تازہ تر ین

مقدمے ختم نہ ہوئے تو شہباز شریف وزیر اعظم ،مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب ہونگی:ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میاں نوازشریف پچھلے 35 سال سے اپنی پارٹی کی سربراہی کر رہے ہیں۔ پہلے وہ رسمی صدر نہیں بھی تھے تو بھی قیادت انہی کے پاس تھی اب وہ باقاعدہ پارٹی صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ ایک لمبے عرصے سے اقتدار میں ہیں۔ وہ وزیراعلیٰ بھی رہے۔ پھر وزیراعظم بنے پرویز مشرف نے فوج کی مدد سے انہیں نکال دیا۔ کچھ عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد وہ سعودی عرب چلے گئے۔ آٹھ سال وہاں گزارے پھر واپس آئے اور جیت کر دوبارہ حکومت بنائی۔ اب دوبارہ وہ مسائل کا شکار ہیں۔ انہیں عدالت نے صادق اور امین نہ رہنے پر اقامہ کی بنیاد پر نااہل کر دیا سابقہ ریفرنسز کے بعد آج کی خبر یہ ہے کہ ان پر مزید ریفرنسز بھی بھیجے جائیں گے انہیں نیب عدالت میں مقدمات کا سامنا ہے۔ ایک مقدمہ میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے قابل ضمانت وارنٹ بھی جاری ہو چکے ہیں۔ ان کے بیٹوں کے بھی وارنٹ جاری ہو چکے ہیں لیکن وہ پاکستان میں موجود نہیں ہیں۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز کے خلاف اور ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف بھی ریفرنس عدالت میں ہیں۔ مقدمات کا سلسلہ پھیلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔ تاہم وہ نوازشریف کو ہی اپنا وزیراعظم مانتے ہیں۔ مخالفین کی جانب سے دعوﺅں کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے 60 یا 70 (پرندے) ایم این اے ابھی تک ان کی شاخ سے اُڑے نہیں ہیں۔ میاں شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور دیگر رہنما لندن گئے تھے۔ میٹنگ کے اعلامیہ کے طور پر انہوں نے کہا ہے کہ ”مائنس نواز“ فارمولا زیر غور تک نہیں ہے۔ نوازشریف تمام تر کرائسز کے باوجود سیاست میں ”گرپ“ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ان کے مخالفین کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ عوام نے انہیں منتخب کیا ہے۔ چند لوگوں کے بیان سے نہیں کہا جا سکتا کہ ن لیگ ٹوٹ گئی ہے۔ ان کی پارٹی کی اکثریت موجود ہے۔ وہ مزید ترامیم بھی کروا سکتے ہیں۔ نوازشریف کو جتنی بھی سزا ہو جائے۔ آئین پاکستان کی رو سے صدر پاکستان ان کی سزا معاف کر سکتے ہیں۔ قتل کے ملزم کو تمام عدالتیں مل کر پھانسی کی سزا دے دیں اور سپریم کورٹ میں اپیل بھی خارج ہو جائے تو بھی صدر پاکستان رحم کی اپیل برائے سزا معاف کر سکتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کو جب صدر ضیاءالحق کے اپیل مسترد کی تو اسے پھانسی دی گئی۔ نوازشریف کے خلاف مالی بے ضابطگی کے کیسز ہیں۔ انہوں نے کسی کو قتل نہیں کیا۔ صدر ممنون حسین انہیں ملنے والی ہر سزا کو معاف کر سکتے ہیں۔ اور اگر وہ ترامیم کے ذریعے نااہلی بھی ختم کروا سکیں تو پھر اقتدار کا راستہ نکال سکتے ہیں۔ عمران خان اور تمام سیاسی پارٹیاں مل کر اگر شور مچاتی رہیں اور صدر سے معافی کی درخواست مسترد کروانے کی کوشش کرتی رہیں اور وہ مسترد کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو انتشار کا خطرہ بن سکتا ہے۔ آصف زرداری مفاہمت کے بادشاہ ہیں وہ کسی وقت بھی بدل جاتے ہیں۔ پاکستان میں بادشاہت ہے۔ جمہوریت تو یہاں ہے ہی نہیں۔ ولی خان کے بعد ان کے رشتہ دار اقتدار میں آئے اسی طرح فضل الرحمن نے اپنے والد کی گدی سنبھال لی۔ اسی طرح سمیع الحق اپنی پارٹی کے صدر ہیں۔ اسی طرح نوازشریف اور شہباز شریف کے بچے، سیاست سے متحرک ہیں۔ مریم نواز کے بارے کہا جا رہا ہے کہ اگلی وزیراعظم وہ ہوں گی۔ اطلاع ملی ہے کہ شہباز شریف اور نوازشریف میں صلح ہو گئی ہے پچھلے دنوں کچھ تناﺅ تھا۔ لیکن سنا ہے کہ وہ تناﺅ آج ختم ہو گیا ہے فیصلہ ہوا ہے کہ اگر نوازشریف مقدمات سے نہ بچ سکے تو شہبازشریف اگلے وزیراعظم اور مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب ہوں گی۔ بڑے اخبارات، جنگ، نوائے وقت کے مقابلے میں کہا جاتا تھا کہ نیا اخبار نکالنا مشکل ہے۔ جنگ کراچی سے لاہور آیا، اسلام آباد گیا،راولپنڈی گیا اسی طرح نوائے وقت اسلام آباد، لاہور سے کراچی تک گیا۔ اس زمانے میں روزنامہ مشرق نکلا۔ وہ این پی ٹی کا اخبار تھا، اس نے سرکاری اخبار کی حیثیت سے بہت زور پکڑا۔ لوگ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا چاہتے ہیں۔ سرکاری خبریں تو ریڈیو، ٹی وی پر مل جاتی تھیں۔ یہ حکومت کے پاس تھے۔ 14 سال نوائے وقت اور جنگ میں رہنے کے بعد میں نے روزنامہ پاکستان نکالا۔ پہلا کمرشل کامیاب اخبار ثابت ہوا۔ تقریباً 5 ماہ میں اس کی سرکولیشن ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔ چیف ایڈیٹر کے طور پر میرا نام چھپتا تھا۔ انہوں نے مجھے علیحدہ کر دیا میں عدالت بھی نہیں گیا۔ اس کے فنانسر اکبر علی بھٹی ایم این اے تھے۔ انہیں میڈیسن کنگ کہا جاتا تھا۔ ”خبریں“ کا تجربہ تلخ تھا۔ میرے پاس فنانسر نہیں تھے۔ ورکنگ صحافی ہونے کے سبب وسائل اتنے موجود نہیں تھے۔ اخبار نکالنے کیلئے اس وقت 20 کروڑ درکار تھے۔ یہ تجربہ بہت مختلف تھا۔ لاکھانی صاحب نے ”ایکسپریس“ نکالا۔ میاں عامر نے ”دنیا“ اخبار نکالا۔ وہ بھی بہت بڑے کاروباری انسان ہیں۔ میاں حنیف صاحب فیصل آباد کے صنعت کار ہیں انہوں نے 92 اخبار نکالا۔ لاہور یونیورسٹی والے رﺅف صاحب نے ”جہان پاکستان“ نکالا سپیریئر یونیورسٹی والوں نے ”نئی بات“ نکالا۔ مختلف تجارتی گروپوں نے اپنے اپنے اخبار نکالے۔ بعض کامیاب بھی ہوئے۔ میرے جاسے کم آمدن والے صحافی جس کے پاس تنخواہ کے سوا کچھ نہ ۔ پبلک لمیٹڈ سیکٹر میں تھوڑے تھوڑے سرمائے اکٹھے کئے گئے جوڑ جوڑ کر تین یا پانچ کروڑ اکٹھے ہوئے۔ اتنے ہی بینک کے لون لے کر ہم نے خبریں لاہور اور اسلام آباد 10 یا 12 کروڑ روپے سے نکال دیا۔ اس کے ڈائریکٹر تھے۔ ہارون آباد کی زمین میں نے بیچی۔ لاہور کا پلاٹ بیچا۔ عزیز رشتہ داروں سے پیسے اکٹھے کئے ایک ساتھی نے پلاٹ بیچ کر اس میں ڈالے۔ حًریں لوگوں سے اکٹھے کئے ہوئے پیسوں سے نکالا جانے والا واحد پبلک لمیٹڈ سیکٹر کا اخبار تھا۔ میں اس کا مالک نہیں ہوں۔ پس شیئر ہولڈر ہوں ہر تین سال کے بعد الیکشن ہوتا ہے۔ یہ نئے تجربے کا اخبار تھا۔ یہی تجربہ صنعتوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ خبریں لاہور اور اسلام آباد سے نکالا پھر ملتان اور پشاور سے نکالا۔ پھر کراچی اور حیدرآباد سے نکالا۔ سکھر اور کراچی سے ”خبرون“ سندھی کا اخبار نکالا کراچی سے اب بھی نکل رہا ہے۔ ”خبراں“ کے نام سے پنجابی اخبار نکالا۔ پنجابی کی ریڈر شپ کم ہے۔ اس میں دو کروڑ کا نقصان کرنے کے بعد اسے بند کر دیا۔ میرے بیٹے عدنان شاہد ”مرحوم“ نے بڑی محنت سے لاہوہر اور اسلام آباد سے ”دی پوسٹ“ کے نام سے خوبصورت انگریزی اخبار نکالا۔ نصرت جاوید صاحب اسلام آباد میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر بنے۔ عمر چیمہ ہمارے چیف رپورٹر تھے۔ امریکہ سے واپسی پر لندن میں 36 سال کی عمر میں عدنان شاہد کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ فوت ہو گئے۔ وہ اخبار نہیں چل سکا۔ ان کی بیگم نے تھوڑی دیر چلانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ ہم کوئٹہ سے خبریں شروع کر رہے ہیں۔ تقریباً ایک ماہ میں سامنے آ جائے گا۔ اس کے علاوہ گوادر سے روزنامہ خبریں کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ اگلے تین مہینوں میں یہ شروع ہو ج ائے گا۔ اس کی پالیسی ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ رکھی تھی۔ محروم طبقے کی نمائندگی کے لئے ہم غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ان کی خبریں چھاپتے ہیں میری بیٹی ڈاکٹر نوشین اور امتنان شاہد اس کے ایڈیٹر ہیں۔ خبریں ہیلپ لائن نہ صرف ان لوگوں کی مدد کرنی ہے۔ ٹیمیں جا کر ان کی حبریں لیتی ہیں اور لیگل ہیلپ کے لئے نوجوان وکلاءان کے کیس بھی لڑتے ہیں۔ خبریں جنوبی پنجاب میں لاہور میں اور کے پی کے میں بھی یہی پریکٹس شروع کرنے والی ہیں۔ ایک خدمت کا جذبہ لئے ہم (25) سلور جوبلی منا رہے ہیں۔ ہم نے پرانے دوستو ںکو آج کے ڈنر پر بلایا ہے۔ بڑی کوشش کی ہے کہ دوسرے شہروں سے بھی لوگ آ کر اس میں شریک ہوں۔ بہت دوستوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا، لیاقت بلوچ صاحب نے پہلا دفتر لے کر دیا اسی طرح اس بلڈنگ کی پہلی منزل انہوں نے لے کر دی پھر ہم آہستہ آہستہ پیسے دیتے گئے اور ساتوں منزلیں خرید لیں۔ دُعا ہے کہ یہ پھلے پھولے اور آگے بڑھے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain