لاہور (خصوصی رپورٹ) بھارت امریکہ گٹھ جوڑ کا شاخسانہ‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں امریکہ اور اسرائیل سے حاصل کردہ ڈرونز سے کشمیریوں کو قتل کرنے کا آغاز کر دیا۔ یکم اگست کو لشکر طیبہ مقبوضہ کشمیر کے کمانڈر ابودجانہ کو ایک طویل مقابلہ کے بعد ڈرون حملہ کر کے شہید کردیا گیا۔ ابودحانہ ایک ماہ قبل بھی ایک طویل گن فائٹ میں بھارتی فورسز کا بھاری نقصان کرنے کے بعد نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ یکم اگست کو بھی بھارتی فوج‘ پولیس اور نیم فوجی دستوں کو مقابلہ میں اس بات کا خدشہ تھا کہ وہ ابودجانہ کو قتل یا گرفتار نہیں کر پائیں گے جس پر انہوں نے ڈرون کا استعمال کیا اور اس گھر کو تباہ کر دیا جس میں ابودجانہ نے مورچہ لگا رکھا تھا۔ اس موقع پر کشمیری عوام کی بڑی تعداد اپنے گھروں سے نکل آئی اور اس نے فورسز پر پتھراﺅ کیا جس پر بھارتی فورسز نے نہتے کشمیریوں کے خلاف اپنا بدنام زمانہ ہتھیار پیلٹ گن استعمال کیا اور اس سے کئی لوگ شدید زخمی اور ایک نوجوان فردوس احمد شہید ہو گیا۔ علاقہ میں فورسز اور عوام کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں اور فوج کو سکول اور نیٹ سروسز بند کرنا پڑیں۔ اطلاعات کے مطابق بھارت کی جانب سے کسی بھی علاقہ میں ڈرون کے استعمال کا یہ پہلا واقعہ ہے لیکن اس کی بھی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں کی جا رہی مگر سرینگر سے میڈیا ذرائع نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ بھارت نے ڈرون استعمال کیا ہے‘ ورنہ ابودجانہ اس معرکہ میں بھی فورسز کو خاک چٹا کر نکل جانے کو تیار تھا۔ سرینگر سے دستیاب اطلاعات کے مطابق ابودجانہ 2014ءسے مقبوضہ کشمیر میں متحرک کردار ادا کر رہا تھا۔ اس نے 2015ءمیں مقبوضہ کشمیر میں لشکر طیبہ کے سربراہ ابوقاسم کی شہادت کے بعد لشکر کی کمان سنبھالی اور بھارتی فورسز کیلئے ایک دردسر بنا رہا۔ مئی میں بھی ایک جگہ اسے گھیر لیا گیا تھا مگر مقامی لوگوں کی مزاحمت اور ابودجانہ کی شاندار حکمت عملی کے تحت وہ فورسز کو بھاری نقصان پہنچا کر نکلنے میں کامیاب رہا۔ اطلاعات کے مطابق ابودجانہ نے ایک کشمیری خاتون سے شادی کر رکھی تھی اور اپنی اہلیہ سے ملاقات کیلئے آیا کرتا تھا۔ اس کا یہ راز فاش ہو جانے کے بعد فورسز نے اسے گھیرنے کی کوشش کی اور اپنی تیسری کوشش میں انہیں کامیابی نصیب ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق اس سے قبل بھی دو بار بھارتی فورسز کو اس کے اسی گاﺅں ہاکی پورہ میں آنے کی اطلاع ملی تھی مگر وہ چھاپے سے پہلے ہی نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ اطلاعات کے مطابق اس بار ابودجانہ کے آنے کی اطلاع ملنے پر دشمن فورسز نے خاموشی کے ساتھ اس کی نگرانی شروع کر دی اور دو گھنٹے بعد بھاری نفری کے ساتھ مکان کا گھیراﺅ کیا گیا۔ اس نفری میں دو بٹالینز آر پی ایف‘ ایک بٹالین راشٹریہ رائفلز اور اس کے علاوہ پولیس کی بھاری نفری شامل تھی جبکہ آئی جی پولیس اور گی او سی 15کو مشترکہ طور پر اس آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے‘ صبح سوا چار بجے شروع ہونے والی لڑائی کے ساتھ ہی علاقہ کے لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور پتھراﺅ شروع کر دیا جس پر فورسز نے عوام پر بھی وقفے وقفے سے فائرنگ کی۔ سورج طلوع ہونے کے بعد تک مقابلہ جاری رہا اور ایک موقع پر جب یہ یقینی ہو گیا کہ ابودجانہ اور اس کا ساتھی عارف للہار فورسز کو آگے بڑھنے نہیں دے رہے اور فورسز کی بھاری نفری بھی ان دو افراد کے مقابلے میں ناکافی ثابت ہونے پر جنرل جے ایس سندھو جے او سی 15کونے ڈرون استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اسرائیلی ساختہ ڈرون سے میزائل فائرنگ کر کے اس مکان کو ہی نذرآتش کر دیا جس میں مجاہدین نے مورچہ لگا رکھا تھا۔ شہادت کا یقین ہونے پر عوام نے فورسز پرایک بار پھر ہلہ بول کر انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ فوج نے انٹرنیٹ اور سکول بند کر دیئے۔ بھارتی فورسز کا دعویٰ ہے کہ ابودجانہ عرف حافظ کی عمر 27برس تھی وہ 17سال کی عمر میں لشکر طیبہ میں شامل ہوا اور اس کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا۔ دو ماہ قبل بھارتی فورسز نے ابودجانہ کے حوالے سے پراپیگنڈا مہم شروع کی تھی کہ لشکر نے ابودجانہ سے لاتعلقی اختیار کر لی ہے اور وہ ذاکر موسیٰ سے مل رہا ہے مگر لشکر طیبہ مقبوضہ کشمیر کے ترجمان ڈاکٹر عبداللہ غزنوی نے اس پراپیگنڈا کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ابودجانہ لشکر طیبہ مقبوضہ کشمیر کا کمانڈر تھا اور اس کا لشکر طیبہ کے سوا کسی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بھارتی فورسز اس کی مقبولیت اور عوامی حمایت ختم کرنے کی خاطر پراپیگنڈا کر رہی تھی جس میں وہ ناکام رہی۔