لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کو اقتصادی تعاون تنظیم کا اجلاس کرانے پر مبارکباد دیتا ہوں، خوش آئند اقدام ہے لیکن بدقسمتی سے صحیح معنوں میں علاقائی تعاون کے منصوبے نہیں بنتے۔ حکومتی سطح پر معاہدے ہو جاتے ہیں لیکن عوام تک اس کے اثرات نہیں پہنچتے۔ عوام کیلئے اسی تنظیم کے ممالک میں سے ایک دوسرے ملک میں جانا بھی انتہائی مشکل ہے۔ ایران، ترکی اور پاکستان کی برسوں پہلے ایک تنظیم RCD بنی تھی، بدقسمتی سے اس پر عمل نہیں ہوا۔ آج ہونے والا تعاون برسوں پہلے ہو گیا ہوتا تو کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہوتے۔ درخواست ہے کہ اقتصادی تعاون تنظیم کا حشر بھی سارک RCD کی طرح نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو دور میں ایک اسلامی کانفرنس ہوئی تھی، جس کے فیصلوں میں سے سب سے بڑا فیصلہ ”اسلامک نیوز ایجنسی“ کا بنانا تھا۔ جس کے ذریعے اسلامی ممالک کی تمام خبریں براہ راست آنا تھیں لیکن افسوس آج تک اسلامک نیوز ایجنسی وجود میں نہیں آ سکی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کے خوبصورت ترین ملکوں میں سے ہے، یہاں ریگستان، سمندر، پہاڑ، کے ٹو، جنگلات اور تاریخی ورثہ سمیت بہت ساری سیاحت ہے۔ ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے اگر غیر ملکی سیاح یہاں آ کر اپنے ملکوں کی کرنسی خرچ کریں، معیشت بدل جائے گی۔ نیپال میں روزانہ ہزاروں غیر ملکی سیاح صرف ماﺅنٹ ایورسٹ کو دیکھنے جاتے ہیں۔ جہاں اس کے علاوہ اور کچھ دیکھنے کو نہیں۔ نیپال اور مالدیپ جیسے چھوٹے ملکوں کا بہت سارا زرمبادلہ سیاحت کی بنیاد پر ہے۔ مشرف دور میں ایک پروجیکٹ بنا تھا جس کے میڈیا سپانسر میں خبریں گروپ پیش پیش تھا۔ فیصلہ ہوا کہ ٹیکسلا کے مقام پر 53 ملکوں کے سفیروں اور سوا سو سے زیادہ سفارتکاروں کو مدعو کر کے انگریزی زبان میں پاکستان کی قدیم تہذیب سے متعلق ڈرامہ سٹیج کریں گے۔ بہت بڑا ایونٹ تھا دنیا بھر میں مشہوری ہونا تھی، اتنے ممالک کے سفیروں و سفارتکاروں نے دنیا کو بتانا تھا کہ پاکستان میں دیکھنے لائق کتنی چیزیں ہیں لیکن اچانک نائن الیون کا واقعہ ہو گیا، اس دن سے لے کر آج تک دہشتگردی نے ہماری سیاست کا بیڑہ غرق کر دیا۔ اؑٓج وسطی ایشیائی خوبصورت ریاستوں کو دیکھنے کے لئے افغانستان سے نہیں گزرا جا سکتا۔ پاکستان کی سیاحت زیرو ہو گئی ہے جس کی وجہ سے آمدن کا بہت بڑا ذریعہ ختم ہو گیا۔ اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس میں افغانستانکی عدم شرکت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیا واقعی اشرف غنی اتنے بڑے ملک کے سربراہ ہیں کہ انہیں یہاں آنے میں تکلیف ہوتی ہے۔ وہ ایک ایسے ملک کے صدر ہیں جس کا اپنا 70 فیصد علاقہ باغیوں کے پاس ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت ہے جس کا زیادہ جھکاﺅ بھارت کی طرف ہے۔ پی ایس ایل کی ٹکٹوں کی خریداری میں عوام کی بہت زیادہ دلچسپی لینے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اتنے خطرات اور دھمکیوں کے باوجود کرکٹ سے محبت کرنے والوں کے والہانہ پن نے ثابت کر دیا کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں، کسی سے ڈرنے والے نہیں۔ بعض غیر ملکی کھلاڑیوں کے پاکستان نہ آنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی طاقتوں بالخصوص سپر پاور کی طرف سے برسوں سے پاکستان کے خلاف سازشیں جاری ہیں۔ نائن الیون سے بہت پہلے ایک بار امریکہ گیا تو وہاں دیکھا کہ نجی ٹی وی پر امریکی شہریوں کو وارننگ جاری کی جا رہی تھی کہ پاکستان کا سفر اپنے رِسک پر کریں وہاں حالات خراب ہیں حالانکہ اس وقت ایک بھی دہشتگردی کا واقعہ نہیں تھا۔ دنیا کا سب سے بڑا تعمیراتی پروجیکٹ پاکستان میں ہے، پاک فوج تندہی سے اس کی حفاظت کر رہی ہے۔ دنیا میں پاکستان کے خلاف دہشتگردی کا پروپیگنڈا یک طرفہ، مخالفانہ اور مخصوص مخالفانہ مقاصد کیلئے ہے۔ سی پیک منصوبے کی وجہ سے نئی دنیا آباد ہو رہی ہے۔ تجارتی راہداریاں مکمل ہونے کے بعد اس کے ساتھ ساتھ صنعتی علاقے بنیں گے۔ بیروزگاری کا خاتمہ ہو گا اور پاکستان میں عام آدمی بھی خوشحال ہو گا۔ بلوچستان میں سابق وزیر خوراک پر 2 کروڑ روپے کرپشن کے الزام کے سوال پر انہوں نے کہا کہ بلوچستان رقبے کے حوالے سے سب سے بڑا جبکہ آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ تاریح گواہ ہے کہ ہر دور کی حکومت نے بلوچستان کے لئے خصوصی امداد کا اعلان کیا مگر وہاں کچھ خرچ نہیں کیا جاتا۔ وہاں کے ایم پی ایز، ایم این ایز سارا فنڈ ہڑپ کر جاتے ہیں۔ وہاں ایسی سڑکیں موجود ہیں جو صرف کاغذوں میں نظر آتی ہیں، ویسے ان کا وجود ہی نہیں۔ ایک سڑک کی لاگت 6,6 بار وصول کی گئی، اس کا انکشاف ایک کور کمانڈر نے ہمارے ساتھ ایڈیٹر میٹنگ میں کیا تھا۔