اسلام آباد(نامہ نگار خصوصی) وزیرداخلہ چودھری نثار نے کہا ہے کہ پاکستان سے دہشت گردی ختم نہیں ہوئی کم ہوئی ہے،بتایا جائے کہ سیہون میں سیکورٹی کی ذمے داری وفاق کی تھی یا صوبے کی، دہشت گردی کے واقعات پر سیاست کرنا گناہ عظیم ہے۔وزیرداخلہ چودھری نثار نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انفرادی کریڈٹ لینا مناسب نہیں، سہون واقعے پر وفاقی حکومت اور وزیر داخلہ پر تیر چلائے جاتے رہے، سیہون میں سیکیورٹی کی ذمے داری وفاقی حکومت کی تھی یا سندھ حکومت کی؟ مزار پر واک تھرو گیٹس کام نہیں کر رہے تھے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ دہشتگردی کےخلاف جنگ میں سیاست کرنا گناہ عظیم ہے ¾ جون 2013 میں روزانہ 6 ، 7 دھماکے ہوتے تھے ¾ماضی کے مقابلے میں اب ہفتوں دھماکے نہیں ہوتے ¾پاکستان میں بہترسکیورٹی کا اعتراف پوری دنیا نے کیا ¾دہشتگردی کے و اقعات ختم نہیں ہوئے ¾ کمی ہوئی ہے ¾ یکجہتی اور قومی عزم کے اظہار سے عوام مضبوط ہونگے ¾ میڈیا خوف کی فضا پیدا کریگا تو قوم میں خوف پیدا ہوگا ¾ ملکی سلامتی کےلئے دہشت گردوں کی تشہیر روکنے کی اشد ضرورت ہے ¾ہمیں دہشت گرد تنظیموں اور ان کے نمائندوں کو مکمل بلیک لسٹ کرناہے۔ ہفتہ کو یہاں سینئر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ اہم ملکی امور پر مشاورت کے لئے میڈیا تنظیموں کے سربراہوں کو بلایا ہے ¾ اجلاس میں دہشت گردی کے یک نکاتی ایجنڈے پر بات ہوگی ¾ملکی سلامتی کےلئے دہشت گردوں کی تشہیر روکنے کی اشد ضرورت ہے ¾ہمیں دہشت گرد تنظیموں اور ان کے نمائندوں کو مکمل بلیک لسٹ کرناہے ¾میڈیا خوف اور تشویش کو عوام کے قریب نہ آنے دے تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جاسکے ¾وہ جذبہ لائیں جس سے دہشت گردی کی جنگ جیتی جاسکے ¾یکجہتی اور قومی عزم کے اظہار سے عوام مضبوط ہوں گے ¾میڈیا خوف کی فضا پیدا کرے گا تو قوم میں خوف پیدا ہوگا۔ وزیر داخلہ نے کہاکہ گذشتہ ساڑھے تین سالوں میں سیکیورٹی کے صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے اور جون 2013ءکی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں روزانہ چھ سے سات دھماکے ہوتے تھے اور سال میں ہونے والے دھماکوں کی تعداد 2ہزار سے زیادہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ گویا پاکستان میں ہر روز دھماکہ ہوتا تھا تاہم یہ کوئی خبر نہ بھی جس دن کم دھماکے ہوتے تھے تو خبر بنتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال کے دوران 2006ءبعد پہلی مرتبہ ایک ہزار سے بھی کم سات سو کے قریب دھماکے ریکارڈ کئے گئے اور دہشتگرد کارروائیوں کا عالمی ریکارڈ رکھنے والے ادارے ان اعدادوشمار کی تصدیق کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات کی بدولت امن و امان صورتحال میں بہتری ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی ختم نہیں ہوئی بلکہ اسکا گراف نمایاں حد تک کم ہوا ہے ۔وزیر داخلہ نے کہا کہ پہلے افغانستان سے روزانہ 30ہزار کے قریب اور اس سے زائد افراد بغیر سفری کاغذات کے پاکستان میں آتے جاتے تھے انکا کو روٹ یا ریکارڈ نہ تھا اور نہ ہی کوئی پالیسی اور دیٹا بینک تھا ۔ انہوں نے کہا کہ میں حکومت کی کارکردگی اور اسکی تعریف کا دعویٰ نہیں کرتا بلکہ یہ سب کچھ آپ کے سامنے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ساڑھے تین سالوں میں پہلی دفعہ عملی اقدامات کئے گئے اور دہشتگردی میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ کہا کہ میں کسی چیز کا کریڈیٹ نہیں لوں گا اور نہیں کسی پر تنقید کرونگا۔ کیونکہ دہشتگردی کی کارروائیوں میں کمی کا کریڈیٹ ہم سب کا مشترکہ ہے انہوں نے کہا کہ بطور وزیر داخلہ میں نے کبھی بھی کسی پر تنقید نہیں کی ۔ انہوں نے کہاکہ ایک دفعہ ہم نے ایک جیل پر حملہ کی معلومات دیں اور اس پر اجلاس بھی ہوئے اور آخری اجلاس کے روز شام کو جیل پر حملہ ہوا جس میں لوگوں کو چھڑوایا گیا جسکی میں نے تردید نہیں کی تھی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کریڈیٹ لینا مناسب نہیں اور اس پر سیاست کرنا گناہ عظیم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ سیہون کے بعد طبعیت کی خرابی کے باوجود وزیر اعظم نے دورہ کیا اور سیکیورٹی کی صورتحال کے حوالہ سے اجلاس کی صدارت کی ۔ انہوں نے کہا کہ اس موقع پر بھی وفاقی حکومت اور وزارت داخلہ پر تنقید کی گئی جس پر میں نے پہلی دفعہ کہا کہ کیا درگاہ کی سیکیورٹی وفاقی یا صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے وہاں پر سیکیورٹی کے ناقص انتظامات پر بات کی لیکن اس کی بھی زیادہ تشہیر نہیں کی ۔ انہوں نے کہا کہ دورہ کے موقع پر اجلا س میں متعلقہ حکام سے سیکیورٹی کی صورتحال کے حوالہ سے بات چیت ہوئی اور چیف سیکرٹری سندھ سے دھماکے سے پہلے کے حالات معلوم کئے تو ان کا کوئی جواب نہ تھا جس پر آرمی چیف نے بھی کہا کہ سیکیورٹی کا مناسب انتظام کیا جانا چاہئے تھا۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ سہیون واقعہ پر سندھ حکومت کے ترجمان وفاقی حکومت اور وزیر داخلہ پر تیر چلاتے رہے ¾وہ بطور وزیر داخلہ کسی پر تنقید نہیں کرتے لیکن ساڑھے 3 سال میں پہلی بار سیہون واقعہ پر جواب دیا۔ وہ یہ بتائیں سیہون میں سیکیورٹی کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی یا صوبائی حکومت کی۔وزیر داخلہ نے کہا کہ 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان آسمان سے نہیں آیا ¾یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے ¾اس کے 10 نکات صوبائی حکومتوں کے ذمہ ہیں ¾باقی 10 میں سے بھی 4 وزارت داخلہ کے ذمہ ہیں۔ ملاقات میں وزیرِ مملکت مریم اورنگ زیب، پارلیمانی سیکریٹری ڈاکٹر محمد افضل خان ڈھانڈلہ ، پی آئی او راﺅ تحسین علی خان اور دیگر سینئر افسران بھی موجود تھے۔میڈیا کی نمائندہ تنظیموں کے وفد میں سرمد علی، میاں عامر محمود، شکیل مسعود، اعجاز الحق، مہتاب خان، عمر مجیب شامی، شاہین قریشی، جمیل احمد، طاہر فاروق، عبدالباسط اور دیگر عہدہ دار شامل تھے ۔ سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی اور عارف نظامی کو خصوصی دعوت دے کر مدعو کیا گیا۔
