اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) پاناما لیکس کے فیصلے کے بعد وزیراعظم کی زیر صدارت پہلا مشاورتی اجلاس طلب کیا گیا جس میں قانونی ماہرین نے نواز شریف کو فیصلے سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت پاناما لیکس کا فیصلہ آنے کے بعد پہلامشاورتی اجلاس طلب کیا گیاجس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے بھی کہا تھا فیصلہ جو بھی ہو مانیں گے اور عدالتوں کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں۔ اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کرنے پر اتفاق اور وفاقی وزرانے وزیر اعظم پر مکمل اعتماد اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ وزیراعظم ذرائع کے مطابق فیصلے کے قانونی اور سیاسی پہلووں پر تفصیلی مشاورت اورجے آئی ٹی کے حوالے سے آئندہ کی حکمت عملی بھی طے کی گئی اور وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں مشاورتی عمل جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ نواز شریف کی زیرصدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے13 سوالات کا جواب ،جے آ ئی ٹی سے بھرپور تعاون ، سپریم کورٹ کے فیصلے پرمن و عن عمل ، کچھ تحفظات ہونے کے باوجود بہانہ نہیں بنایا جائےگا اور حکومت آئین اور قانون کی پاسداری کرے گی جبکہ اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ اپوزیشن صرف انتشار چاہتی ہے جس میں کبھی کامیاب نہیں ہو گی۔ٹیکسلا (نمائندہ خبریں) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے لوگوں کی خواہشات نہیں قانون کے مطابق ہوتے ہیں ، بعض عناصر اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر عجیب منطق پیش کررہے ہیں ،عدالتی فیصلے کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے ۔آصف زرداری کا ایمانداری پر لیکچر دینا قیامت کی نشانی ہے، ٹیکسلا میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرداخلہ نے کہا کہ عدالتی فیصلہ عدالتی ہی ہوتا ہے اسے نہ سیاست کی بھینٹ چڑھنا چاہیے اور نہ ہی اس پر تبصرے کرنے کیلئے مزید عدالتیں لگانی چاہیں ۔ عدالتی فیصلے کو طرح طرح کے معنی پہنچائے جارہے ہیں ۔ عدالتوں کے اوپر عدالتیں لگ رہی ہیں ۔ لوگ اپنی خواہشات اور سیاسی مقاصد کی خاطر عجیب عجیب مطق بیان کررہے ہیں ۔ یہ ایک متفقہ فیصلہ ہے کہا جارہا ہے کہ دو ججز ایک طرف اور تین ایک طرف ہیں ۔ یہ درست نہیں ہے دو ججز نے اختلاف رائے کا اظہار ضرور کیا ہے مگر جے آئی ٹی بنانے میں 5ججز کے دستخط موجود ہیں ۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ کوئی بھی عدالتی فیصلہ کی خواہش کے مطابق نہیں ہوسکتا بلکہ قانون و آئین کے مطابق ہوتا ہے ۔ ابھی تک کیس عدالت میں ہے مزید تفتیش کیلئے جے آئی ٹی بنائی گئی ہے ۔ اپوزیشن کے بعض زعماءبار بار کمیشن یا جے آئی ٹی کا نام لیتے تھے اور کہتے تھے کہ اس میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے ممبران بھی شامل ہوں اب سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ جے آئی ٹی بنے اور ایم آئی اور آئی ایس آئی کی نمائندگی ہو سپریم کورٹ کا فیصلہ سب کو قابل قبول ہونا چاہیے ۔ آج وزیراعظم کی میٹنگ میں ہمارے ساتھیوں نے اپنی اپنی رائے دی اور اس فیصلے کے حوالے سے مختلف بیانات سامنے آئے مگر وزیراعظم نے سختی سے ہدایت دی ہے کہ ہم کسی صورت اس فیصلے کو تقسیم نہ کریں خواہ دو ججز ایک طرف ہیں اور تین ججز ایک طرف ہیں ہم اسے عدالتی فیصلہ سمجھتے ہیں یہ اس وقت تک عدالت کا فیصلہ ہے جب تک جے آئی ٹی اپنی رپورٹ عدالت میں واپس نہیں آتی ۔ افسوس بعض سیاستدان عدالتی فیصلوں کے خلاف احتجاج بلند کرر ہے ہیں اور بعض ججوں کی حمایت اور بعض کے خلاف بات کر رہے ہیں ۔ خدا کیلئے آئین وقانون پر رحم کھائیے جب کوئی ایشوبنے تو اس کے حل کیلئے بھی کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے ۔ مسئلے کے حل کیلئے پھر سپریم کورٹ سے بڑا ادارہ کونسا ہے ۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ پر چھوڑدیں ہمیں یہ فیصلہ قبول ہے آصف علی زرداری قوم کو ایمانداری اور دیانتداری پر لیکچر دیں یا آرٹیکل 62اور 63کا سرٹیفکیٹ دیں یہ قیامت کی نشانیاں ہیں اس ملک کے بعض سیاسی لیڈران پاکستانی عدالتوں سے تو مجرم قرار پائے ہی ہیں مگر سوئس عدالتوں سے بھی ہوئے ہیں آج وہی قوم کو شفافیت کو لیکچر دے رہے ہیں ۔ اگر ہم سب نے سپریم کورٹ پر اتفاق کیا ہے تو اسے فیصلہ کرنے دیں اگر یہ کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم کی لیگل ٹیم کے پاس شواہد نہیں تھے تو یہ اس زور سے کیوں نہیں کہا جارہا کہ الزام لگانے والوں کے پاس بھی ناکافی شواہد تھے ۔یہاں وزیراعظم کے اوپر الٹی گنگا بہائی گئی کہ آپ نے اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہے ۔ یہ کیس کرپشن کا نہیں بلکہ لندن میں وزیرعظم اور ان کے خاندان کی جانب سے خریدے گئے فلیٹس کیلئے پیسہ کہاں سے آیاجبکہ وزیراعظم کے خاندان کا سپریم کورٹ میں یہ موقف رہا کہ ہمارے والدکے 1970-80میں اس وقت بااثر اثاثے تھے جب ان کا حکومت کے ساتھ دور دور کا واسطہ نہیں تھا میں واضح کردوں کہ بہت سے لوگوں کے باہر اثاثے ہیں اگر غیر قانونی ہیں تو چھپا کر رکھتے ہیں ۔ جبکہ وزیراعظم اور ان کے خاندان نے ان فلیٹس کو چھپا کر نہیں رکھا اب سب کو سپریم کورٹ کا احترام کرتے ہوئے فیصلہ ہونے کا انتظار کرنا چاہیے یہ سرے محل یا کرپشن کا کیس نہیں اس کی نوعیت مختلف ہے ۔وزیراعظم نے خود کو احتساب کیلئے پیش کرکے اچھی ر وایت قائم کی ۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ غیب کا علم میرے پاس نہیں مگر میرے سامنے اگر اس حکومت کے حوالے سے کرپشن یا کوئی بھی غلط کاری ہوتی تو میں بہت پہلے اس حکومت کوچھوڑ چکا ہوتا ۔ لہذا میرا ضمیر مطمئن ہے میں اللہ تعلی کے سامنے جوابدہ ہوں مگر الزامات کا جواب میرے پاس نہیں ہے ۔ الزامات لگانا ہی کافی نہیں ثبوت بھی دینے پڑتے ہیں اس کیس کا ایشو صرف یہ ہے کہ ان فلیٹس کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا جب شریف خاندان کا مو¿قف ہے کہ 1970کے بعد ہمارا بیرون ملک سرمایہ تھا پیسہ پاکستان سے نہیں گیا فیصلہ شواہد کے مطابق ہوگا۔ الزامات یا شکوک شبہات کی بنیاد پر نہیں ہوگا۔ لفاظی اور گفتارکی جنگ میں ہر چیز کو کنفیوزکیا جارہا ہے ۔ کنفیوژن پیدا کرنے والے چند لوگ اس کیس کافیصلہ نہیں چاہتے بلکہ انتشار چاہتے ہیں حکومت نے تو کئی بار کہا ہے کہ جس چیز پر آپ راضی ہیں حکومت اسی کے تحت تفتیش اور تحقیقات کرانے کیلئے تیار ہے اس لیے حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم مکمل طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اس کو مکمل سپورٹ کریں گے اور فیصلے کا احترام بھی کریں گے ۔انہوںنے کہا کہ حکومت جس دن سے آئی اسی دن سے اس کے خلاف یلغار شروع ہو ئی۔ اپوزیشن نے ٹھان لی ہے کہ حکومت کو کام نہیں کرنے دینا ایک سوال پر انہوںنے کہا کہ الیکشن سے پہلے عبوری حکومت پیپلزپارٹی کی مرضی سے بنائی گئی کے پی کے فیڈرل ، سندھ ، بلوچستان پنجاب ہر جگہ نگران حکومت پیپلزپارٹی کی مرضی سے بنی نجم سیٹھی کو نگران وزیراعلی بننے کی میں اور شہبازشریف نے مخالفت تو پھر وہ کس طرح ہماری سپورٹ کرسکتے ہیں ۔ چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن اور حکومت کی مرضی سے بنا دراصل اپوزیشن حکومت کی کارکردگی سے خوفزدہ ہے کارکردگی کا مقابلہ کرنے کی بجائے بیان بارزی کی گئی ۔ ہماری حکومت کی کارکردگی کا موازنہ پچھلی حکومت سے کریں تو فرق صاف نظر آئے گا۔ ہم کسی کی مخالفت کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھتے رہیں گے کراچی آپریشن وفاقی حکومت نے اتفاق رائے سے شروع کیا ۔ پاکستان کے دشمن بھی کراچی کی سیکیورٹی صورتحال کی بہتری کا اعتراف کرتے ہیں ۔ رینجرز کی کارکردگی کا حکومت سندھ کو سب سے بڑا فائدہ ہے اب بھی رینجرز کی مدت میں توسیع کا مسئلہ بلا جواز پیدا ہوا یہ ایک انتہائی تشویشناک صورتحال ہے ہر تین ماہ بعد سندھ حکومت رینجرز کا کردار متنازعہ بنا رہی ہے حالانکہ اسے رینجرز سے کوئی شکایت بھی نہیں ہے ۔ ابھی پاناماکا مکمل فیصلہ آیا ہی نہیں مٹھائیاں بانٹنے کی کوئی ضرورت نہیں اس سے رہنمائی اور عبرت حاصل کرنی چاہیے ۔ لوڈ شیڈنگ کے بارے میں سوال پر انہوںنے کہا کہ دسمبر تک 6ہزار میگاواٹ بجلی نظام میں شامل ہوگی میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ عوام کی مشکلات کم ہونے والی ہے ۔ڈان لیکس کے معاملے پر بات کرتے ہوئے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ نیوز لیکس کی رپورٹ پاناما کیس کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی جو پیر یا منگل کو وزیراعظم کو پیش کردی جائے گی جب کہ میں صرف اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں، نوازشریف یا عدالت کے سامنے نہیں۔