تازہ تر ین

اسپاٹ فکسنگ سکینڈل ،نجم سیٹھی تحققیات رکوانے کیلئے سر گرم

کراچی (خصوصی رپورٹ) پی سی بی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی نے ایف آئی اے کی جانب سے جاری پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کی تحقیقات رکوانے کے لئے وزیر اعظم نواز شریف سے مدد مانگی، جس کے بعد طے ہوا کہ پہلے پی سی بی کا مقرر کردہ ٹریبونل اسکینڈل کی تحقیقات کرے گا اور پھر اس تحقیقات کی روشنی میں ایف آئی اے کھلاڑیوں کے جرم کی حد کا تعین کرے گی۔ دوسری جانب فاسٹ باﺅلر عرفان پر ایک برس کی پابندی کے بارے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں کے موبائل ڈیٹا کے فرانزک تجزیے اور دیگر تفتیش کے بغیر محض ان کے بیانات کی روشنی میں سزائیں سنانے کا عمل اسپاٹ فکسنگ کیس میں ملوث پلیئر کو ایف آئی اے کی تحقیقات سے بچانا ہے۔ واضح رہے کہ پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کی تحقیقات کے حوالے سے پی سی بی اور ایڈ آئی اے میں سروجنگ چھڑی ہوئی تھی۔ نجم سیٹھی کا موقف تھاکہ آئی سی سی کے قوانین کے تحت اسپاٹ فکسنگ کی تحقیقات کے اختیار پی سی بی کے پاس ہے، جبکہ ایف آئی اے کا اسٹینڈ تھا کہ یہ معاملہ کرپشن سے جڑا ہے، لہذا وہ اس سارے معاملے کی تفتیش کرے گی۔ اس ایشو سے پوری طرح باخبر ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ پی سی بی کے چیف آپریٹنگ افسر سجان احمد نے خود ایف آئی اے کو خط لکھ کر اسپاٹ فکسنگ میں ملوث کرکٹرز کے موبائل ڈیٹا کی ویری فکیشن کی درخواست کی تھی۔ تا ہم جب تفتیشی ادارے نے یہ درخواست قبول کرتے ہوئے تحقیقات کا دائرہ کار بڑھانے کا فیصلہ کیا اور اس کی درخواست پر وزارت داخلہ نے مشکوک کھلاڑیوں کے نامای سی ایل مین ڈال دیئے تو پی سی بی بالخصوص نجم سیٹھی پریشان ہو گئے۔ ایف آئی اے لاہور کے ایک ذراےع کے مطابق ایف آئی اے نے کھلاڑیوں کے موبائل ڈیٹا کی تصدیق کی ہامی تو بھری ہی تھی، تا ہم جامع تحقیقات کی خاطر پی ایس ایل انتظامیہ اور دیگر تیموں کے کھلاڑیوں کا موبائل فون ڈیٹا بھی مانگ لیا تھا۔ذرائع کے بقول نجم سیٹھی پہلے ہی مشکوک کھلاڑیوں کے نام ای سی ایل میں ڈالے جانے پر مضطرب تھے، کیونکہ یہ قدم ان کی خواہش کے خلاف اٹھایا گیا تھا اور جب ایف آئی اے نے مشکوک کھلاڑیوں کے علاوہ پی ایس ایل منتظمین اور دوسری ٹیموں کے کھلاڑیوں کا ڈیٹا بھی طلب کیا تو ہو بلبلا اٹھے۔اس حوالے سے پی سی بی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دراصل نجم سیٹھی کو خوف لاحق ہو گیا کہ تحقیقات کا دائرہ وسیع ہونے پر ان سمیت پی ایس ایل انتظامیہ کے دیگر آفیشلز کو بھی شامل تفتیش کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے اسپاٹ فکسنگ کی آزادانہ تحقیقات کا سگنل ملنے کے بعد ایف آئی اے نے اس معاملے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کمرکس لی تھی۔ جس کے تحت ایف آئی اے نے 20 مارچ سے باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کیا اور پانچ کھلاڑیوں شرجیل خان، خالد لطیف، شاہ زیب حسن، محمد عرفان اور ناصر جمشید کو طلبی کے نوٹس جاری کر دیئے۔ اس روز لاہور میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر شاہد حسن کے سامنے خالد لطیف اور محمد عرفان نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا، جبکہ دوسرے روز شرجیل اور شاہزیب حسن پیش ہوئے ۔ ذرائع کے بقول ان تمام مشکوک کھلاڑیوں نے سائبر کرائم ونگ کے سامنے کم و بیش وہی بیاں ریکارڈ کرایا، جو وہ اس سے قبل پی سی بی کے اینٹی کرپشن یونٹ کے سامنے دے چکے تھے۔ جس میں ان کھلاڑیوں کا دعویٰ تھا کہ ان سے بکیز نے رابطہ ضرور کیا، لیکن وہ اسپاٹ فکسنگ میں ملوث نہیں کہ اس سے انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق اس مرحلے پر تحقیقات آگے بڑھانے کے لئے ایف آئی اے کو کھلوڑیوں کے موبائل فونز کی ضرورت تھی، تا کہ وہ اس کے ڈیٹا کا فرانزک تجزیہ کر کے تعین کر سکیں کہ کھلاڑی کتنا جھوٹ یا سچ بول رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول اگرچہ بکیز سے رابطوں کے لئے کھلاڑیوں نے جتنے واٹس ایف میسج اور واٹس ایپ آڈیو پیغامات بھیجے، وہ تقریباً تمام ڈیلیٹ کر دیئے تھے۔ تا ہم ایف آئی اے کے سائبر ونگ کرائم کے پاس متائے گئے میسجز کو ریکور کرنے کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ لہذا کھلاڑیوں کے فون موبائل ملنے کی صورت میں نہ صرف تحقیقات تیزی سے آگے بڑھنے کی توقع تھی، بلکہ مزید کئی پردہ نشینوں کے نام بھی بے تقب ہو سکتے تھے۔ تا ہم پی سی بی کے ذرائع کے مطابق دوسری جانب اس پیش رفت اور ایف آئی اے کی پھرتیوں سے پریشان نجم سیٹھی نے کھلاڑیوں کا موبائل ڈیٹا ایف آئی اے کے حوالے نہ کرنے کا فیصلہ کیا، حالانکہ قبل ازیں خود پی سی بی کھلاڑیوں کے موبائل فون ایف آئی اے کے حوالے کر کے ڈیٹا کی ویری فکیشن چاہتی تھی۔ یاد رہے کہ پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل منظر عام پر آنے کے فوری بعد کھلاڑیوں کے موبائل فونز پی سی بی کے اینٹی کرپشن یونٹ نے ضبط کر لئے تھے۔ ذرائع کے مطابق پی سی بی نے تا حال یہ موبائل فونز ایف آئی اے کے سپرد نہیں کئے ہیں۔ جبکہ تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ جب تک وہ کھلاڑیوں کے موبائل ڈیٹا کا فرانزک تجزیہ نہ کر لے، تفتیش کسی صورت آگے نہیں بڑھ سکتی۔اسلام آباد میں موجود ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ نے ایف آئی اے کو ہدایت کی تھی کہ پی سی بی کے پریشر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے تحقیقات جاری رکھی جائیں۔ پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ کے تمام کرداروں کو بے نقاب کیا جائے اور اگر اس سلسلسے میں آگے چل کر مقدمات درج کرنے اور گرفتاریوں کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ ذرائع کے بقول وفاقی وزیر داخلہ کی ان ہدایات کی روشنی میں ایف آئی اے نے اینٹی کرپشن ایکٹ کے تحت مشکوک کھلاڑیوں کے خلاف مقدمات درج کر نے کی تیاری بھی کر لی تھی، تا ہم پھر اچانک سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ اندروں خانہ یہ طے کیا گیا کہ پہلے پی سی بی کا ٹریبونل اسپاٹ فکسنگ کی تحقیقات کرے گا۔ بعدازاں ٹریبونل کی تحقیقات کی روشنی میں ایف آئی اے کھلوڑیوں کے جرم کی حد کا تعین کر ے کرے گی۔ جبکہ کرکٹرز کے موبائل فون کا ڈیٹا بھی ٹریبونل کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ایف آئی اے کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اس تمام خاموش ڈویلپمنٹ کے پیچھے نجم سیٹھی کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ کیا جانے والا رابطہ تھا، جو کرکٹ کے پیٹرن ان چیف بھی ہیں۔ ذرائع کے بقول وزیراعظم کے سامنے بھی نجم سیٹھی نے اپنا وہی موقف پیش کیا، جو وہ میڈیا پر بھی بیاں کرتے رہے ہیں کہ آئی سی سی کے رولز کے مطابق کھلاڑیوں کے اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کی انکوائری کا اختیار پی سی بی کے پاس ہے۔ اگر کوئی اور ادارہ یہ انکوائری کرے گا تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی، اور یہ معاملہ آٓگے چل کر پرابلم بن سکتا ہے ۔ لہذا ایف آئی اے سے انکوائری کرانے کے بجائے پی سی بی کے مقرر کردہ ٹریبونل تحقیقات کرنے دی جائیں۔ تا ہم خود پی سی بی کے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ نجم سیٹھی کا موقف سراسر غلط ہے۔ انگلینڈ میںہونے والی سیریز کے دوران اسپاٹ فکسنگ میں ملوث سلمان بٹ، عامر اور آصف کی تحقیقات کسی کرکٹ بورڈ نے نہیں، بلکہ برطانوی تفتیشی ادارے نے کی تھی، اس کے بعد انہیں جیل کا ٹنی پڑی تھی۔ یہی معاملہ بھارت میں اسپاٹ فکسنگ کیس میں ملوث کھلاڑیوں کے ساتھ ہوا۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کو کنوینس کرنے کے بعد ہی کرکٹ بورڈ کے مقرر کردہ ٹریبونل نے 24 مارچ سے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا۔ اس ٹریبونل کے سربراہ سابق جج اصغر حیدر جبکہ دیگر ارکان میں سابق چیئرمین کرکٹ بورڈ توقیرضیا اور سابق چیف سلیکٹر وسیم باری شامل ہیں۔ ٹریبونل کے سامنے پہلی پیشی شرجیل کی ہوئی تھی۔بدھ کے روز پی سی بی نے طویل القامت فاسٹ باﺅلر محمد عرفان پر ایک سال کی پابندی اور دن لاکھ روپے جرمانہ کیا۔ تا ہم ڈسپلن بہتر ہونے پر فاسٹ باﺅلر کی سزا چھ ماہ تک محدود کی جا سکتی ہے۔ محمد عرفان نے پی سی بی کی چارج شیٹ کا جواب دیتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے اینٹی کرپشن کو ڈکی خلاف ورزی کا اعتراف کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی سی بی کے مقرر کردہ ٹریبونل کے ذریعے تحقیقات کرا کے نجم سیٹھی اسپاٹ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کو ایف آئی اے کے شکنجے سے بچانا چاہتے ہیں اور پھر یہ کہ انہیں خدشہ تھا کہ تفتیشی ادارے کی تحقیقات کا کھرا ان کی جانب بھی نکل سکتا ہے۔ ادھر مشکوک کھلاڑیوں کے قیربی ذرائع کا کہنا ہے کہ پی سی بی ٹریبونل کے سامے دیگر کھلاڑی بھی اپنا پرانا موقف پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ ان سے بکیوں نے رابطہ ضرور کیا تھا، لیکن انہوں نے اسپاٹ فکسنگ سے انکار کر دیا ۔ چونکہ ٹریبونل کے پاس ایف آئی اے کی طرح تفتیش کا تجربہ، مہارت، وسائل اور فرانزک شواہد کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں، لہٰذا وہ کھلاڑیوں کے اس دعوے کی تحقیقات کر انے سے قاصر رہے گا، اور یوں محمد عرفان کی طرح دیگر کھلاڑیوں پر بھی پابندی اور جرمانہ لگا کر چیپٹر کلوز کر دیا جائے گا۔ پی سی بی کے ذرائع کے مطابق شرجیل اور خالد لطیف پر زیادہ سے زیادہ پانچ سے ساتھ برس، جبکہ شاہ زیب پر اس سے کچھ کم پابندی کا امکان ہے، کیونکہ اس نے بکیوں کے رابطہ کرنے پر خود پی سی بی کو اگاہ کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق ممکنہ پابندی کا شکار ہونے والے دیگر کھلاڑیوں کی سزاﺅں میں بھی ڈسپلن کے تحت رعایت دیئے جانے کا قومی امکان ہے۔ واضح رہے کہ اسکینڈل کا پانچواں ملزم ناصر جمشید تا حال برطانیہ میں ہے۔ ناصر جمشید کو برطانوی تفتیشی ادارے نے گرفتا رکیا تھا، بعدازاں ضمانت پر رہا کر دیا گیا، لیکن اس کا پاکستانی پاسپوٹ ضبط ہے۔ اطلاع ہے کہ ناصر جمشید کا بیاں قلمبند کرنے کے لئے پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ کے دو ارکان لندن جانے والے ہیں۔ ناصر جمشید کی اہلیہ برطانوی شہری ہے۔ جبکہ اس کی فیملی کے پاس بھی امریکی پاسپورٹ ہیں۔ مستند ذرائع نے بتایا کہ محمد عرفان نے تین روز قبل اپنے ایک قریبی دوست سے رابطہ کرکے کہا تھا کہ پی سی بی کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرنے والا ہے، جس پر اسے کہا گیا تھا کہ فی الحال اس بارے میں سوچ بچار کے بعد کوئی قدم اٹھائے۔ تاہم ذرائع کے بقول محمدعرفان کو نجم سیٹھی نے مشورہ دیا تھا کہ غلطی کا اعتراف کر کے بڑی سزا سے بچ سکتا ہے، ورنہ ایف آئی اے کی تحقیقات میں معاملہ سنگین ہو جائے گا۔ ذرائع کے مطابق اس طرح کا مشورہ شاہ زیب کو بھی دیا جا رہا ہے اور ممکن کہ وہ بھی آنے والے دنوں میں محض پی سی بی کے اینٹی کرپشن کوڈ کی خلاف ورزی کا اعتراف کرلے اور اس کے نتیجے میں اس پر چند برس کی پابندی لگا دی جائے، اور یوں وہ بھی کرمنل تحقیقات سے بچ نکلے۔ واضح رہے کہ بکیوں کے رابطہ کرنے پر اپنے متعلقہ بورڈ کو اگاہ نہ کرنا اینتی کرپشن کوڈ کی خلاف ورزی کہلاتا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain