لاہور (خصوصی رپورٹ) لاہور میں مغلوں کی آمد کے بعد عزاداری کی ابتدا ہوئی اور عہد جہانگیری میں ملکہ ہند نورجہاں نے ایرانی طرز پر لاہور میں عزاداری کی مجلسوں کی سرپرستی شروع کی مگر مجالس عزاداری کیلئے باقاعدہ امام بارگاہوں (امام باڑوں) کا قیام مہاراجہ
رنجیت سنگھ کے دور 1825-28ءکی دہائی میں شروع ہوا۔ امام بارگاہ اس مقام کو کہاجاتا ہے جہاں فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والے افراد محرم الحرام کے مہینے میں مراسم عزاداری سرانجام دیتے ہیں۔ امام بارگاہ میں واقعہ کربلا کا تذکرہ علماءو ذاکرین اپنے مخصوص انداز میں پیش کرتے ہیں۔ امام بارگاہ کے لغوی معنی امام عالی مقام کی یادگار یعنی ایسی جگہ یا مقام جو حضرت امام حسینؓ کے نام پر وقف ہو۔ امام بارگاہ کی عمارت میں مجالس و محافل کیلئے ایک وسیع ہال تعمیر کیا جاتا ہے جس کی دیواروں پر شہدائے کربلا کے نام کندہ ہوتے ہیں اور یہاں تعزیہ بھی رکھا جاتا ہے۔ امام بارگاہ کا منتظم ”متولی“ کہلاتا ہے جس کے پاس مجالس اور جلوس نکالنے کا سرکاری لائسنس ہوتا ہے۔ امام بارگاہ کے علاوہ عزاداری منعقد کرنے کیلئے مختلف گھروں کو ”عزاخانہ“ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے جہاں صرف ایام عزا میں مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لاہور میں فقیر اور قزلباش خاندان شروع ہی سے امام بارگاہوں کی سرپرستی کرتے آ رہے ہیں۔ فقیر خاندان کے مورث اعلیٰ سید غلام شاہ بخاری تھے جو آخری مغلیہ عہد میں بسلسلہ روزگار لاہور آئے اور نواب عبدالصمد ان ناظم لاہور کے ہاں ملازم ہوئے۔ آپ کے فرزند سید غلام محی الدین تھے جو بعد میں محی الدین ”فقیر نوشہ ثانی“ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ کے تین فرزند تھے اور تینوں نے خوب نام کمایا۔ بڑے فرزند فقیر سید عزیزالدین مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وزیرخارجہ اور مشیر خاص کے علاوہ مہتمم دفتر مال و سول معاملات تھے۔ دوسرے فقیر بیٹے سید امام الدین محافظ شاہی خزانہ اور قلعہ دار گوبند گڑھ تھے جبکہ تیسرے بیٹے فقیر سیدنورالدین وزیر داخلہ‘ ممبر ریجنسی کونسل‘ گجرات‘ جالندھر اور لاہور کے گورنر تھے۔ کوچہ فقیر خانہ اور بازار حکیماں اندرون بھاٹی گیٹ میں اس خاندان کی حویلیاں اور امام بارگاہیں اب تک موجود ہیں۔ فقیرخانہ میوزیم اندرون بھاٹی گیٹ کے دستاویزات اور سینہ بہ سینہ روایات کے مطابق لاہور میں سب سے پہلی امام بارگاہ محلہ پیر گیلانیاں اندرون موچی دروازہ ”سیدے شاہ“ نے قائم کی۔ فقیرخانہ میوزیم کے ڈائریکٹر فقیر سید سیف الدین کے مطابق سکھ دور میں ”سیدے شاہ“ کی امام بارگاہ کو مرکزی امام بارگاہ کی حیثیت حاصل تھی۔ اس امام بارگاہ میں لاہور کے تمام ماتم گسار لوگ عاشورہ کی رات جمع ہوتے تھے۔ اس وقت تک مبارک حویلی ضبط سرکارسکھی تھی اور موچی دروازے میں ”سیدے شاہ“ کی امام بارگاہ کے علاوہ کوئی اور امام بارگاہ نہیں تھی۔ اب جو موچی دروازے میں قزلباش خاندان کی امام بارگاہیں وہ سب بعد میں الاٹ ہوئیں۔ سیدے شاہ کے زمانے میں ذوالجناح کا جلوس نکالنے کا رواج نہیں تھا۔ یہ لوگ تعزیئے نکالتے جنہیں ٹھیک اس مقام پر دفن کیا جاتا تھا جہاں اب کربلا گامے شاہ کی امام بارگاہ موجود ہے۔ ان تعزیوں کی رکھوالی کیلئے ”سیدے شاہ“ کے بیٹے ”غلام علی“ المعروف ”گامے شاہ“ بیٹھتے تھے جو اس وقت نوجوان تھے۔ یہاں دفن شدہ تعزیہ کو چند روز بعد نکال لیا جاتا تھا۔ تعزیئے اس دور میں بھی بہت قیمتی اور خوبصورت بنائے جاتے تھے۔ سیدے شاہ کی امام بارگاہ میں عاشورہ کی رات مردوں کے ساتھ خواتین بھی بڑی تعداد میں شریک ہوتی تھیں۔
اب یہ امام بارگاہ معدوم ہو چکی ہے۔ راقم نے اس امام بارگاہ کے مقام کی تلاش کیلئے فقیر سید سیف الدین کے ساتھ مل کر بڑی تحقیق کی مگر تاحال اس کے متعلق کوئی مستند معلومات فراہم نہ ہوسکیں۔ ممکن ہے کہ یہ امام بارگاہ کسی اور نام میں تبدیل ہو چکی ہو‘ یہ بھی ممکن ہے کہ بعدازاں اسے کربلا گامے شاہ منتقل کر دیا گیا ہو….؟ فقیر خاندان کی قدیم ترین امام بارگاہ ”مقبول امام“ بازار حکیماں اندرون بھاٹی دروازہ واقع ہے جو 1865-70ءکی دہائی میں قائم ہوئی۔ دوسری امام بارگاہ خان بہادر ڈپٹی فقیر سید جمال الدین کے نام سے بازار حکیماں میں واقع ہے۔ یہ امام بارگاہ صوبائی محکمہ اوقاف کے زیرانتظام ہے۔