تازہ تر ین

ٹرمپ کی دھمکیاں, اعلیٰ عدالتی ایوان نے بھی بڑا فیصلہ کرلیا

اسلام آباد (آئی این پی) سینیٹ میں جمعرفات کو پاک امریکہ تعلقات کی موجودہ نوعیت اور امریکی صدر کی پاکستان کو دھمکیاں دینے پر تمام اراکین پارلیمنٹ کے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے سامنے دھرنا دینے کی تجویز دے دی گئی، امریکی سفیرکی طلبی کا بھی ایک بار پھر مطالبہ کر دیا گیا اور یہ مطالبہ پارلیمنٹ میں شدت اختیار کرگیا ہے، گزشتہ روز بحث میں حصہ لیتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے رہنما سینیٹر حافظ حمداللہ نے کہا کہ فساد اور خون بہہ رہا ہے، ہر آمر ہر جابر اور ہر ظالم شہنشاہ فساد پھیلاتا ہے، امریکہ افغانستان سمیت تمام شورش زدہ ممالک میں ناکام ہوا، آج کا سب سے بڑا دہشت گرد واشنگٹن کے وائٹ ہاﺅس میں بیٹھا ہے، ایجنڈا امن نہیں جنگ ہے، جس میں امریکہ کامیاب رہا، امن کے نام پر جہاں گیا فساد ہی فساد ہے، پاکستان کو دھمکیاں نہیں دے رہا ہے بلکہ ان کا ایجنڈا ہی جنگ ہے، اسلحہ کے ڈھیر لگا رہا ہے، ٹرمپ کی قیادت میں 51اسلامی ممالک نے امن کی نماز پڑھی اگر ہم عسکریت پسندوں پر تنقید کریں تو ایجنسیوں کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے، تنظیموں کومسلح کس نے کیا جب ہم یہ بات کرتے ہیں تو تب بھی ہم پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ عسکریت پسندوں کو کس نے مسلح کیا تھا، امریکہ افغانستان کے کندھے پر بندوق رکھ کر جنوبی ایشیاءکو غیر مستحکم کرے گا، افغانستان بھارت اس کے ساتھ ہیں، میدان جنگ پاکستان ہو گا، مورچہ افغانستان ہو گا،یہ صورتحال اس لئے پیدا ہوگئی، ہم نے خود امریکہ بھارت کی مدد کی، ہم نے اپنی فضائی حدود زمینی راستہ اڈے امریکہ کو دیئے،57ہزار حملے امریکہ نے ہماری سرزمین سے کئے، خارجہ پالیسی پر دو وزیر اور2 جرنیل بناتے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے، پارلیمنٹ نظرثانی کرے، خارجہ پالیسی کا جائزہ جنرل(ر) پرویز مشرف سے شروع کیا جائے، پارلیمنٹ قرار داد منظور کرے کہ پارلیمنٹ کی مرضی کے بغیر کسی خارجہ پالیسی کو قبول نہیں کیا جائے گا۔حامد حمد اللہ نے کہا کہ وزیر دفاع نے اسی تنخواہ پر گزارہ کرنے اور شراکت داری کا بیان دیا ہے، یعنی تعاون جاری رہے گا، جنرل باجوہ نے بیان دیا کہ مال کے بغیر کام جاری رکھیں گے امداد نہیں چاہیے یعنی وہ تنخواہ کے بغیر کام کریں گے، ہم پرانی تنخواہ پر کام کریں گے، مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر غوث بخش نیازی نے کہا کہ امریکہ کا دہرا معیار ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی امریکہ کے صدر نے بات کیوں نہیں کی، امریکہ کے دہرے معیار کی مذمت کرتے ہیں، جوش کی بجائے ہوش سے کام لینا ہے، ایران کو بھی سعودی سرزمین پر بیٹھ کر اسی قسم کی دھمکی دی گئی تھی،ہم درست سمت میں ہیں، واویلا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، موجودہ چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے امریکہ کا دورہ نہ کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں، وہ چین گئے خوش آئند ہے، جامع پالیسی بنائی جائے، امریکہ کے سفیر کو بلا کر جواب طلبی کی جائے، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر کے تمام ارکان پارلیمنٹ امریکی سفارت خانے جا کر احتجاج ریکارڈ کروائیں کہ ہر صورت ہر قیمت پر پاکستان کے دفاع و سلامتی کا تحفظ کیا جائے گا،قطر ڈٹا ہوا ہے، عسکری سیاسی قیادت مل کر سٹینڈ لیں اور مشترکہ پالیسی بنائیں، تمام سیاسی جماعتیں ملک کی خاطر اکٹھی ہو جائیں، قوم متحد ہو جائے، چین، روس، آسٹریلیا نے اچھے بیانات دیئے ہیں، امریکہ کو مثبت طرز عمل کا مشورہ دیا جا رہا ہے، پوری دنیا امریکہ کے خلاف ہو رہی ہے۔ سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے، کبھی ہم مودی کبھی ٹرمپ کے بیانات پر پارلیمنٹ میں بحث کر رہے ہوتے ہیں،70سالوں سے دفاعی پوزیشن میں ہیں دوسروں کی شادی میں بیگانے کی حیثیت اختیار کئے رکھی اور کشکول اٹھانے کی وجہ سے ان حالات کا سامنا ہے، ہم بلائے بغیر ہر ایک کی شادی میں چلا جاتا ہے،ہمسایہ کے نام پر ہم نے پیسے کھائے، اسی پالیسی کا شاخسانہ ہے کہ پاکستان میں 20لاکھ لوگ ایسے ہیں جن کا پتہ نہیں ہے کہ ان کا کس ملک سے تعلق ہے، جنرل پرویز مشرف ایک امریکی ٹیلی فون کے سامنے لیٹ گئے، آج اسی کا کفارہ ادا کر رہے ہیں، اب تو عبرت حاصل کریں، سابق آرمی چیف 44اسلامی ملکوں کے عسکری اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں، این او سی بھی جاری ہو گیا، اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا، اگر سب ایک صفحے پر ہوتے تو امریکی صدر کو دھمکیاں دینے کی جرات نہ ہوتی،موجودہ پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان ”مہاجرستان“ بن گیا ہے۔ سینیٹر سلیم ضیاءنے کہا کہ پاکستان کو امریکہ کی وجہ سے تباہی و بربادی دیکھنا پڑی، یہ وقت ڈومور ڈو کا تقاضا کیا جاتا، اس کا ہماری طرف سے زبانی کلامی جواب دیا جاتا رہا، اب امریکہ اور پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے، تشویشناک بات ہے کہ افغانستان میں عبرتناک شکست کا بوجھ پاکستان پر ڈالنا چاہتے ہیں، امریکہ احسان فراموش ہے۔یہ مشرف پالیسی آمر کا دور نہیں ہے، سول ملٹری قیادت تمام سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی سب مل کر کسی کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیں گی۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ سب سے زیادہ کنفیوژن وائٹ ہاﺅس اور امریکی اداروں میں پائی جاتی ہے۔ محسن لغاری نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو دیکھنا ہو گا۔ سینیٹر سراج الحق نے کا کہ امریکہ کی دھمکی نہیں ہے، صلیبی جنگ کی بھی دھمکی دی گئی تھی، یہود و نصاری غلام اور تابع بنانا چاہتے ہیں، اس کے بغیر خوش نہیں ہوں گے، کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے، پارلیمنٹ کی سفارشات کو مد نظر رکھا جائے، رحمان ملک نے کہا کہ القاعدہ اور داعش کس نے کھڑی کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننا غلط پالیسی تھی، مسائل ضیاءالحق کی پالیسیوں سے شروع ہوئے، پاکستان میں سیاسی بحران کا امریکہ نے فائدہ اٹھایا ہے۔ سینیٹرنسیمہ احسان نے کہا کہ پاکستان کو آزاد خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ سینیٹر سیف اللہ مگسی نے پارلیمنٹ کے ذریعے آزاد و خود مختار خارجہ پالیسی وضع کرنے کا مطالبہ کیا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain