ڈاکٹر نوشین عمران
اوسط عمر رکھنے والے افراد اپنی زندگی کے تقریباً چھ سال خواب دیکھتے ہیں جو روزانہ تقریباً دو گھنٹے بنتے ہیں۔ خواب کا دورانیہ پانچ سے بیس منٹ ہوتا ہے۔ نیند کے پانچ مراحل کے دوران خواب آخری مرحلے میں آتے ہیں جب انکھ کی پتلیاں حرکت کرتی ہیں۔ نبض بہتر ہوجاتی ہے اور بلڈ پریشر بھی قدرے بڑھ جاتا ہے۔ خواب دراصل دماغ کے اندر بننے والے سگنل ہیں جو نیند کے آخری مرحلے REM سلیپ کے دوران دماغ کے پچھلے اور نچلے حصے میں بنتے ہیں جو حرام مغز سے رابطے میں ہے۔ البتہ ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ خواب دراصل دماغ کے اگلے حصے سے شروع ہونے والے تعلق ہیں جو پچھلے اور پھر نچلے حصے تک جاتے ہیں۔ جن افراد کے سر کے اگلے حصے میں کوئی چوٹ لگی ہو انہیں خواب نظر نہیں آتے۔ رفتہ رفتہ یہ نظریہ زور پکڑتا گیا کہ خواب دراصل دماغ میں موجود بے ترتیب معلومات کو تسلسل دینے اور بے کار پڑی معلومات کو ضائع کرنے کے لیے ہیں یہ بھی خیال ہے کہ خواب کے دوران دماغ میں پڑی ماضی کی معلومات اور تجربات کو تسلسل دے کر مستقبل کا کوئی سگنل یا کسی مسئلے کا حل بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس لیے اکثر لوگ اگر جاگتے ہیں کسی گہری سوچ یا مشکل میں ہوں تو انہیں خواب میں کوئی راستہ ضرور نظر آجاتا ہے۔ خواب رنگین ہوتے ہیں۔ البتہ بہت کم خواب ایسے ہوتے ہیں جن میں رنگ نظر نہیں آتے سوائے سفید اور کالے رنگ کے۔ دبلے پتلے افراد کو خواب زیادہ جبکہ موٹے افراد کو خواب بہت کم یاد رہتے ہیں۔ نیند کے دوران کمرہ کا درجہ حرارت جتنا کم ہو خواب اتنے ہی خوفناک نظر آتے ہیں۔ تمام خواب یاد نہیں رہتے انہیں یاد رکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ رات اپنے تکیے کے پاس کوئی کاغذ پینسل رکھ کر سوئیں۔ صبح اٹھ کر کچھ کرنے سے پہلے جو بات بھی خواب سے متعلق یاد ہو اسے لکھ لیں۔ ایسا روزانہ کریں چند دنوں میں آپ نوٹ کریں گے کہ خواب کی کافی تفصیل یاد رہنے لگی ہے۔ حتیٰ کہ رنگ بھی یاد ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ایسا کرتے رہنے سے آپ اپنے دماغ میں موجود معلومات سے فائدہ اٹھانے اور رہنمائی لینے لگیں گے اور آپ کو کئی مسائل کا حل اور مستقبل کے لیے وارننگ ملنے لگے گی۔
٭٭٭