لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں، تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ نگار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ہماری سیاست اب جھوٹ کا نام بن چکی ہے۔ نہال ہاشمی نے خود عدالت سے کہا کہ میں خدا سے معافی مانگتا ہوں عدالت سے بھی معافی مانگتا ہوں۔ اب ان کے دل میں کیا آیا کہ انہوں نے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ سیاستدان بے ضمیرے لوگ ہیں۔ سچ اور اخلاقیات ان سب کا جنازہ نکل چکا ہے۔ ہو سکتا ہے دو چار دن بعد وہ پھر بدل جائیں اور کچھ دوسرا بیان دے ڈالیں۔ میاں نوازشریف صاحب تو خود شیر ہیں۔ ”شیر انڈہ دے یا بچہ دے؟“ انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ایک دفعہ وہ کہتے ہیں کہ 2018ءکا بجٹ بھی ہم پیش کریں گے۔ پھر سننے میں آیا کہ اگر وہ وزارت عظمیٰ سے علیحدہ ہوئے تو احسن اقبال وزیراعظم ہوں گے۔ تین دن بعد دونوں بھائی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم لاہور کے ہر حلقے میں جائیں گے۔ لہٰذا ان کے بارے میں کچھ کہنا بھی ممکن نہیں۔ وہ بادشاہ ہیں ہمیں ان سے شکایات کا گلہ نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اشرف غنی کے بیان پر فوج کا بڑا سخت ردعمل آ یا ہے۔ امریکہ اگر مزید نیٹو کی فوج بھی افغانستان بھیج دے تو وہ پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کابل کا بڑا حصہ ”بھوتوں کا شہر“ کے نام سے مشہور ہے ۔ وہاں گھروں کا عجیب نقشہ ہے۔ روس کے جانے کے بعد وہاں کے شمالی اور جنوبی اتحاد نے ایک دوسرے کے خلاف اپنے ہی شہروں کو توپوں سے تباہ کیا۔ مہینوں تک یہاں بمباری ہوتی رہی۔ کلمہ گو لوگوں نے خود ایک دوسرے کو اس قدر تباہ کیا کہ یہ بھوتوں کا شہر بن گیا ہے۔لوگ اسے دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ وہاںجو انسان رہ رہے ہیں، مسلسل جنگ سے ان کے دل پتھر کے ہو گئے ہیں افغانستان کے 70 فیصد علاقوں پر افغان حکومت کا قبصہ نہیں بلکہ طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ افغانستان تباہ شدہ ملک، تباہ شدہ معیشت والا ملک ہے۔ امریکہ کی مدد کے بغیر وہ ایک دن نہیں چل سکتا۔ وہاں بھارت کا رول بہت اہم ہو گیا ہے۔ افغانیوں کو اگر شیطان بھی مدد دے اور روٹی کا نوالہ دے دے تو وہ اسی کے ساتھ ہو جائیں گے۔ عبدالقیوم خان نے اپنی کتاب ”گولڈ اینڈ گن“ میں لکھا ہے کہ افغان قوم بکاﺅ مال ہے، جو اسے سونا دے یا پستول دے وہ اس کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری ملک میں سب کو آزادی ہونی چاہئے کہ وہ جس جماعت کو چاہے جوائن کر لے۔ اگر پیپلزپارٹی کے کارکن تحریک انصاف میں جا رہے ہیں تو وہ ان کی مرضی ہے۔ فردوس عاشق اعوان ہو یا گوندل کسی کو بھی تحریک انصاف میں جا کر کچھ نہیں ملا۔ انعام اللہ نیازی، عمران خان کے کزن تھے۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر ہوتے تھے انہوں نے تحریک انصاف جوائن کر لی۔ عمران خان نے ان کے بھائی کو ٹکٹ نہیں دیا۔ وہ ان سے ناراض ہو کر الگ ہو گئے اور دوبارہ ن لیگ میں شامل ہو گئے۔سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ملک میں جے آئی ٹی کے ذریعے احتساب کا عمل شروع ہے، اصل احتساب ابھی شروع نہیں ہوا۔ اعلیٰ عدالت نے ڈرافٹ کر کے کچھ سوالات جے آئی ٹی کو دیئے۔ اب وہ سوالوںکے جواب اکٹھے کر رہے ہیں۔ یہ احتساب نہیں ہے۔ یہ کوائف اکٹھے ہو رہے ہیں۔ انکوائری ہو رہی ہے یہ تمام چیزیں اکٹھی ہو کر عدالت میں جانی ہیں۔ جب عدالت اور وکلاءکی کارروائیاں اور سماعتیں شروع ہوں گی تو احتساب کا عمل شروع ہو گا۔ احتساب ہونا چاہئے، انتقام نہیں ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ حسین نواز انکم ٹیکس ادا کرنے والے شخص ہیں اگر وہ جیل چلے بھی جاتے ہیں تو انہیں A کلاس دینا ہو گی یا ان کے گھر کو سب جیل قرار دینا ہو گا۔ پچھلی حکومتیں بھی یہی کرتی آئی ہیں۔ پارٹی بدلنا ایک جمہوری حق ہوتا ہے رانا ثناءاللہ بھی پیپلزپارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں آئے ۔ انعام اللہ نیازی مسلم لیگ ن کے رکن تھے۔ انہوں نے چھوٹے چھوٹے لوٹے بنوا کر پارٹی بدلنے والوں کی میزوں پر رکھ دیئے جس پر انہیں پارٹی نے ہیرو بنادیا۔ اب لوگ پیپلزپارٹی سے بدظن ہو کر تحریک انصاف میں جا رہے ہیں تو انہیں جانے دینا چاہئے۔ وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاداریاں تبدیل کرنا لوگوں کی اپنی مرضی ہے۔ اگر وہ پارٹی تبدیل کرتا ہے تو اسے اپنی پارٹی کا مینڈیٹ وہیں چھوڑنا چاہئے۔ اگر وہ اس طرح پارٹی بدلتا ہے تو اس کے خلاف احتجاج جائز ہے۔اگر کوئی اپوزیشن جماعت میں ہے اور اس کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔ اور وہ اقتدار کی خاطر اپنی پارٹی چھوڑتا ہے تو یہ بری بات ہے۔ لیکن ہر دو صورتوں میں انصاف سے بات کرنی چاہئے۔ اگر کوئی زیادتی کرتا ہے تو ضرور اس کے گھر کے سامنے لوٹے رکھیں اور احتجاج کریں۔ ہمارااصل ہدف اس وقت تحریک انصاف ہے جو تبدیلی کا نعرہ لگاتی ہے۔ اگر اس نے گھسے پٹے مہرے اپنے ساتھ ملانے ہیں تو یہ عمل ان کے نعرے سے میچ نہیں کرتا۔ اس لئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ آئین اور سسٹم کی بات کی ہے۔ ہم اسی کے ذریعے آگے جانے کی بات کرتے ہیں ہم نے کبھی انقلاب کا نعرہ نہیں لگایا۔ تحریک انصاف جو تبدیلی کا نعرہ لگا کر لوگوں کو گمراہ کرتی ہے، اسے زیب نہیں دیتا کہ کرپٹ لوگوں کا ٹولہ اکٹھا کرے اور نعرے تبدیلی کا لگائے۔ تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اشرف غنی کا یہ بیان کہ پاکستان ان پر غیر اعلانیہ جنگ مسلط کر رہا ہے بہت پرانا ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ پاکستان افغانستان میں امن نہیں چاہتا۔ حالانکہ افغانستان میں امن کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہو گا۔ افغان حکومت چاہتی تھی کہ طالبان کو کان سے پکڑ کر ہم ان کے حوالے کر دیں لیکن یہ اتنا آسان کام نہیں اسی لئے اب انہوں نے انڈیا سے دوستی کر لی ہے۔ انڈیا اور افغانستان آپس میں مل گئے ہیں اور ہر طرح سے پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہمارے مطالبات یہ ہیں کہ طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو افغانستان اپنی صفوں سے باہر نکالے۔ افغان حکومت امریکہ کی امداد کے بل بوتے پر کھڑی ہے امریکہ بھی سمجھتا ہے کہ پاکستان نے پورا ساتھ نہیں دیا۔ آپس میں شکوک و شبہات کے باعث دونوں ممالک میں اعتماد کی فضا نہیں ہے۔امریکہ پاکستان پر دباﺅ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اب اس مسئلے کا جلد حل ہونا ممکن نہیں بلکہ یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔
