تازہ تر ین

مہنگائی برقرار،بڑے اہداف حاصل نہ ہوسکے, اسحاق ڈار کا بڑا اعلان

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اکنامک سروے 2017ء2018ءپیش کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے دھرنے کے سبب ڈالر کی قدر 5 روپے بڑھی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹیکس ریکارڈ سے متعلق پیپلز پارٹی کے اعداد و شمار گمراہ کن ہیں۔ وزیر خزانہ کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق، پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا ہے، مجموعی قرض بڑھ کر بیس ہزار آٹھ سو بہتر ارب ہو گئے ہیں تاہم اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف سے رجوع نہ کرنے کا اعلان کیا ہے، کہتے ہیں فی کس آمدن سولہ سو انتیس ڈالر ہو گئی ہے۔ اکنامک سروے کے مطابق، پاکستان کی معاشی ترقی آٹھ سال کے بعد پہلی بار پانچ اعشاریہ تین فیصد ہو گئی ہے، تاہم ہدف پانچ اعشاریہ سات فیصد مقرر کیا گیا تھا۔ صنعتی شعبے میں بہتری کا رجحان ہے جبکہ پاکستانی معیشت تین سو ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ آئندہ ماہ سال کیلئے ترقی کا ہدف چھ فیصد ہونے کا امکان ہے۔گزشتہ مالی سال کے دوران کیا کھویا؟ کیا پایا؟ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اقتصادی سروے پیش کر دیا۔ انہوں نے نوید سنائی کہ پاکستان کی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے، جلد جی ٹونٹی میں شامل ہو جائیں گے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ کرنٹ اکاو¿نٹ خسارہ سوا 7 ارب ڈالر ہو گیا ہے، مجموعی سرمایہ کاری پانچ ہزار چھبیس ارب روپے ہو گئی ہے اور صنعتی شعبے میں بہتری کا رجحان ہے۔ زرعی ترقی کی شرح میں وزیر اعظم کے کسان پیکج نے اہم کردار ادا کیا۔ چاول اور گنےکی پیداوار میں 4 اعشاریہ 12 فیصد اضافہ ہوا۔غربت کی شرح میں بہتری ہوئی ہے۔ فی کس آمدن بائیس فیصد بڑھ کر 1629 ڈالر ہوگئی ہے۔ دہشتگردی کے باعث پاکستان کو اب تک ایک سو تیئس ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ حکومت ہر سال دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لئے سو ارب روپے مختص کرتی ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ عوام کو ریلیف دینے کیلئے ٹیکس ریونیو ہدف سے کم رہے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ 10 برس میں پہلی مرتبہ معاشی شرح نمو 5 فیصد سے تجاوز کرگئی ہے جب کہ اسے عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا جارہا ہے۔ اسلام آباد میں مالی سال برائے 17-2016 کے اقتصادی جائزے کے خدوخال بیان کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ 2013 میں معاشی شرح نمو 3 فیصد تھی جو اب 5 فیصد سے بڑھ چکی ہے جب کہ ملکی معیشت کا حجم 300ارب ڈالر کے حجم سے تجاوز کر گیا ہے۔ گزشتہ دس برس کے دوران پہلی مرتبہ ہماری جی ڈی پی 5 فیصد سے زائد رہی، جی ڈی پی میں اضافے کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جارہا ہے۔ ہمارے ملک میں جی ڈی پی کا تخمینہ لگانے کا طریقہ کافی پرانا ہے، جسے تبدیل کیا جارہا ہے، عالمی بینک اگلے سال پاکستان کی جی ڈی پی کا نیا طریقہ کار متعارف کرائے گا۔اسحاق ڈار نے کہا کہ معیشت کے تمام شعبوں میں ترقی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، ملک کی جی ڈی پی میں خدمات کا حصہ 60 فیصد رہا، زراعت کا حصہ 19.53 فیصد جب کہ صنعتوں کا حصہ 28.88 فیصد ہے۔ زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 3.46 فیصد جبکہ خدمات کے شعبے میں 5.98 فیصد ترقی ہوئی۔ رواں مالی سال 475ارب روپے کے زرعی قرضے جاری ہوئے، زرعی پیداوار میں گندم ، مکئی، چاول، کپاس اور گنے کی فصلوں نے بہتر ترقی کی، گندم کی پیداوار 25.75 ملین ٹن، چینی کی پیداوار 73.61 ملین ٹن جب کہ کپاس کی پیداوار ایک کروڑ 7لاکھ گانٹھیں رہی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح 4.06 جب کہ فی کس سالانہ آمدنی 1629 ڈالر رہی۔ درآمدات کا حجم 37 ارب 84 کروڑ ڈالر جب کہ برآمدات کا حجم 21 ارب 76 کروڑ ڈالر رہا، دس ماہ میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ سوا 7 ارب ڈالر رہا جب کہ رواں سال مالیاتی خسارہ 4.2 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ 10ماہ میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ایک ارب 73 کروڑ ڈالر رہی جب کہ سال کے آخر تک بڑھ کر 2 ارب 58 کروڑڈالر تک ہوسکتی ہے، بیرون ملک سے بھجوائی جانے والی ترسیلات زر میں 2.6 فیصد کمی ہوئی جس کے بعد رواں مالی کے دوران غیر ملکی ترسیلات زر 19 ارب 50 کروڑ ڈالر تک رہنے کا امکان ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ نائن الیون کے بعد حکمران ایک ٹیلی فون کال پر لیٹ گئے تھے، پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی دہشت گردی کے خلاف ایکشن لینے کا فیصلہ نہ کر سکے،اس جنگ میں 25 ہزار لوگ شہید اور 25 ہزار افراد زخمی ہوئے، اس جنگ سے پاکستان کو ہر سال 90 سے 100 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے،اس جنگ سے ہمیں اب تک ملکی معیشت کو 123ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، دہشت گردی کے اخراجات اپنے بجٹ سے ادا کررہے ہیں کسی غیر ملکی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا رہے، رواں برس بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اخراجات کی مد میں 101 ارب روپے رکھے جائیں گے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ ہم سب کا پاکستان ہے کسی ایک پارٹی کا نہیں، معاشی اہداف پورا نہ ہونے کی ہیڈ لائن لگانا آسان ہے لیکن موجودہ حکومت مشکل معاشی اہداف کے حصول پر یقین رکھتی ہے، رواں مالی سال ملک میں بے روزگاری کی شرح 5.9 فیصد جب کہ غربت کی شرح 29 فیصد رہی ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مستحکم رکھنے سے قومی خزانے کو 120 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ پاکستان پر اندرونی قرضے 20 ہزار 892 ارب روپے جب کہ غیر ملکی قرضے مارچ تک58.4ارب ڈالر ہے۔ اس وقر ہمارے ملکی قرضے مجموعی جی ڈی پی کے 60 فیصد سے کم جب کہ شرح منافع 43 سال میں سب سے کم سطح 5.75 فی صد پر موجود ہے۔پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پاکستان گذشتہ تین سال دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 90 سے 100 ارب روپے سالانہ خرچ کر رہا ہے اور جمعے کو پیش کیے جانے والے بجٹ میں بھی اِس مد میں 100 ارب مختص کیے جا رہے ہیں۔ جمعرات کے روز اسلام آباد میں اقتصادی سروے 2016-17 پیش کیے جانے کے موقعے پر اپنے خطاب میں ا±نھوں نے بتایا کہ عالمی امن کی خاطر پاکستان میں لڑی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک پاکستان میں 25 ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں جن میں مسلح افواج کے اہلکار بھی شامل ہیں اور اتنی ہی تعداد زخمیوں کی ہے۔ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان شدت پسندی کے خلاف جنگ میں 123 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کر چکا ہے۔ انھوں نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اس رقم سے پاکستان دہشت گردی سے متاثر ہونے والوں کی بحالی، آبادکاری و تعمیر، عارضی طور پر بے گھر افراد کی سواری کے اخراجات، ا±ن کے اناج اور اِس میں 57 سول آرمڈ وِنگز کی تشکیل کے اخراجات بھی شامل ہیں۔ اقتصادی سروے کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے دس سال کے دوران پہلی بار پانچ فیصد کی سطح سے آگے بڑھ کر 5.28 فیصد کی شرح سے مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی کا ہدف حاصل کیا ہے اور جی ڈی پی میں تیزی کا یہی رجحان گذشتہ تین سال سے دیکھنے میں آرہا تھا جسے برقرار رکھا گیا ہے۔‘وزیرِ خزانہ کے مطابق پاکستان کی معیشت کا حجم پہلی بار 300 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے جو ایک تاریخی موقع ہے۔اس سوال کے جواب میں کہ گذشتہ سال پاکستان کی جی ڈی پی کا ہدف 5.70 طے کیا گیا جو حاصل نہیں ہو سکا اور اب آئندہ برس کے لیے یہی ہدف چھ فیصد کے قریب طے کیا جا رہا ہے تو اِس کیسے حاصل کیا جائے گا؟اِس سوال کے جواب میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا: ‘ملک کی معیشت کو سیاست سے علیحدہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جی ڈی پی جیسے اہم قومی اہداف حاصل کیے جا سکیں، ہمیں سنہ 2030 کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینا ہو گا تاکہ پاکستان جی20 ممالک کا رکن بن سکے۔اقتصادی سروے کی رپورٹ کے مطابق حکومت رواں سال معاشی ترقی، برآمدات، سرمایہ کاری سمیت اپنے ہی طے کیے گئے اہم اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ ٹیکس محصولات کا ہدف 3621 ارب روپے جبکہ وصولیاں 3500 ارب ہی ہو سکیں۔ معاشی ترقی کا مقررہ ہدف 5.70 فیصد طے کیا گیا تھا جبکہ ا±س کی شرح صرف 5.28 فیصد رہی۔ بر آمدات میں تین ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔ البتہ مہنگائی کی شرح چھ فیصد سے کم رکھنے کا ہدف حاصل کر لیا گیا جبکہ درآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔اس کے علاوہ صنعتوں کی ترقی 7.7 فیصد ہدف کے مقابلے میں صرف 5.02 فیصد رہیں۔ افراط زر کی اوسط شرح 4.09 فیصد تک رہی۔وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اگر مےں 2019ءتک وزےرخزانہ رہا تو پاکستان کو آئی اےم اےف کے پاس نہےں جانا پڑے گا معیشت کو سیاست سے الگ ہونا چاہیے 10سال بعد پاکستان نے جی ڈی پی کی شرح 5فےصد سے زاید حاصل کی ہے جو کہ خوش آیند ہے پاکستان کی اکانومی 300ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے آئندہ مالی سال کے دوران جی ڈی پی کا ٹارگٹ 6فیصد تک لے جاتیں گے ورلڈ بنک کے اندازے کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی 20فےصد انڈرسٹےٹڈ ہے اس حوالے سے ایک روپوٹ تیار کروارہے ہیں تاکہ حقایق کا پتہ لگ سکے کہ پاکستان کا کون سا سیکٹر اکانومی میں حصہ نہیں ڈال رہا زراعت کے شعبہ میں بتدریج ترقی ہو ہی ہے افراط زر کو 8.59فےصد سے کم کرکے 4.09فےصد کی سطح پر لے آئے ہےں برآمدات مےں اضافہ نہ ہونا تشوےشناک ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain