ریاض (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف تاریخی کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزام میں 11 شہزادے، چار وزراءاور درجنوں سابق وزراءکو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتار افراد میں نیشنل گارڈ کے سربراہ شہزادہ مطعب بن عبداللہ، وزیر معیشت عادل فقیہہ اور کھرب پتی شہزاد ولید بن طلال بھی شامل ہیں۔ عرب میڈیا کے مطابق ان تین شہزادوں پر اسلحہ کی غیرقانونی تجارت، منی لانڈرنگ اور مالی خورد برد کا الزام ہے۔ مشتبہ شخصیات کو ملک چھوڑنے سے روکنے کے لئے نجی پروازیں گراؤنڈ کر دی گئی ہیں۔ سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اینٹی کرپشن کمیٹی بنا کر ملک میں مبینہ کرپشن کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن کیا ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اینٹی کرپشن کمیٹی کا سربراہ مقرر کرنے کے ساتھ ہی انتہائی اہم شخصیات کی گرفتاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ الزامات کی نوعیت کا اعلان نہیں کیا گیا مگر برطرف کی گئی شخصیات میں نیشنل گارڈ کے سربراہ شہزادہ مطعب بن عبداللہ بھی شامل ہیں۔ سابق بادشاہ عبداللہ کے بیٹے کی جگہ شہزادہ خالد ریاف کو نیشنل گارڈ کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ وزیر معیشت عادل فقیہہ کو بھی برطرف کر کے التویجری کو قلمدان سونپ دیا گیا ہے۔ معمرا لتویجری وزیر معیشت کے نائب اور حالیہ مالیاتی پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار کے حامل تھے۔ سعودی بحریہ کے کمانڈر عبداللہ السلطان کو بھی عہدے سے ہٹا کر وائس ایڈمرل فات الفافلی کا ایڈمرل کی حیثیت سے تقرر کر دیا گیا ہے۔ گرفتار کئے گئے دیگر شہزادوں میں کھرب پتی شہزادہ ولید بن طلال بھی شامل ہیں جبکہ مشتبہ شخصیات کو ملک چھوڑنے سے روکنے کے لئے نجی پروازوں کو گراؤنڈ کر دیا گیا ہے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق شاہی خاندان کے گرفتار تین افراد میں سے ایک شہزادے کو اسلحہ کی غیرقانونی تجارت کرنے، دوسرے کو منی لانڈرنگ اور تیسرے شہزادے کو جعلی ٹینڈر اور مالی خوردبرد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کریک ڈاؤن سے پہلے سعودی عرب میں ستمبر کے دوران بھی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئی تھیں جن میں علماءسمیت درجنوں شخصیات کو حراست میں لے لیا گیا تھا جبکہ سعودی بادشاہ نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سربراہی میں کمیٹی بنا دی ہے جو ملزموں کی نشاندہی اور جرائم کی تحقیقات کرے گی۔ جدہ میں سیلاب اور برڈ وائرس سے سینکڑوں اموات کی تحقیقات کا باب پھر سے کھول دیا گیا ہے۔ شاہی فرمان کے مطابق کرپشن کو جڑ سے نہ اکھاڑا گیا اور کرپٹ عناصر کا احتساب نہ ہوا مادر وطن نہیں رہے گا۔ اینٹی کرپشن کمیٹی کو ملزمان کی گرفتاری کے احکامات جاری کرنے کا بھی اختیار حاصل ہے جبکہ ملزموں کے اثاثے منجمد اور ان کے بیرون ملک سفر پر پابندی بھی عائد کی جا سکے گی۔ شاہی فرمان کے مطابق کمیٹی بعض افراد کی جانب سے ذاتی مفادات کو فوقیت دینے اور عوامی فنڈ چوری کرنے کے سبب بنائی گئی۔ 2009ءمیں جدہ سیلاب اور 2012ءمیں وائرس سے اموات کے معاملہ کی دوبارہ تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ 2009ءمیںجدہ میں آئے سیلاب سے 120 افراد ہلاک اور سینکڑوں گھروں کو نقصان پہنچا تھا۔ 2014ءمیں اس حوالے سے عدالتی فیصلہ میں 45 افراد کو طاقت کے غلط استعمال اور رشوت خوری میں ملوث پایا گیا تھا جبکہ 2014ءمیں وائرس کے سبب سعودی عرب میں 300 افراد ہلاک ہوئے تھے اور وزیر صحت کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑ گیا تھا جبکہ امریکی میڈیا کے مطابق سعودی علماءنے بیان جاری کیا ہے جس میں کرپشن کے خلاف جنگ کو مذہبی فریضہ قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ دہشت گردی سے لڑنا جس قدر اہم ہے اتنا ہی کرپشن کے خلاف جنگ بھی اہمیت رکھتی ہے۔ سعودی عرب میں دہشت گردی اور اس کی معاونت کے خلاف نئے قوانین کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔ دہشت گردی اور اس کی فنڈنگ کرنے والوں کو سزائے موت بھی دی جا سکے گی۔ سعودی عرب کے بادشاہ اور ولی عہد کو بدنام یا ان کی توہین کرنے والے شخص کو پانچ سے 10 سال سزائے قید ہو گی جبکہ اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد کے ساتھ دہشت گرد حملہ کرنے والے کو 10 سے 30 سال قید سزا سنائی جا سکے گی۔ اسلحہ اور ٹیلی کمیونی کیشن آلات کے ذریعے دہشت گردی کی تربیت لینے والوں کو 20 سے 30 سال قید کی سزا دی جا سکے گی جبکہ اکیڈمک سماجی یا میڈیا کے ذریعے اپنے اسٹیٹس کو غلط استعمال کرنے والے کو 15 سال جیل میں گزارنا ہونگے۔