لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ دوسرے ممالک میں اپنے عزیزوں و دوستوں سے ملاقات کرے۔ وزیراعظم شنگھائی کانفرنس میں جا رہے ہیں جہاں ان کی مودی سے ملاقات متوقع ہے۔ یہ ان کی ذاتی ملاقات ہو گی کیونکہ ان کے آپس میں اچھے تعلقات ہیں۔ اس سے پہلے بھی حسین نواز اور نوازشریف بھارت میں مودی کو وزیراعظم بننے کی مبارکباد دینے گئے تھے۔ ان کے معاملات و مراسم پہلے سے موجود ہیں۔ سجن جندال کے حوالے سے یہ ٹیکنیکل مسئلہ ہے کہ انہیں پنڈی، اسلام آباد تک رہنے کی اجازت تھی اور وہ مری کیسے چلے گئے، قومی اسمبلی میں بھی یہ بات ہو رہی ہے، اس پر حکومتی خاموشی مناسب نہیں۔ وزیرداخلہ کو چاہئے کہ پریس ریلیز جاری کرے کہ جندال کو مری جانے کی باضابطہ اجازت دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے چیئرمین نیب بارے سخت ریمارکس تھے۔ جب فیصلہ آیا تھا تو اس وقت میں نے کہا تھا کہ حکومت کو وضاحت کرنی چاہئے کہ عدالتی ریمارکس کے بعد بھی وہ قمرزمان چودھری کو عہدے پر کیوں برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ عدالت نے بہت صاف کہا تھا کہ چیئرمین نیب سے کوئی توقع نہیں، ان کی کارکردگی غیر تسلی بخش ہے۔ قمرزمان چودھری کو بھی چاہئے کہ وہ عدالت میں جا کر اپنے خلاف یہ ریمارکس حذف کروائیں اور حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ان کو برقرار رکھنے کی وضاحت کرے۔ آصف زرداری آج کل بڑے سیاسی حملے کر رہے ہیں ان کو بھی نیب کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہئے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ جن کی مشاورت سے چیئرمین نیب کی تقرری ہوئی وہ بھی وزیراعظم کے استعفے کی بات کرتے ہیں لیکن نیب کے معاملے پر خاموش ہیں۔ یہ خاموشی آئینی و قانونی طور پر ٹھیک نہیں۔ عدالت میں پی ٹی آئی کی رٹ کے بعد واضح ہو جائے گا یا تو یہ ریمارکس ختم کرنا پڑیں گے اگر ٹھیک تھے تو پھر عدالت کو صرف ریمارکس تک نہیں رہنا چاہئے بلکہ حکومت کو نیب سربراہ کی تبدیلی کیلئے ہدایت کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں و تنظیمیں عدالتی فیصلے کے صرف اس حصے کو اجاگر کرتی ہیں جو ان کے حق میں ہو۔ آصف زرداری بھی 2 ججز کے اختلافی نوٹ کی بنیاد پر نوازشریف سے استعفیٰ کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن چیئرمین نیب کے معاملے پر خاموش ہیں۔ بہر حال اب سپریم کورٹ میں معاملہ چلا گیا ہے، فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا ریاض پیر زادہ کا استعفیٰ دینا، پہلا موقع نہیں۔ وہ مختلف سیاسی جماعتوں میں رہے ہیں۔ پہلے بھی ناراض ہو کر استعفیٰ دے دیتے تھے لیکن اب عام طور پر یہ سمجھا جا رہا تھا کہ وہ خوش نہیں جس کی وجہ وزیراعظم سے ملاقات کا وقت نہ ملنا ہو سکتا ہے کیونکہ نوازشریف کا حکومت کرنے کا اپنا سٹائل ہے۔ کچھ خاص وزراءکو تو وہ وقت دے دیتے ہیں جبکہ باقی وزراءکو ملاقات میں مشکل ہوتی ہے۔ ماضی کا ایک قصہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب نوازشریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو جاوید ہاشمی وزیر صحت تھے۔ مجھے کچھ معلومات کی تصدیق کیلئے وزیراعظم سے ملنا تھا۔ اس وقت ان کے پرنسپل سیکرٹری انور زاہد تھے، میں نے ان کو فون کر کے ملاقات کا وقت مانگا، انہوں نے مجھے بلا لیا۔ جب میں گیا تو مجھے وہاں بٹھا دیا گیا کہ اجلاس جاری ہے ختم ہوتے ہی آپ کی ملاقات کروا دیں گے۔ میں نے وہاں جاوید ہاشمی کو دیکھا، ان سے حال احوال پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ وزیراعظم سے ملنے آئے ہیں۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ آپ تو کابینہ میں ہیں۔ کابینہ اجلاس میں بھی ملاقات ہوتی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس میں بہت لوگ ہوتے ہیں جبکہ میں نے ان سے اہم بات کرنی ہے۔ یہ 3,2 فائلیں میرے پاس ہیں لیکن وہ بہت مصروف ہیں، ملنے کا وقت نہیں مل رہا۔ جاوید ہاشمی نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ کی ملاقات ہو تو آپ میری سفارش کر دیں، جس پر میں نے کہا کہ میں کون ہوتا ہوں سفارش کرنے والا، آپ خود ان کے ساتھی ہیں۔ میاں صاحب باہر نکلے تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں وزارت خارجہ تک جا رہا ہوں آپ میری گاڑی میں بیٹھیں راستے میں بات کر لیں گے۔ میں ان کی گاڑی میں بیٹھ گیا راستے میں نوازشریف سے جاوید ہاشمی کی بات کی تو وہ ہنس پڑے اور کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے بس تھوڑی مصروفیت زیادہ ہے۔ میرے خیال میں ریاض پیرزادہ کا بھی اصل میں یہی دکھ ہو گا کہ انہیں بھی ملاقات کا وقت نہیں ملتا ہو گا۔ آصف کرمانی ان کو منانے گئے ہوئے ہیں۔ میاں صاحب سے ملاقات ہو جائے گی تو معاملہ ختم ہو جائے گا۔ ریاض پیرزادہ سے پوچھنے والی بات یہ ہے کہ انہیں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی کرپشن کا کب پتہ چلا، پہلے کبھی بات نہیں کی اچانک انکشافات کر دیئے۔ سیکرٹری بڑے منہ زور ہوتے ہیں، اس قسم کے وزیروں کی کم ہی سنتے ہیں جبکہ اسحاق ڈار جیسے وزراءکی مان لیتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ ان کی نہ مانی تو چھٹی ہو جائے گی۔ میرے خیال میں ریاض پیرزادہ کی سیکرٹری کے ساتھ کچھ تلخی ہوئی ہو گی تو اچانک کرپشن یاد آگئی۔ انہیں الزام کا ثبوت بھی دینا چاہیے۔ اس پر ضیاشاہد نے ایک مصرعہ کہا ”کب کھلا تجھ پر یہ راز“ انہوں نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے کہ مک مکا ہو جائے گا شاید سیکرٹری تبدیل کر دیا جائے اگر نہیں ہوا تو پھر تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی موجود ہیں۔ ریاض پیرزادہ نعرہ مستانہ لگا کر ادھر چلے جائیں۔ پہلے بھی پارٹیاں بدلتے رہے ہیں اب بھی بدل لیں۔ وزارت بہت کر لی اب ذرا دوسری جانب بھی مزے لیں۔ کرپشن کا راگ تو تمام اپوزیشن جماعتیں الاپ رہی ہیں۔ زرداری صاحب کا کرپشن کی بات کرنا واقعی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے، وہ خود اس میدان کے شیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان 10ارب روپے کی پیشکش کا ثبوت بھی لائیں لیکن ان کےلئے یہ ثابت کرنا بہت مشکل ہوگا۔ عدالت میں کئی چیزوں کو ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ وہ آڈیو ویڈیو ثبوت نہیں مانتی۔ عمران خان اگر آڈیو، ویڈیو ثبوت دینگے تو پھر اس کی تصدیق کے شواہد بھی دینا ہونگے۔ وزیرقانون پنجاب رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم سے سجن جندال کی ملاقات کے حوالے سے پارٹی کا کوئی مو¿قف نہیں اور حکومت کو مو¿قف رکھنے کی ضرورت بھی نہیں۔ حکمرانوں کی ذاتی زندگی بھی ہوتی ہے۔ قریبی عزیز، رشتے دار اور دوست بھی ہوتے ہیں، ان سے ملنے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ وزیراعظم نواز شریف اور حسین نواز جب بھارت میں ان کے گھر گئے تھے تو انہوں نے واضح مو¿قف دیا تھا کہ سجن جندال کے ساتھ ان کا ذاتی تعلق ہے۔ مودی کا پیغام لیکر آنے کے الزامات غلط ہیں۔ جب دونوں فریقین میں سے کسی نے ا یسی بات نہیں کی تو پھر الزامات لگانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ سجن جندال کا ویزہ جڑواں شہروں تک رہنے اور پھر مری چلے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کہیں جانا چاہے تو حکومت اجازت دے سکتی ہے، قانون میں اس کی گنجائش ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ اس پر عدالتی کارروائی ہو۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا پر کوئی نہ کوئی خبر تو چلنی ہے اگر یہی چلتی رہے تو اچھا ہے 2دن اور نکل جائیں گے۔