اسلام آباد، راولپنڈی‘لاہور ( خبر نگار خصوصی، کرائم رپورٹر‘نیوز رپورٹر) سابق وزیراعظم نوازشریف کی آج صبح دس بجے پنجاب ہاﺅس اسلام آباد سے بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور روانہ ہونگے، ان کی سکےورٹی کےلئے وفاقی پولےس کے 2500 اہلکار تعےنات ۔پنجاب ہاﺅس سے نکلنے والی رےلی اےکسپرےس چوک ، سنٹورس چوک ، زےرو پوائنٹ اور فےض آباد سے ہوتی ہوئی راولپنڈی کچہری روڈ سے ہوتے ہوئے جی ٹی روڈ پہنچے گی ۔سابق وزےر اعظم نواز شرےف کی بذرےعہ جی ٹی روڈ روانگی کو سےکےورٹی اداروں نے سکےورٹی رسک قرار دےا ہے ،وفاقی وزارت داخلہ اور حساس اداروں نے نوازشریف سے موٹر وے کا راستہ استعمال کرنے کی درخواست کی ہے جسے نواز شرےف نے مسترد کردےا ہے ۔ذرائع کے مطابق سابق وزےر اعظم کی روانگی سے قبل سرچ آپریشن کے دوران جڑواں شہروں کے علاوہ لاہور سے 30مشکوک افراد گرفتارکرلیا گیاہے۔مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کی لاہور روانگی پر سیاسی طاقت کے بھرپور مظاہرہ کے لیے تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ لےگی رہنماﺅں اور کارکنوں کا اسلام آباد اورجی روڈ کے روٹ پر خیرمقدمی بینرآویزاںکردئےے ۔ مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم قافلے کی صورت میں بدھ کی صبح 9بجے پنجاب ہاو¿س سے ڈی چوک جائینگے، لیگی کاررواں بلیو ایریا، زیرو پوائنٹ سے ہوتا فیض آباد پہنچے گا۔ فیض آباد سے نواز شریف مری روڈ سے راولپنڈی میں داخل ہونگے، لیگی قافلہ مری روڈ سے گزرتا ہوا راولپنڈی کچہری اور پھر روات جائیگا، روات سے نواز شریف ساتھیوں اور کارکنوں کے ساتھ لاہور جائیں گے۔ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی ریلی کو جلد منزل پر پہنچانے کی کوشش کی جائیگی جبکہ پی ٹی آئی رہنماو¿ں سے ریلی کے راستے میں گڑبڑ نہ کرنے کی یقین دہانی لی جائیگی اورجی ٹی روڈ پر واقع پی ٹی آئی کے دفاتر کو بند رکھا جائیگا۔ ادھر محکمہ داخلہ کے ذرائع کے مطابق سیکورٹی کلیئرنس کے بعد نواز شریف کو کار سے باہر نکلنے کی اجازت ہوگی، ذرائع کے مطابق نوازشریف کو بلٹ پروف گاڑی میں لاہور بجھواےا جائے گا۔ ریلی کا پہلا پڑاﺅ ڈی چوک میں ہو گا۔ جناح ایونیو سے ہوتی ہوئی زیرو پوائنٹ پہنچے گی اور پھر راولپنڈی میں داخل ہو گی۔ جڑواں شہروں کے سنگم فیض آباد سے ریلی مری روڈ اور پھر ضلع کچہری پہنچے گی اور پھر براستہ جی ٹی روڈ لاہور کا سفر شروع ہو گا۔ اسلام آباد سے ضلع کچہری تک تمام راستوں کو خیر مقدمی بینرز اور نوازشریف کی تصاویر سے سجا دیا گیا ہے۔ نواز شریف ریلی کے دوران ڈی چوک، کچہری چوک راولپنڈی، جہلم، گجرات اور گوجرانوالہ میں کارکنوں سے خطاب کریں گے۔ لاہور میں ہیلی کیم اورڈرون کیمرے چھوڑنے پرپابندی ہوگی جبکہ سرچ آپریشن کے دوران 30 مشکوک افراد گرفتارکرلیا گیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کی لاہور روانگی پر سیاسی طاقت کے بھرپور مظاہرہ کے لیے تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم قافلے کی صورت میں بدھ کی صبح 9بجے پنجاب ہاو¿س سے ڈی چوک جائینگے، لیگی کاررواں بلیو ایریا، زیرو پوائنٹ سے ہوتا فیض آباد پہنچے گا۔ فیض آباد سے نواز شریف مری روڈ سے راولپنڈی میں داخل ہونگے، لیگی قافلہ مری روڈ سے گزرتا ہوا راولپنڈی کچہری اور پھر روات جائیگا، روات سے نواز شریف ساتھیوں اور کارکنوں کے ساتھ لاہور جائیں گے۔ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی ریلی کو جلد منزل پر پہنچانے کی کوشش کی جائیگی جبکہ پی ٹی آئی رہنماو¿ں سے ریلی کے راستے میں گڑبڑ نہ کرنے کی یقین دہانی لی جائیگی اورجی ٹی روڈ پر واقع پی ٹی آئی کے دفاتر کو بند رکھا جائیگا۔ادھر محکمہ داخلہ کے ذرائع کے مطابق سیکورٹی کلیئرنس کے بعد نواز شریف کو کار سے باہر نکلنے کی اجازت ہوگی، ذرائع کے مطابق نوازشریف کو بلٹ پروف گاڑی میں لاہور لایا جائیگا، وہ لاہور آمد کے بعد داتا دربار پر حاضری دیں گے اور اہم خطاب بھی کریں گے۔ مال روڈ سمیت مختلف شاہراہوں پر قیادت کی تصاویر والے ہورڈنگز، خیر مقدمی بینرز اور فلیکسز بھی آویزاں کر دیے گئے ہیں۔صوبائی محکمہ داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے ریلی کے راستوں پر پولیس کے مسلح اہلکار اور نشانہ باز چھتوں پرتعینات ہوںگے،سیکورٹی خدشات کے پیش نظر فضامیں ہیلی کیم، ڈرونزکیمرے اورغبارے چھوڑے پر پابندی عائد کردی گئی، سیکریٹری داخلہ پنجاب کی جانب سے ریلی کی آمد کے موقع پر دفعہ144کا نفاذ ہوگا،نوازشریف کی لاہورآمد سے قبل لاہور میں پولیس نے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن کے دوران 20مشکوک افرادکو حراست میں لے لیا۔دوسری جانب وفاقی وزارت داخلہ اور قومی سلامتی کے خفیہ اداروں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور جانے کو سیکورٹی رسک قرار دیدیا اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ موٹر وے کا راستہ ہی استعمال کریں جبکہ نواز شریف ابھی تک جی ٹی روڈ سے جانے پربضد ہیں، ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے پنجاب ہاو¿ س اسلام آباد میں نوازشریف سے ملاقات کی جس کے دوران لاہور روانگی کے شیڈول پر مزید غور کیا گیا۔ذرائع کے مطابق احسن اقبال نے وفاقی ایجنسیوں کی جانب سے جی ٹی روڈ کی سیکورٹی رپورٹ نوازشریف کو پیش کی، ذرائع کا کہنا ہے وفاقی ایجنسیوں نے سابق وزیر اعظم کو جی ٹی روڈ پر سفر نہ کرنے کی تجویز دیتے ہوئے خبردار کیا کہ شرپسند عناصر سابق وزیر اعظم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں تاہم نواز شریف نے رپورٹ مسترد کر دی، نواز شریف بضد ہیں کہ وہ جی ٹی روڈ کا روٹ ہی استعمال کریں گے جس کی وجہ سے سیکورٹی اداروں کو ان کی حفاظت کے لیے غیر معمولی انتظامات کرنا ہونگے۔ سابق وزیر اعظم نوازشریف سے مسلم لیگ کے رہنماﺅں نے ملاقاتیں کیں۔سابق وزیراعظم نوازشریف آج (بدھ کو)اسلام آباد سے بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور کے لیے نکلیں گے جس کے لیے تمام تر تیاریوں اور سیکیورٹی انتظامات کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔نوازشریف سے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے ملاقات کی جس میں آج( بدھ کو) کی ریلی سے متعلق حکمت عملی پر غور کیا گیا ہے۔دوسری جانب ذرائع محکمہ داخلہ کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کو بلٹ پروف گاڑی میں لاہور لایا جائے گا اور سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد انہیں گاڑی سے باہر نکلنے کی اجازت ہوگی۔صوبائی محکمہ داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ریلی کے راستے میں بازار بند رکھے جائیں گے اور پولیس کے مسلح اہلکار اور نشانہ باز چھتوں پر تعینات ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق جی ٹی روڈ پر واقع تحریک انصاف کے دفاتر کو بند رکھا جائے گا اور پی ٹی آئی رہنماں سے ریلی کے راستے میں گڑ بڑ نہ کرنے کی یقین دہانی لی جائے گی جب کہ مسلم لیگ کی ریلی کو جلد منزل پر پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔ذرائع مسلم لیگ کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے قافلے کو اسلام آباد سے 72 گھنٹے میں لاہور پہنچایا جائے گا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ جمہوری تسلسل کے بغیر پاکستان کبھی ترقی نہیں کر سکتا، پاکستان میں لولی لنگڑی جمہوریت نہیں ہونی چاہیے، ابھی کہیں نہیں جا رہا، ابھی تو میری سنچری مکمل ہونی ہے، منتخب وزیراعظم کو ذلیل ورسوا نہیں کرنا چاہیے،پاکستان میں آئین توڑ دیئے جاتے ہیں، وزرائے اعظم کو پھانسی اور ملک بدر کردیا جاتا ہے،18وزرائے اعظم میں سے ایک بھی اپنی مدت پوری نہیں کر سکا، ان تمام سوالات کے جواب ڈھونڈنے ہوں گے۔ وہ منگل کو یہاں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ سمجھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا معاملہ نا اہلی تک نہیں جانا چاہیے تھا، میری نا اہلی کے فیصلے کا احترام تو ہے لیکن فیصلے سے اختلاف بھی ہے، ابھی کہیں نہیں جا رہا، ابھی تو میری سنچری مکمل ہونی ہے، مشرف کو ملک سے بھیجنے کا فیصلہ ہمارا نہیں عدلیہ کا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو ذلیل و رسوا نہیں کرنا چاہیے، پہلی حکومت آئی تو صدر نے نکال دیا، دوسری بار ایک آمر نے ہائی جیکر بنا دیا اور اب تیسری بار بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نکال دیا گیا، اس طرح کا سلوک منتخب وزیراعظم کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے۔ نواز شریف نے کہا کہ پاکستان میں آئین توڑ دیئے جاتے ہیں، وزرائے اعظم کو پھانسی اور ملک بدر کیا جاتا ہے، جے آئی ٹی کے کام کا طریقہ کار سب کے سامنے تھا، پانامہ لیکس کو پہلے غیر سنجیدہ اور بے وقعت قرار دیا گیا، پٹیشن کو رد کیا گیا پھر اس کیس کو آگے بڑھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے رضاکارانہ خود کو احتساب کےلئے پیش کیا، مجھ سے والد کے کاروبار سے متعلق بھی سوالات کئے گئے، لوگوں نے جے آئی ٹی میں پیش نہ ہونے کا مشورہ دیا تھا، لوگوں نے کہا کہ وزیراعظم آفس کے وقار پر سمجھوتہ نہ کریں، اس وقت میں استعفیٰ دیتا تو عوام سمجھتی میرے دل میں چور ہے، کیا عوام کے مینڈیٹ کی کبھی عزت کی گئی ہے؟ کیا عوام کے ووٹ کو اس طرح دھتکارا جاتا رہے گا؟۔ نواز شریف نے کہا کہ ان تمام سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے ہوں گے، جمہوری تسلسل کے بغیر پاکستان کبھی ترقی نہیں کر سکتا، پاکستان میں لولی لنگڑی جمہوریت نہیں ہونی چاہیے، آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ نہیں ہونا چاہیے، جو کچھ پاکستان میں ہوتا ہے وہ پوری دنیا میں نہیں ہوتا، خطے کا امن افغانستان میں امن سے منسلک ہے،18 وزرائے اعظم میں سے کوئی بھی اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔