لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے مصحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس آنے کے بعد ایکشن تو ہوا لیکن سلیم سیف اللہ خاندان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ان کی 20 یا 22 آف شور کمپنیاں تھیں۔ میں نے سلیم سیف اللہ کو فون کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بری محنت سے صنعتیں لگائیں تھیں اور تمام ٹیکس ادا کئے ہیں ہم ٹیکس چور نہیں نہ ہی کوئی غیر قانونی کام کیا۔ آف شور کمپنیاں بنانا کوئی عیر قانونی کام نہیں۔ ان کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے تاہم نیب کو انہیںبھی طلب کرنا چاہئے۔ شوکت عزیز پر پہلا الزام یہ تھا کہ پرویز مشرف نے انہیں ”سٹی بینک نیویارک“ سے طلب کیا تھا۔ شوکت عزیز نے قبول کیا کہ وہ پہلے بھی پاکستان آتے رہے۔ اور نوازشریف نے وزیراعظم کی حیثیت سے ان سے مشاورت بھی کی۔ جب انہیں وزیرخزانہ مقرر کیا گیا تو اس وقت بھی ان پر کچھ الزامات لگے۔ ان میں سے ایک الزام یہ تھا کہ جب وہ وزیراعظم بنے انہوں نے اسٹیل ملز کو بھیجنے کی کوشش کی تھی۔ الزام یہ تھا کہ یہ اپنی مرضی کے بندے کو، یعنی فرنٹ مین کے ذریعے اسے بیچنا چاہتے تھے۔ شاید کسی انڈین پارٹی کے ہاتھوں فروخت کر رہے تھے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر اس کی فروخت روک دی گئی۔ پیراڈائس لیکس میں ان کا نام آنے سے ثابت ہوا تو ان پر الزام درست تھے۔ یہاں سے جانے کے بعد وہ اسے غائب ہوئے جیسے ”گدھے کے سر سے سینگ“ بعد میں پتا چلا کہ وہ بھارت کے لئے بہت سے کاروبار کو لندن میں دیکھ رہےہیں۔ ان کے خلاف الزامات ہیں تو ادارے انہیںپاکستان لے کر آئیں۔ شوکت عزیز بھی چھپنے کی بجائے خود کو احتساب عدالت میں پیش کر کے کلیئر کرا لیں الیکشن لڑتے وقت شوکت عزیز نے اپنے اثاثے نہیں دکھائے تھے۔ میاں منشا کا نام بھی پیراڈائز لیکس میں آیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ میری فیملی باہر مقیم ہے۔ اس لئے وہ پاکستانی قانون کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ وہ ایک امیر ترین آدمی ہیں ان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ ایم سی بی بینک میاں نوازشریف نے انہیں اونے پونے دیا تھا۔ وہ پاکستان کے امیر ترین انسان ہیں۔ وہ بھی خود کو کلیئر کروائیں۔ ان کے خلاف اداروں نے الیکشن لیا تو نوازشریف نے انہیں روک دیا تھا۔ اس وقت نیب چیئرمین جاوید اقبال کا امتحان ہے کہ وہ پیراڈائز لیکس میں آنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔ اس میں بہت بڑے بڑے لوگوں کے نام آئے ہیں برطانیہ کی ملکہ اردن کی ملکہ اور سعودی شہزادوں کے نام بھی آ گئے ہیں۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کام اب بڑھ گیا ہے۔ اس لیکس کے بعد اب انہیںچیلنج سمجھ کر کارروائیاں کرنی ہوں گی۔ ملکہ برطانیہ اور سعودی فرماروا۔ قطری شہزادہ بھی اس میں شامل ہیں۔ قطری شہزادہ بھی اپنے ملک سے پیسہ باہر لے گئے اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ میڈونا کو ان لوگوں میں شامل کرنا درست نہیں اس نے تو ناچ گانا کر کے لوگوں کی جیب سے پیسے حاصل کئے۔ اس کے مقابلے میں وزیراعظم، وزیرخزانہ، وزیر خارجہ، ملکہ، شہزادے، ٹرمپ کے 11 ساتھی وہ لوگ ہیں جنہیں لوگ اپنے مفاد کے لئے آگے لاتے ہیں اور امانت دار بناتے ہیں امریکہ میں کانگریس اہلکار وزیر نہیں بن سکتے۔ صدر اپنی مرضی سے شفاف اور دیانت دار لوگوں کو آگے لاتا ہے۔ ٹرمپ کے 11 ساتھیوں کے نام اس میں آئے ہیں۔ یہ ٹرمپ کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ سعودی عرب کا ہم سب احترام کرتے ہیں۔ ان کے اداروں کا احترام کرتے ہی میری فیملی 20 سال مدینہ منورہ میں رہی۔ وہاں ایک عام شرتہ کسی کو پکڑے تو اسے کوئی چھڑوا نہیں سکتا۔ افسوس ہوا یہ سن کر کہ وہاں کے شہزادوں اور بادشاہ کے بچوں اور رشتہ داروں کے نام بھی اس لیکس میں آ گئے ہیں۔ سعودی عرب میں مقامات مقدسہ ہیں۔ وہاں کے امام کا بھی ہم بہت احترام کرتے ہیں اگر وہ امام یہاں آ جائیں تو ہم خوش قسمتی سمجھتے ہیں کہ ان کے پیچھے نماز پڑھیں دنیا کے بڑے بڑے کاروبار ان شہزادوں کے ہاتھ میں ہیں۔ پراپرٹی ہو چاول کی درآمد ہو۔ یا کوئی اور بڑا کاروبار پوری دنیا میں سعودی شہزادوں کے کاروبار پھیلے ہوئے ہیں۔ ہمارے دلوں میں ان کے بہت احترام ہیں۔ ٹرمپ آیا تو سعودی فرماروا اسے چھوڑ کر نماز پڑھتے چلے گئے۔ ہم انہیں اس احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پیراڈائز لیکس کے ایک کروڑ دستاویزات ہیں۔ جو باقاعدہ دستخط شدہ ہیں۔ اس میں نام آنے کے بعد کوئی کسی طرح جھوٹ بول سکے گا کہ یہ اس کا اثاثہ نہیں ہے۔ اب آپ کہتے رہیں کہ ”مجھے کیوں نکالا“ ہمیں انتظار کر لینا چاہئے کہ عدالت میاں نوازشریف کے بارے فیصلے دیدے۔ اگر وہ بے گناہ ہیں تو سر آنکھوں پر اگر عدالت انہیں قصور سمجھ کر سزا دیتی ہے تو ہم کہیں گے کہ انہیں زیادہ سزا دیں کیونکہ ہم نے انہیں اہل سمجھ کر چنا تھا۔ ہم خوش تھے کہ سعودی فرماروا نے جن کو پکڑا ہے۔ وہ سیاسی اختلاف نہیں بلکہ شہنشاہی اختلاف ہے۔ جس کی ٹوٹی کسنی تھی۔ اور اسے مروڑنا تھا اسے پکڑا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ عام بات ہےکہ سیاسی مقاصد کیلئے ان لوگوں کو پکڑا گیا ہے۔ اگر ان مقاصد کے لئے نہیں بھی پکڑا گیا تو ہم واہ واہ کر رہے تھے کہ سعودی فرما روا نے کمال بیان دیا ہے کہ جو بھی غلط کرے گا میں اس کو پکڑوں گا۔ ان کے اپنے بارے میں کیا خیال ہے۔ فارن میڈیا ضرور مزید کھوج نکال لے گا کہ سعودی شہزادے طلال ولید کا اصل قصہ کیا ہے۔ ٹرمپ کی بیٹی، امریکہ میں وسیع کاروبار انہی شہمادے کا ہے اصل دلکشی مال کی ہوتی ہے۔ امریکی خاتون صدر کی بیٹی ہو یا ملکہ یا کوئی اور شہزادی وہ بھی مال پر مرتی ہے۔ گجرات کے ایک فراڈیے کے بہت قصے مشہور ہوئے۔ اس کے بہت بڑے بڑے کاروبار تھے جہاز بھی کھرے تھے اور نہ جانے کیا کیا تھا۔ یہاں آئے تو نعیم بخاری کا گھر صاف ہو گیا۔ وہ بُری شکل کا آدمی تھا۔ لیکن عورتیں اس پر مرتی تھیں۔ روپیہ سب کچھ چھپا لیتا ہے۔ میںحیران ہوں جس طرح خواجہ آصف نے روپ بدلا ہے۔ ان کے بیانات فوج کے لئے بہت سخت آتے رہے۔ امریکہ گئے تو کہتے ہیں ہم آپ کے حکم پر جہاں کہیں گے بمباری کریں گے۔ حافظ سعید کا مدرسہ ہو یا منصورہ ہو۔ جہاں امریکہ بہادر رہے گا ہم حکم مانیں گے اور وہاں بمباری کریں گے۔ یہ قمر جاوید باجوہ کی میزبانی ہے یا خدا نے ان کے دل میں کئی چمک ڈال دی کہ وہ بالکل ہی بدل گئے بلکہ الٹ ہو گئے۔ معلوم نہیں اب انہیں کہنا چاہئے ”کوئی شرم ہوتی ہے۔ کوئی حیا ہوتی ہے“ لیکن پھر بھی ہم ان کی تعریف کرتے ہیں کہ شاید ملکی مفاد کی وجہ سے۔ انہوں نے امریکہ بہادر کو تھوڑی تھوڑی آنکھ دکھانا شروع کر دی ہے۔ خواجہ صاحب کے عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے دکھائی دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ”نو ڈو مور“ امریکہ انڈیا کو منع کرنے کہ اس کا اثررسوخ افغانستان میں کیوں بڑھ رہا ہے۔ ہم اسے قبول نہیں کرتے چودھری برادران حلیم طبع کے انسان ہیں۔ کبھی ان کی طبیعت میں اکڑ اور غصہ دکھائی نہیں دیا۔ وہ عدالت میں پیش ہو گئے۔ وہ اپنے سوالات کا جواب دیں گے۔ عدالت جتنے سوال پوچھے انہیں جواب دے دینا چاہئے۔ ان کے والد ظہورالٰہی نے کبھی عدالت میں مات نہیں کھائی۔ وہ ہمیشہ عدالت سے جیت گئے۔ اسی طرح چوہدری برادران عدالت کے 75 چھوڑ 150 سال بھی ہوں تو اس کا جواب ضرور رہی۔