تازہ تر ین

بھارت میں 19علیحدگی پسند تحریکیں پاکستان انہیں کیوں نہیں اُچھالتا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) ممتاز تجزیہ کار توصیف احمد خان نے چینل ۵ کے پروگرام کالم نگار میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میاں محمد نوازشریف آج عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے دھواں دار پریس کانفرنس بھی کر ڈالی۔ یہ معاملہ مولوی تمیز الدین سے شروع ہوا اور آج نوازشریف تک آ گیا ہے جب سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے۔ نوازشریف اس پر اعتراض کر رہے ہیں نوازشریف نے اگر اپنا رویہ ایسا ہی رکھا تو انارکی پھیلے گی۔ سوئیزرلینڈ ایک آزاد حکومت سمجھی جاتی ہے، وہاں بلوچستان کی آزادی کے بینر لگوانے میں کیا وہاں کی حکومت ملوث ہو سکتی ہے؟ ملیحہ لودھی نے غلط تصویر دکھا کر پوری دنیا میں ہمارا مذاق اڑایا۔ بھارت، پاکستان کے ساتھ بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہمسائے ہم سے ناراض ہیں۔ خالد فاروقی نے کہا میاں محمد نوازشریف کو خود کو مولوی تمیز الدین سے موازنہ نہیں کرنا چاہئے ان کی آئینی اور قانونی حکومت کو ختم کیا گیا۔ جبکہ نوازشریف کو کرپشن پر نااہل قرار دیا گیا۔ مولوی تمیز الدین اور نوازشریف میں کوئی موازنہ نہیں۔ سپریم کورٹ نے نوازشریف کے ساتھ بہت رعایت کی، وہ تو نااہل ہونے کے باوجود عیش کر رہے ہیں۔ میاں نوازشریف اداروں پر اعتماد نہیں کرتے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے سامنے غلط بیانی کی۔ وہ عدلیہ کے سامنے سچائی پیش کرنے سے قاصر رہے۔ آج انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانے سے پرہیز کیا۔ نوازشریف نااہل ہو چکے اب ان کے ساتھی توہین کر رہے ہیں۔ سیاست میں این آر او ہوا کرتے ہیں۔ لیکن اگر نوازشریف کے ساتھ این آر او ہو گا تو جیل میں پڑے ہر قیدی کے ساتھ این آر او کرنا پڑے گا۔ نوازشریف اگر مخلص ہیں تو اپنے اثاثے قوم کے سامنے رکھ دیں۔ سوئیزرلینڈ میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے بینر لگوانے کے پیچھے بھارت کی ایجنسی را تھی۔ لیکن ہماری حکومت اس کو رکوا نہیں سکی۔ بھارت میں 19 علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں، ہم انہیں کیوں نہیں اوپن کرتے۔ خالد چودھری نے کہا ذوالفقار علی بھٹو کو قیدیوں والی وین میں لایا جاتا تھا۔ نوازشریف صاحب کو گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ عدالت آئے۔ ان کے گارڈ مسلح تھے۔ لوگوں میں تاثر ہے کہ پنجاب کے لوگوں کے ساتھ اور سلوک ہو گا۔ اور چھوٹے صوبوں کے لیڈروں کے ساتھ سلوک اور ہو گا۔ جونیجو کو نکالنے میں کس کا ہاتھ تھا۔ بینظیر بھٹو کو فارغ کیا گیا ان کے پیچھے کون تھے نوازشریف نے پریس کانفرنس کے ذریعے عدالتوں پر چڑھائی کی۔ نوازشریف نے فیصلہ کر لیا ہے، تخت یا تختہ۔ آج کا نوازشریف بدل چکا ہے۔ ضیاءالحق کے دور کا نوازشریف نہیں ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اندرخانے مفاہمت ہو چکی ہے۔ اگر این آر او ہوتا ہے تو جج، وکیل اور تمام ادارے ہی کرپٹ ہوں گے عوام مایوس ہوئے تو انارکی پھیلے گی۔ امجد اقبال نے کہا اس وقت دو کیس چل رہے ہیں۔ ایک عدالتوں کے اندر اور دوسرا عدالت کے باہر۔ عدالت کے اندر نوازشریف ہار چکے ہیں۔ اب وہ عدالت کے باہر خود کو معصوم ظاہر کر کے عوام میں مقدمہ جیتنا چاہتے ہیں۔ باہر کا کیس اندر کے کیس کو متاثر نہیں کر سکتا۔ عدالتیں فیصلے دیتی رہیں گی۔ بھارت والے سوئیزرلینڈ میں پاکستان کے خلاف، بلوچستان کی علیحدگی کے بینر لگوا کر خود پھنس گیا ہے۔ اس طرح وہ اپنے لوگوں کو نیا راستہ دکھا رہا ہے۔ کچھ تنظیموں نے تو کام شروع بھی کر دیا ہے ابھی خالصتان نے بھی آگے آنا ہے۔ حکومت اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر کرے اور اچھے طریقے سے اپنا مقدمہ لڑے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain