اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک، ایجنسیاں) پانامہ لیکس کی تحقیقات میں جے آئی ٹی کو درپیش مشکلات سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی تفصیلات منظر عام پر آ گئیں۔ جے آئی ٹی کی جانب سے ریکارڈ ٹمپر کرنے کا بھی الزام لگایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اداروں سے ہماری خفیہ خط و کتابت میڈیا کو جاری کی جاتی ہیں اور ممبران اور اہلخانہ کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایس ای سی پی سے چودھری شوگر ملز اور شریف فیملی کیخلاف ہونے والی تمام انکوائریوں کا ریکارڈ طلب کیا تو ایس ای سی پی سے جواب ملا کہ شریف فیملی کیخلاف کوئی انکوائری ہوئی ہی نہیں۔ درخواست کے مطابق جے آئی ٹی ممبر عرفان نعیم منگی کو نیب نے شوکاز نوٹس تحقیقات سے توجہ ہٹانے کے لئے جاری کیا۔ آئی بی نے جے آئی ٹی رکن بلال رسول اور ان کے اہلخانہ کے اکاو¿نٹ ہیک کئے۔ 24 مئی کو آئی بی اہلکار بلال رسول کے گھر کے قریب چکر لگاتے رہے اور ملازم کو بھی دھمکایا۔ چیئرمین ایس ای سی پی کے حکم پر چودھری شوگر ملز کی تحقیقات کا ریکارڈ گزشتہ تاریخوں سے تبدیل کیا گیا۔ پاناما کیس کی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے سپریم کورٹ میں لرزہ خیز انکشافات کرتے ہوئے کہا کہ اداروں سے خفیہ خط و کتابت جان بوجھ کر میڈیا کو دی جاتی ہے جس کا مقصد تحقیقاتی عمل کو متنازعہ بنانا ہے جب کہ شریف فیملی کے خلاف انکوائری ریکارڈ تلاش کرنے سے منع کیا گیا۔ پاناما لیکس کی تحقیقات میں مصروف جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی سپریم کورٹ میں درخواست کی کاپی حاصل کر لی۔ جے آئی ٹی نے مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے اس کے کام میں رکاوٹیں ڈالنے سے متعلق شکایات پر مبنی درخواست سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی۔ درخواست میں وزارت قانون وانصاف انٹیلی جنس بیورو، سیکیورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان، قومی احتساب بیورو، ایف بی آر اور ملزموں پر سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی درخواست کے مطابق جے آئی ٹی نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن سے چودھری شوگر مل اور شریف فیملی کے خلاف ہونے والی تمام انکوائریوں کا ریکارڈ طلب کیا۔ اس کے جواب میں ایس ای سی پی نے اپنے خط میں بتایا کہ شریف فیملی کے خلاف کبھی کوئی انکوائری نہیں کی گئی۔ ایس ای سی پی کے گواہ کے مطابق چیئرمین نے شریف فیملی کے خلاف انکوائری ریکارڈ تلاش کرنے سے منع کیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین ایس ای سی پی کے حکم پر چودھری شوگر مل کی تحقیقات کا ریکارڈ تبدیل کیا گیا اور اس کے لئے ایس ای سی پی کے ای ڈی علی عظیم نے چودھری شوگرمل کی تحقیقات کو گزشتہ تاریخوں سے تبدیل کروایا جب کہ علی عظیم کو ہی چیئرمین ایس ای سی پی نے جے آئی ٹی کیلئے نامزد کیا تھا۔ جے آئی ٹی کا کہنا ہے چیئرمین ایس ای سی پی کی جانب سے علی عظیم کو جے آئی ٹی میں شامل کرنے کا مقصد تحقیقات کو سبوتاژ کرنا تھا۔ جے آئی ٹی کی درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کے رکن بلال رسول اور ان کے اہل خانہ کے فیس بک اکاونٹس آئی بی کی مدد سے ہیک کر لئے گئے اور 24 مئی کو آئی بی کے اہلکار بلال رسول کے گھر کے قریب چکر لگاتے نظرآئے اورانہوں نے بلال رسول کے ملازم کو دھمکایا۔ درخواست میں نیب کے رویے کی شکایت کرتے ہوئے کہا گیا کہ 2004 میں ضم ہونے پر نیب نے جے آئی ٹی ممبر عرفان نعیم منگی کو 25اپریل کو شوکاز نوٹس کیا جب کہ نیب نے عرفان منگی سے 15 روز میں جواب طلب کر رکھا ہے، نیب کا نعیم منگی کو نوٹس توجہ ہٹانے کے لئے ہے۔ جے آئی ٹی نے ایف بی آر سے شریف فیملی کے 1985 سے ریکارڈ طلب کیا تو ایف بی آر نے صرف 5 سال کا ریکارڈ ہی دینے کا کہا، جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ وزارت قانون و انصاف نے بیرون ملک تحقیقات کے لئے لکھے گئے خط میں 5 دن تاخیر کی جب کہ جے آئی ٹی نے گواہوں کے بیانات تبدیل کروانے کی بھی سپریم کورٹ سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ گواہوں کو فریقین کی جانب سے بیانات سکھائے جا رہے ہیں، طارق شفیع کو اتفاق گروپ کے چیف ایگزیکٹو نے پیشی سے پہلے وزیراعظم ہاو¿س جانے کی ہدایت کی اورانہیں وزیراعظم ہاو¿س کی ہدایات کے مطابق بیان دینے کا کہا گیا۔ جے آئی ٹی نے مزید کہا کہ ہماری اداروں سے خفیہ خط و کتابت میڈیا کو جان بوجھ کر جاری کی جاتی ہے جس کا مقصد تحقیقاتی عمل کو متنازعہ بنانا ہے۔ جے آئی ٹی کا کہنا ہے وزیراعظم کو طلبی کا نوٹس خفیہ تھا جس کی وزیر اطلاعات نے میڈیا میں تصدیق کی۔ یوں اطلاعات کو عام کرنا گواہان کی سکیورٹی خدشات کو بڑھاتا ہے جب کہ ایک ممبر اسمبلی نے جے آئی ٹی کو قصائی کی دکان کہا۔ جے آئی ٹی کی جانب سے تفتیش میں رکاوٹوں سے متعلق درخواست کے حوالے سے سپریم کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے درخواست پر تحریری جواب مانگ لیا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل جے آئی ٹی کی تصویر لیک ہونے سے متعلق رپورٹ کا جائزہ لیں اور اگر رپورٹ پبلک کریں تو اس کی کاپی حسین نواز کے وکیل کو بھی فراہم کریں۔