یا نہیں؟۔اس کارروائی میں دونوں فریقین کی جانب سے ایک گھنٹے تک دلائل دیے جاتے رہے جہاں امریکی محکمہ انصاف نے پہلے اپنا موقف بیان کیا اور عدالت سے استدا کی کہ اس پابندی کو بحال کیا جائے۔محکمہ انصاف کے وکیل آگسٹ فلینچ نے عدالت کو بتایا کہ کانگریس نے صدر کو اس بات کا مجاز بنایا ہے کہ وہ ملک میںداخل ہونے والوں پر قابو رکھ سکیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، شام، یمن اور سوڈان کے شہری امریکہ کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ امریکہ میں موجود کئی صومالی شہری دہشت گرد گروپ الشباب کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔وکیل نوح پرسل نے کہا کہ اس پابندی سے ریاست واشنگٹن کے ہزاروں شہری متاثر ہوئے ہیں جن میں طلبہ بھی شامل ہیں اور وہ لوگ جو اپنے خاندان والوں سے ملنا چاہتے ہیں۔ امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے7 مسلمان ممالک کے لئے ویزے کی پابندی کے فیصلے کے خلاف 97 کمپنیوں کے منتظمین کے دستخطوں کے ساتھ ایک مشترکہ اعلامیہ سپریم کورٹ میں پیش کر دیا گیا ہے۔امریکا کی گوگل، ایپل، مائیکروسافٹ ، فیس ب±ک، ٹویٹر، انٹل اور نیٹ فلکس جیسی ، بڑی بڑی کمپنیوں کے منتظمین کے دستخطوں کے حامل اس مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ویزے کی پابندی ملک کے نقل مکانی کے قانون کی اور امریکی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ٹرمپ کی طرف سے ویزے کی پابندی کے امریکی قانون میں ہنگامی تبدیلی کا سبب بننے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ پابندی امریکی فرموں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا سکتی ہے۔سان فرانسسکوکی اپلیٹ کورٹ میں سماعت کے دوران محکمہ انصاف کے وکیل سے ججز نے سخت سوالات کیے۔کیا پابندی مذہبی امتیاز کے زمرے میں تو نہیں آتی؟پابندی زدہ ممالک کے شہری دہشت گردی میں ملوث ہیں توشواہد پیش کئے جائیں ؟پابندی معطل کیے جانے کے عدالتی فیصلے کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ اپیلٹ کورٹ پہنچ گئی۔سان فرانسسکو کی نائنتھ سرکٹ کورٹ آف اپیلز میں مقدمے کی ایک گھنٹے سماعت ہوئی جہاں تین ججز پرمشتمل پینل نےٹرمپ کی قانونی ٹیم سے سخت سوالات کیے۔وکیل ٹرمپ انتظامیہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صدارتی حکم نامے کومعطل کرکے عدالت نےنیشنل سیکورٹی کے معاملات میں مداخلت کی۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain