تازہ تر ین

پاکستان میں دہشتگردی کیلئے ہمسایہ ملک کے بچوں کا استعمال ، خوفناک انکشافات

لاہور (خصوصی رپورٹ) مشرق وسطی کے عرب اسلامی ممالک عراق، شام اور افغانستان کی بدامنی، خانہ جنگی اور امن و امان کی مخدوش صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صہیونی تنظیمیں ان ممالک کے بچوں کو اغوا کرنے میں ملوث ہیں۔ یہ انکشاف بحرین میں بچوں کے اغوا کے واقعات کی روک تھام کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم نے کیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے مقبوضہ علاقے غرب اردن کے ایک صحرا میں ایسے خفیہ مراکز قائم کر رکھے ہیں جہاں کمسن بچوں کو جاسوسی اور دہشت گردی کی تربیت دینے کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ بحرینی تنظیم نے اس سلسلے میں اسرائیلی پولیس کی ایک رپورٹ پیش کی ہے۔ جنوری 1997ءمیں جاری ہونے والی اسرائیلی پولیس کی رپورٹ میں باقاعدہ اعتراف کیا گیا ہے کہ اسرائیل کی ایک خفیہ یہودی تنظیم 1990ءمیں متعدد اسلامی ممالک سے بچوں کے اغوا میں سرگرم ہے۔ ان ممالک میں مصر، مراکش، افغانستان، ترکی، برازیل اور اردن کے نام شامل ہیں۔ پولیس رپورٹ میں اس گروپ کا نام خفیہ رکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بچوں کے اغوا میں ملوث صہیونی تنظیم نے 2003ءکے بعد اپنی سرگرمیوں کا رخ تبدیل کیا ہے۔ اس تنظیم کو اسرائیل کی خفیہ انٹیلی جنس موساد کی حمایت حاصل ہے۔ موساد نے عرب اور اسلامی ممالک میں اہم اہداف تک رسائی اور دہشت گرد کارروائیوں کے لیے اسلامی ممالک کے بچوں کو اغوا کرکے ان کی برین واش کرنے اور عسکری تربیت دینے پر عملدرآمد شروع کیا ہے۔ موساد کا یہ منصوبہ اگرچہ خاصا خفیہ رکھا گیا ہے، تاہم اس کے باوجود اسرائیل میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف مواقع پر رونما ہونے والے واقعات کے ذریعے عبرانی ذرائع ابلاغ میں ایسی معلومات سامنے آئی ہیں جن سے اس خطرناک منصوبے کا انکشاف ہوا ہے۔ عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ادارے ایسے بچوں کو تربیت دیکر اسلامی ممالک میں جاسوسی، ٹارگٹ کلنگ، بڑے پیمانے پر بدامنی پھیلانے اور دیگر مجرمانہ وارداتوں میں استعمال کر سکتے ہیں۔ عرب ممالک میں بچوں کے اغوا کی وارداتوں میں حیران کن اضافے کے پیش نظر عرب ممالک میں بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں اور اداروں نے جون 2008ءمیں بحرین میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی تھی۔ اس کانفرنس میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2005ءمیں الجزائر سے ایک ماہ کے دوران 117 جبکہ 2006ءمیں 168 بچے اغوا ہوئے تھے۔ الجزائر کے بعد عراق اور یمن سے زیادہ بچے اغوا ہوئے تھے۔ رپورٹ میں مختلف حوالے دیکر یہ بتایا گیا تھا کہ بچوں کے اغوا میں مشرق وسطی کے ایک ملک کی تنظیمیں اور انٹیلی جنس ایجنسیاں سرگرم ہیں، تاہم ملک کا نام ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔ عرب ذرائع ابلاغ نے اس خفیہ ملک کے بارے میں کہاتھا کہ یہ اسرائیل ہے 2015ءمیں الجزائر میں سکیورٹی اداروں نے بچوں کے اغوا میں ملوث ایک گروہ گرفتار کیا تھا۔ ان افراد نے دوران تفتیش اعتراف کیا تھا کہ وہ سہولت کار کی حیثیت سے بچوں کے اغوا کی وارداتوں میں مصروف ہیں۔ بعدازاں ہونے والی تحقیقات سے پتا چلاتھا کہ اس گروہ کے پیچھے اسرائیلی تنظیم ہے جس کی سربراہی فرانس میں مقیم ایک خاتون ماہر قانون کر رہی ہیں۔ الجزائر نے طویل تحقیقات کے بعد 2016ءمیں ملک میں بچوں کے اغوا کی وارداتوں کی روک تھام کے لیے مستقل سکیورٹی فورس تشکیل دی ہے۔ مصر کی ایک یونیورسٹی کی خاتون پروفیسر نے عرب ممالک کو خبردار کیا تھا کہ انہیں بچوں کی پراسرار گمشدگی سے متعلق سخت نگرانی کا نظام مقرر کرنا چاہیے۔ عرب میگزین نے حالیہ دنوں افغانستان اور پاکستان میں بچوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات کو بھی اسی سلسلے کی کڑی قرار دی ہے۔ عرب جریدے کے مطابق پاکستان اور افغانستان میں ہیں۔ لاہور میں جولائی میں فیروزپور روڈ پر ہونے والے خودکش دھماکے میں افغانی لڑکے کے استعمال کے بعد انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور افغانستان میں دہشت گردی کی تحقیقاتی رپورٹوں پر کام کرنے والے ابلاغی اداروں نے اپنی رپورٹوں میں انکشاف کیا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں، دہشت گردی کے بڑے منصوبوں کے لیے افغانی بچوں کو پاکستان سمگل کر رہی ہے۔ سرگرم عسکریت پسند تنظیمیں بھی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں استعمال کی غرض سے کم عمر بچوں کو غیر قانونی طریقے سے مشرق وسطی کے ممالک میں سمگل کرنے میں سرگرم ہیں۔ لاہور میں جولائی میں فیروزپور روڈ پر ہونے والے خودکش دھماکے میں افغانی لڑکے کے استعمال کے بعد انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور افغانستان میں دہشت گردی کی تحقیقاتی رپورٹوں پر کام کرنے والے ابلاغی اداروں نے اپنی رپورٹوں میں انکشاف کیا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں دہشت گردی کے بڑے منصوبوں کے لیے افغانی بچوں کو پاکستان سمگل کر رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق استعمال ہونے والا خودکش بمبار افغانستان سے لایا گیا تھا جسے باجوڑ ایجنسی کے ایک سہولت کار نے لاہور پہنچایا تھا۔ افغانستان سے ماہانہ سینکڑوں بچوں کی پاکستانی علاقوں میں غیر قانونی طریقے سے لائے جانے کے معاملے پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے راستے سے کم عمر بچوں کو خفیہ طریقے سے لایا جا رہا ہے۔ ان معصوم بچوں کو پاکستانی سرزمین پر پہنچانے کے بعد خلیجی ممالک میں بھیجا جاتا ہے۔ جبکہ بعض کو پاکستان کے مختلف شہروں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے جبری مشقت لی جاتی ہے یا پھر انہیں بھیک مانگنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ عرب میگزین کے مطابق افغانستان کے ایک سکیورٹی افسر نے بتایا ہے کہ رواں ماہ دو کنٹینر پکڑے گئے جن میں 27 کمسن بچے تھے۔ ان بچوں کو خفیہ طریقے سے افغانستان سے بلوچستان منتقل کیا جا رہا تھا۔ پکڑے جانے والے بچوں کی عمریں 4 سے 15 کے درمیان تھیں۔ بچوں میں سے کئی بچوں نے بتایا کہ انہیں پاکستان بھجوانے میں ان کے والدین کی مرضی شامل ہے اور یہ کہ انہیں وہاں ہوٹلوں پر کام کی غرض سے بھیجا گیا ہے، تاہم بعض بچے ایسے بھی جنہوں نے والدین کی مرضی سے انکار کیا اور بتایا کہ انہیں ان لوگوں نے پیسہ کمانے کا لالچ دیکر جانے راضی کیا ہے۔ انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق افغانی بچوں کی سمگلنگ ایک خطرناک اقدام ہے جس سے کئی ممالک میں دہشت گرد واقعات رونما ہونے کا خطرہ ہے۔ کمسن بچوں کی سمگلنگ میں ملوث مافیا ان بچوں کی سمگلنگ میں ملوث مافیا ان بچوں کے والدین کو روزگار کا جھانسہ دیکر راضی کرتے ہیں جبکہ بہت سے عناصر آوارہ بچوں کو مختلف لالچ دیکر دوسرے ممالک لے جانے پر راضی کرتے ہیں۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain