تازہ تر ین

عمران خان پھنس گئے ….؟

اسلام آباد(ویب ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کیخلاف مبینہ منی لانڈررنگ و ٹیکس چوری کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ فرضی باتوں پر کسی کو نااہل نہیں کرسکتے، ٹھوس شواہد کے بغیر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی صادق اور امین نہیں، صادق اور امین نہ ہونا ساری عمر کا دھبہ ہے جبکہ درخواست گذار حنیف عباسی نے دو متفرق درخواستیں دائر کردی ہیں جن میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ایف بی آر عمران خان کے ٹیکس گوشوارے فراہم نہیں کررہا جبکہ ٹیکس ریکارڈ تک رسائی بنیادی حق ہے، اس لئے عدالت ایف بی آر کو ٹیکس ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم جاری کرے، درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ بنی گالہ اراضی کیلئے راشد خان نامی شخص کے اکاونٹ سے رقم منتقلی ہوئی اس لئے درخواست ہے کہ راشد خان کا عمران خان سے تعلق سامنے لایا جائے اورراشد خان کے بینک اکاونٹس کی تفصیلات بھی سامنے لائی جائیں اور بتایا جائے کہ راشد خان کو رقم کس نے منتقل کی؟ عدالت عظمی نے دونوں درخواستوں پر عمران خان کو نوٹس جاری کردئیے اور آج تک جواب طلب کرلیا ہے ، درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ نے عمران خان کے 2002 اور 2013 کے کاغذات نامزدگی عدالت میں جمع کرادیئے ہیں ۔جبکہ عدالت عظمی نے کیس کی سماعت آج(منگل)ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی ہے ۔،عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ کی ۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہاکہ پاور آف اٹارنی اور ٹویٹ کی گفتگو کی اہمیت الگ ہوتی ہے، جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ عمراں خان کی اہلیہ جمائمہ خان نے پاور آف اٹارنی 2005 میں طلاق کے بعد دیا اور طلاق کے بعد جمائمہ کسی دباﺅ میں نہیں تھیں، جس پر اکرم شیخ نے کہاکہ پاور آف اٹارنی میں جمائمہ نے تسلیم کیا کہ جائیداد عمران نے خریدی چیف جسٹس نے کہاکہ بے نامی جائیداد کا معاملہ جمائمہ یا عمران نے چیلنج نہیں کی جبکہ درخواست گزار حنیف عباسی کا کوئی حق متاثر نہیں ہوا، تو چیلنج کیسے کرسکتے ہیں بے نامی ٹرانزیکشن کو تو صرف قانونی ورثا چینلج کرسکتے ہیں، اکرم شیخ نے کہاکہ جس راشد خان کے اکاونٹس سے رقم منتقل ہوئی اسے سامنے لایا جائے کیونکہ عمران خان اور جمائمہ کے موقف میں تضاد ہے، میزان عدل سب کیلئے یکساں ہوتا ہے،جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ٹیکس معاملات میں میاں بیوی کا اکاونٹ ایک ہی تصور ہوتا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ میاں اور بیوی کا معاملہ تھااگر جمائمہ نے تحفہ دیا تو اعتراض کس بات کا ہوسکتا ہے، جسٹس عمر عطاکا کہنا تھا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ عمران اور جمائمہ کو غلط قانونی مشورہ دیا گیا، اس بات سے تو کسی کی نااہلی نہیں ہوسکتی اکرم شیخ نے کہاکہ جمائمہ نے کہا کہ انہوں نے عمران خان کو کوئی رقم نہیں دی، جسٹس عمر عطاب بندیال نے کہاکہ ریکارڈ سے جمائمہ کا یہ بیان دکھائیں اکرم شیخ نے جواب دیاکہ جمائمہ نے ٹویٹر پر کہا کہ عمران نے ان سے کوئی قرض نہیں لیا،، جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ ایسا فراڈ جسکا کوئی نقصان نہ ہو اسے فراڈ نہیں کہتے جب یہ معاہدہ ہوا تب عمران خان عوامی عہدہ نہیں رکھتے تھے، جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ آپ کی بات درست مان لیں تو بھی کسی کا نقصان نہیں ہوا جبکہ کوئی ٹیکس بھی نہیں چوری ہوا۔ اکرم شیخ نے جواب دیا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن، ایف بی آر کو بتایا کہ اراضی تحفے میں ملی جبکہ الیکشن کمیشن ریکارڈ فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھا جسٹس عمر عطابندیال نے سوال اٹھایاکہ کیا ا عمران اور جمائمہ کے درمیان تحفے کی کوئی ڈیڈ ہے، جسٹس فیصل عرب نے سوال کیاکہ ایک بھائی دوسرے بھائی کو پلاٹ لے کردے تو کیا وہ گفٹ نہیں ہوگا،چیف جسٹس نے کہاکہ جسکا گفٹ سے کوئی تعلق نہ ہو تو اسے کوئی چیلنج نہیں کرسکتاجمائمہ نے بھی رقم کا لین دین گوشواروں میں درج کیا ہوگا، انہوں نے مزید کہاکہ بنی گالہ اراضی کا سودا 4 کروڑ، 35 لاکھ میں ہوا،لندن فلیٹ 6 کروڑ، 30 لاکھ میں فروخت ہوا،اکرم شیخ نے کہاکہ جمائمہ سے 3 کروڑ، 90 لاکھ ادھار لے کر واپس کیے گئے،لندن فلیٹ کے بقایا 2 کروڑ، 40 لاکھ کہاں گئے اس لئے بظاہر یہ معاملہ منی لانڈرنگ کا لگتا ہے، کیونکہ 31 اگست 2002 کو لندن سے دو ٹرانزیکشن ریکارڈ پر ہیں ایک ٹرانزیکشن 45 ہزار پاونڈ، دوسری 20 ہزار پاونڈ کی ہوئی،ایک عدالتی سوال پر انہوں نے کہاکہ منی لانڈرنگ کی اصلاح چیف صاحب کو مجھ سے ذیادہ بہتر ہوگی جس پر چیف جسٹس نے برجستہ جواب دیا کہ میں منی لانڈرنگ نہیں کرتا اکرم شیخ نے کہاکہ جمائمہ خان کہتی ہے کہ وہ بے نامی دار ہیں، رقم جمائمہ کی تھی تو وہ بے نامی دار نہیں ہوسکتیں،تاہم بنی گالہ اراضی بے نامی تھی اوربے نامی اراضی تحفے میں نہیں دی جاسکتی،ان کا کہنا تھا کہ باقی رقم چھ اقساط میں ادا کی گئی، عمران خان کے مطابق باقی رقم جمائمہ خان سے لی لیکن جمائمہ خان کیطرف سے رقم کی منتقلی ثابت نہیں ہوتی، اکرم شیخ نے کہاکہ رقم منتقلی کا ثبوت دینا عمران خان کی ذمہ داری ہے، عمران خان نے سٹی بنک کا کرنسی تبدیل کا سرٹیفکٹ دیا ہے جس کے مطابق رقم ڈالر سے روپے میں تبدیل ہوئی اگر جمائمہ نے رقم دینا ہوتی تو پاونڈ میں دیتی،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ لندن میں اکاونٹ کسی بھی کرنسی میں کھلوایا جاسکتا ہے، آپ کو اعتراضات کرتے وقت سنجیدگی کا معیار بڑھانا ہوگاکیونکہ کسی نے یہ تصدیق نہیں کی کہ رقم جمائمہ کے اکاونٹ سے منتقل ہوئی جس پر اکرم شیخ نے کہاکہ یہ کیس اس شخص کا ہے جو خود کو آئندہ کا وزیراعظم کہتا ہے عمران خان کوئی عام آدمی نہیں، اگر رقم جمائمہ نے دی تو لین دین بھی ثابت کریںکیونکہ لندن اونٹ بھی نہیں ہوتے جس کے ذریعے رقم منتقل ہو، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ آپ کے مطابق اس رقم کی منتقلی کی کوئی منی ٹریل نہیں اگر منی ٹریل نہ ہو تو کیا ہوگا، ، اکرم شیخ نے جواب دیا کہ میرے بچے بھی باہر پڑھتے رہے ہیں میںرقم خرید کر انکے اکاونٹ میں جمع کرواتا ہوں انہوں نے کہاکہ کوئی تو وجہ ہوگی کہ آف شور کمپنی کو زندہ رکھا گیا لندن والے اللہ واسطے تو کوئی کام نہیں کرتے وہ تو کھاتے ہی سروسز فراہم کرنے کا ہے،انہوں نے کہاکہ بارکلے ٹرسٹ، جرسی لمٹیڈ اور بارکلے ٹرسٹ بھی نیازی سروسز کے شیئر ہولڈرز ہیں،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ جن شیئر ہولڈرز کا آپ نے ذکر کیا وہ بنک ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ 12 سال کمپنی زندہ رکھنے کو بدنیتی کیسے ثابت کریں گے اور اگر نیازی سروسز کا کوئی دوسرا اثاثہ نہ ہوا تو آپ کا کیا موقف ہوگا جس پر اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان کو پھر بھی آف شور کمپنی ظاہر کرنا چاہیے تھی دیکھنا ہوگا کہ نیازی سروسز نقصان میں جارہی تھی یا کمپنی سونے کے انڈے دے رہی تھی، اکرم شیخ نے کہاکہ اس حوالے سے کچھ بھی ظاہر نہیں کیا گیا، انہوں نے کہاکہ 13 مارچ 2002 کو بنی گالہ اراضی کی خریداری کا معاہدہ ہواجس کے تحت 65 لاکھ روپے ایڈوانس دئیے گئے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عمران خان نے آف شور کمپنی نہیں فلیٹ کو ظاہر کیا اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عمران خان نے 17 سال آف شور کمپنی اور فلیٹ کو چھپایاچیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے سوال اٹھائے کہ نعیم بخاری صاحب آپ کو آف شور کمپنی کی تفصیلات دینا ہونگی، آف شور کمپنی کیسے بنی ہے اور اسکا مالک کون ہوتا ہے؟ مالک اور بینفیشر مالک میں کیا فرق ہوتا ہے؟ کیا کمپنی متعلقہ ملک کے قانون کے مطابق ٹیکس بچانے کیلئے ہوتی ہے؟کیا ٹیکس ایمنسٹی سے فائدہ اٹھانا غیرقانونی ہے؟چیف جسٹس نے کہاکہ عام آدمی کو ٹیکس قانون کا علم نہیں ہوتازیادہ تر لوگ کنسلٹنٹ اور اکاونٹنٹ کے کہنے پر ہی چلتے ہیں۔اکرم شیخ نے کہاکہ چند سو روپے کا بھی بنک اکاونٹ ہو تو بھی ظاہر کرنا ضروری ہے اگرفلیٹ 2003 میں فروخت ہوا تو نیازی سروسز 2015 تک کیوں چلی اور12 سال تک کمپنی فیس، وکلا کو ادائیگیاں کیوں ہوئیںاس عمل سے لگتا ہے کہ نیازی سروسز کے اور بھی اثاثے تھے، اکرم شیخ نے کہاکہ کیا 12 سال کمپنی انڈے دیتی رہی ہے،انہوں نے دعوی کیاکہ دیگر اثاثے آج بھی عوام سے چھپائے گئے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ یہ معاملہ تو آسانی سے حل ہوسکتا ہے فرضی باتوں پر کسی کو نااہل نہیں کرسکتے، ٹھوس شواہد کے بغیر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی صادق اور امین نہیں انہوں نے کہاکہ صادق اور امین نہ ہونا ساری عمر کا دھبہ ہے اکرم شیخ نے سوال اٹھایا کہ 350 پاﺅنڈ کمپنی فیس اور سولیسٹر کو 1000 پاﺅنڈ فیس کیوں دی جاتی رہی،چیف جسٹس نے سوال کیا کی کیا ماضی کے اقدام پر کسی کو کہہ سکتے ہیں کہ صادق اور امین نہیں؟جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ انکم ٹیکس گوشواروں میں آف شور کمپنی کا ذکر نہیںآپ نے عمران خان کے ٹیکس گوشوارے تو دیکھے ہی نہیں کیونکہ آپ خود تسلیم کررہے ہیں کہ آپکے پاس ریکارڈ موجود نہیں چیف جسٹس نے کہاکہ متعلقہ ریکارڈ تک رسائی کیلئے درخواست دیں تاہم آپ کے دلائل سن کر متعلقہ فریقن کو نوٹس جاری کریں گے، جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ عمران خان کے جواب میں فلیٹ کی قیمت درج ہے اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان فلیٹ کے مالک نہیں، فلیٹ آف شور کمپنی کا ہے جسٹس عمر نے کہاکہ آپ تکنیکی بنیادوں پر کھیل رہے ہیںحالانکہ عمران خان نے جائیداد چھپائی نہیں۔آپ کا کیس کپیٹل اثاثوں سے متعلق ہے اور جس قانون کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ انکم ٹیکس سے متعلق ہے انہوں نے استفسار کیاکہ غیرملکی اثاثوں کو ظاہر کرنا کس قانون کے تحت ضروری ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا اثاثے ظاہر نہ کرنے سے نااہلی کا سوال پیدا ہوتا ہے؟ اثاثے ظاہر نہ کرنے کے نتائج قانون میں درج ہیں اکرم شیخ نے جواب دیا کہ جان بوجھ کر اثاثے ظاہر نہ کرنا غلط بیانی کے زمرے میں اتا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ انکم اور ویلتھ ٹیکس قوانین کو مکس کررہے ہیں اکرم شیخ نے کہاکہ ریکارڈ تک ہماری پہنچ نہیں ہے۔عمران خان نے جان بوجھ کر اثاثے چھاپے اور اثاثوں سے متعلق غلط بیانی کے بعد عمران خان صادق اور امین نہیں رہے، جسٹس فیصل عرب نے سوال کیاکہ کیا صرف کمپنی یا اس میں شیئر ہونا بھی اثاثہ ہے؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ فلیٹ کی فروخت کے بعد نیازی سروس صرف شیل کمپنی رہ گئی ہوگی، اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان نے 20 ملین کا کالا دھن ٹیکس ایمنسٹی میں سفید کیاچیف جسٹس نے کہاکہ کیاآپ کا نقطہ یہ ہے کہ عمران نے ویلتھ اسٹیمنٹ می آف شورکمپنی ظاہر نہیں کی۔بتایاجائے کہ گوشواروں میں اثاثوں کو ظاہر نہ کرنے کے نتائچ کیا ہوں گے؟ اکرم شیخ نے کہاکہ پالکی والا کیس اور دولت ٹیکس ایکٹ 1963 پڑھا ہے،سال 2000 تک ٹیکس نیازی سروسز پر لاگو ہوتا تھا اور نیازی سروسز کا اثاثہ لندن فلیٹس 2003 میں فروخت ہوا اکرم شیخ کے دلائل جاری تھے کہ عدالتی وقت ختم ہونے پر کیس کی سماعت آج (منگل تک ملتوی کردی گئی ۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain