اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے کہا ہے کہ نوازشریف کو نہیں کسی اور کو این آر او کی ضرورت ہے انہیں پارٹی میں کسی انکل سے پرابلم نہیں۔ رائے دینا میرا جمہوری حق ہے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لندن میٹنگ ان لوگوں کو ”پلان“ دکھائی دیتی ہے۔ جو خود پلان بناتے رہے ہیں انہوں نے کہا کہ میاں نوازشریف کے پاکستان تو آنا تھا۔ لیکن میٹنگ سے پہلے شاید شیڈول طے نہیں تھا۔ میاں شہبازشریف اور شاہد خاقان عباسی، والدہ کی عیادت کیلئے لندن گئے تھے۔ پارٹی پالیسی بیان نہ کرنے کا کوئی پیغام مجھے نہیں پہنچایا گیا۔ پارٹی پالیسی بیان دینے کا پہلا حق لیڈر شپ کا ہے۔ پارٹی میں ”سنیارٹی“ لسٹ پر غور کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے پارٹی میں کسی انکل سے کوئی ”پرابلم“ نہیں۔ مسلم لیگ (ن) ایک جمہوری سیاسی پارٹی ہے سب کو اظہار رائے کی آزادی ہے مجھے بھی یہ آزادی حاصل ہے۔ اس پر رہنمائی تو لی جاسکتی ہے لیکن میرا اپنا حق بھی ہے تجربہ حالات سے بہتر ہوجاتا ہے اس کیلئے وقت لازم نہیں ہے۔ کبھی کبھار میاں صاحب سے ڈانٹ بھی پڑ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتساب کے موجودہ عمل میں انصاف کی توقع کم ہے۔ قوم نے دیکھا کس طرح جے آئی ٹی بنائی گئی۔ کس طرح فیصلہ لکھا گیا۔ کس طرح سر کس لگائی گئی۔ سب قوم کے سامنے ہے۔ جے آئی ٹی کے جنات نے جس طرح کام کیا سب کے سامنے ہے، والیم دس کا ”ڈھنڈورا“ کس طرح پیٹا گیا۔ والیم دس میں نے دیکھا ہے اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر کچھ ہوتا تو اقامہ پر فیصلہ نہ ہوتا۔ مریم نواز نے کہا کہ والیم دس کو چھپانے کی درخواست اس لئے کی گئی کہ کوئی ثبوت نہیں ملا۔ جے آئی ٹی کی شرمندگی کو اسی میں بند رہنے دیا جائے۔ اس میں وہ خطوط ہیں جو دوسرے ملکوں کو لکھے گئے۔ اس میں سے اکثر ملکوں نے جواب نہیں دیا۔ جس نے جواب لکھا اس نے پوچھا کہ کیا کرپشن کا عنصر ہے یا غلط کاری کا عنصر ہے؟ سعودی عرب، یو اے ای کو لکھا۔ یو اے ای سے لائے گئے خط جس کو انہوں نے بنیاد بنایا۔ وہ موضوع سے بالکل ہٹ کے تھا۔ ہمارے وکلاءنے بہت مضبوط ثبوت عدالت میں پیش کئے۔ ہمارے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ حقائق یہ ہی کہ ہم نے بہت بہت ثبوت دے۔ اگر ثبوت مضبوط نہ ہوئے تو 10ہزار درہم نہ لینے پر نہ نکالا جاتا۔ مجھ پر مقدمہ مختلف نوعیت کا ہے نہ کاروبار کا ہے نہ کرپشن کا۔ مجھ پر یہ حملے دھرنے کے بعد سے شروع ہوئے۔ میں حق بات کرتی ہوں۔ اسی وجہ سے مجھے ٹارگٹ کیا گیا۔ پہلے ڈان لیکس میں گھسیٹا گیا پھر پانامہ میں ۔ ڈان لیکس کے مرکزی کردار کو انجام مل گیا۔ میں اس کا نام نہیں لوں گی میں اپنے بیانات سے والد کو پھنسانا نہیں چاہتی۔ نڈر لوگوں کو ڈان لیکس، مقدمات، جیل یا پانامہ سے ڈرایا نہیں جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ جس شخص کے اربوں کے اثاثے دکھائے گئے ا ن کو دس ہزار درہم چھپانے پر سزا عجیب نہیں؟ ہمارا سوال بنتا ہے توہین عدالت کہنے والے سوچیں۔ میاں نوازشریف نے دن رات ملک کی ترقی کیلئے کوششیں کیں۔ حادثات اور واقعات انسان کو نظریاتی بناتے ہیں۔ میاں صاحب نے خود کہا کہ مجھے حالات اور واقعات سے نظریاتی بنادیا۔ میاں نواز شریف نے گزشتہ چار سال کے دوران جتنی مفاہمت کی وہ صرف ملک کی خاطر تھی تاکہ ملک ترقی کرے، کوئی چیز ایسی نہ ہو جس سے ملک کی ترقی، سسٹم کو نقصان پہنچے، اس کیلئے انہوں نے بہت کچھ برداشت کیا، میری ذاتی رائے ہے کہ میاں نواز شریف کواکثر سمجھوتے نہیں کرنے چاہئیں تھے، جنہیں ان کی کمزوری کے طور پر لیا گیا، ان کی وجہ سے ایک تاثر یہ لیا گیا کہ یہ انکی کمزوری ہے، بعد ازاں ان سمجھوتوں کو انہیں کمزور کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ انہیں اصول پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے تھا، انہوں نے اپنی ذات کیلئے کوئی آپشن استعمال نہیںکیا، این آر او کی میاں صا حب کو ضرورت نہیں، اس میں فریق ثانی کون ہے؟ انہیں کون دے گا، ابھی سارے آپشن ان کے پاس موجود ہیں، ہماری پوری فیملی نے سزائیں بھگتیں، جلا وطنی کاٹی، میاں نواز شریف نے2013 ءکے الیکشن سے پہلے کہہ دیا تھا میمو گیٹ پر پریشر نہیں بننا چاہئے تھا، یہ غلط ہوا، مسلم لیگ (ن) نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھا، قربانیاں دے کر ازالہ کیا، میاں صاحب پہلے وزیراعظم نہیں جنہیں نکالا گیا، یہ18 وزراءاعظم کی زیادتی کی تلافی بھی ہے، زرداری صاحب کے بیان کی ابھی مجھے سمجھ نہیں آرہی، وہ کسی اور کی زبان بول رہے ہیں، آج جو لوگ خوشی خوشی استعمال ہورہے ہیں زرداری صاحب کو فون کرکے سوال کرنا میرا حق نہیں، پارٹی لیڈر شپ انہیں فون کرسکتی ہے، پارٹی پالیسی بنانا میرا استحقاق نہیں ہے، میاں نواز شریف کا پیغام عوام تک پہنچا، ووٹ کا تقدس عوام نے ان کے بیان سے سمجھ لیا اور قبول کیا، نااہلی سے جو اہداف درکار تھے وہ حاصل نہیں ہوسکے، لیکن ڈس کریڈیٹ نہیں کیا جاسکا۔ تمام آئینی اور قانونی اداروں کا احترام ہونا چاہئے، پارلیمنٹ آئین ساز ادارہ ہے، ابھی تو لوگ خوشی خوشی نواز شریف کو گرانے میں استعمال ہورہے ہیں، انہیں سمجھ لینا چاہئے، نواز شریف اس کے باوجود” قابل قبول ہیں“۔ کچھ لوگ تو قابل قبول ہیں ہی نہیں، نواز شریف کو نکالنے کے بعد کس کی باری ہوگی وہ سوچ لیں، اسکا جواب عوام پر چھوڑتی ہوں کہ پیچھے کون ہے۔” انصاف“ تنقید کے مرہون منت نہیں ہے، تنقید کرینگے تو انصاف نہیں ملے گا، تنقید نہیں کرینگے تو انصاف ملے گا، اسکا مطلب ہے ادھر غصہ ہے، فیصلہ عجلت میں دیا گیا، حمزہ اپنے ذاتی کام کی وجہ سے این اے120 کی انتخابی مہم میں شریک نہ ہوسکے اور باہر چلے گئے، میں نے الیکشن جیتنے کے وقت جو کچھ کہا وہ آنکھوں سے دیکھا تھا، میں حقائق جانتی ہوں، وہاں کیا ہوا، ایسے کاموں کو روکنا لیڈر شپ کا کام ہے، یہ ایک بہت بڑا ایشو ہے، الیکشن کے دو چار روز قبل ہی اسی پر کام شروع ہوچکا تھا، اسکی جھلک این اے4 پشاور میں بھی نظر آئی، میڈیا اور آزاد مبصرین کو وہاں کیوں نہیں جانے دیا گیا، اسکا مطلب چھپانے کیلئے کچھ تھا، ووٹر بہت سمجھ دار ہے، سب جانتے ہیں، پانامہ کرپشن یا منی لانڈرنگ کا کیس نہیں، ایک عدالت سے دوسری عدالت دوسری سے تیسری، کوشش ہے میاں نواز شریف کے خلاف کچھ بنا کر عوام کو دکھایا جائے، پانامہ میں کرپشن کا الزام نہیں تھا، فیملی معاملات کیلئے کسی نے کمپنی بنائی، اس میں کسی کا حق نہیں بنتا کہ اسے بھری عدالت میں اچھالے، بیٹی باپ کے گھر میں کیوں رہتی ہے، باپ نے بیٹی کو تحفے کیوں دیئے، بیٹے نے باپ کو کما کر کیوں دیا، اخلاق سے گری ہوئی حرکات سے انصاف کو بد نام کیا گیا، کبھی سسلین مافیا کہا گیا، کبھی ڈان کہا گیا، کبھی گاڈ فادر کہا گیا، انہوں نے کہا کہ فیصلہ آنے سے پہلے انصاف کا قتل عام کیا گیا ہے۔ نیب ریفرنسز جس طرح بنائے گئے وہ اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہے۔ میاں نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس میں کسی بھی وزارت عظمیٰ کے دور کی کرپشن یا کک بیک کا الزام نہیں ہے۔ الزام یہ ہے کہ بیٹوں کے کاروبار کا اصل پیسہ میاں صاحب کا ہے۔ میاں صاحب نہیں بتا سکے اس لیے وہ مورد الزام ٹھہرے۔ حسین بہت عرصے سے کاروبار کر رہا ہے حسن، حسین کو پیسہ ان کے والد سے نہیں گیا وہ ارب پتی دادا کے پوتے ہیں۔ دادا کا اثاثہ معاہدے کے تحت پوتوں کو دیا گیا پورے خاندان کے دستخط موجود ہیں۔ مجھ پر ٹرسٹ ڈیڈ کا کیس بنا۔ جہانگیر ترین پر بھی یہی کیس تھا فرق صاف دکھائی دیتا ہے ہمارے لیے پیمانے اور دوسرے کیلئے انصاف کے پیمانے اور ہیں ان کے وکیل نے کہا ٹرسٹ ڈیڈ کو اوپن کرنے کا قانون موجود نہیں۔ ہماری باری پر عدالت میں تماشہ بنایا گیا ہم نے ٹرسٹ ڈیڈ بھی عدالت میں جمع کروا دی۔ جائیداد میرے بھائی کی تھیں اگر میری تھیں تو ثبوت کہاں ہیں دنیا میں کوئی تو ثبوت ہو گا بس فیصلہ پہلے ہو چکا ہوا ہے۔ کیپٹن (ر) صفدر نے پارلیمنٹ میں جب تقریر کی وہ انکی ذاتی رائے تھی اسکا پارٹی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پارٹی میں اکاﺅنٹی بیلٹی ہے غلط بولنے پر سب کو ڈانٹ پڑتی ہے مجھے بھی پڑی کیپٹن (ر) صفدر کو بھی پڑی۔