لاہور (رپورٹنگ ٹیم) بھارت ستلج، بیاس اور راوی کا پانی سوفیصد بند نہیں کرسکتا، سندھ طاس کا معاہد ہ 1960 میں ہوا تھا،یہ تاثر غلط ہے کہ ہم نے دریا بیچ دیئے، ہم نے تو دریاﺅں کے زرعی پانی کا معاہدہ کیا تھا،سندھ ،جہلم اور چناب کا زرعی پانی پاکستان کے حصے میں آیا اور ستلج،راوی اور بیاس کا زرعی پانی انڈیا کے پاس چلا گیا،مگر بھارت ستلج ،راوی اور بیاس کا سارا پانی بند کر کے دریاﺅں کو مار رہا ہے ہم بھارت کی آبی دہشت گردی پر چپ نہیں بیٹھیں گے ان خیالات کا اظہار معروف دانشور صحافی و چیف ایگزیکٹیو خبریں گروپ ضیاشاہد نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں بطور مہمان خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا انڈیا تویہ بھی زیادتی کر رہا ہے کہ ہمارے حصے میں آنے والے دریاﺅں پر بھی زراعت کے لئے ڈیم بنا رہا ہے، لیکن ہمارے کسی نئے ڈیم کے خلاف مہم چلاتا ہے اور یہ پروپیگنڈا بھی کرتا ہے کہ پاکستان کو پانی کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہ ڈیم نہیں بناتا اور پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کرتا ہے انہوں نے کہایہ انٹرنیشنل لا ءہے کہ دریاوں میں تھوڑا تھوڑا پانی چھوڑا جاتا ہے کیونکہ مکمل پانی بند ہونے کی وجہ سے پینے کا پانے بہت نیچے چلا جاتا ہے اورآبی حیات اور ماحولیات کی بھی تباہی ہوجاتی ہے،ستلج مکمل خشک ہو چکا ہے، راوی اور بیاس میں پانی مکمل بند ہے، پاکستان بننے سے پہلے نواب آف بہاولپور نے ستلج ویلی پروجیکٹ کے تحت چولستان میں کچھ نہریں بنائیں، مگر ستلج کے مکمل بند ہونے کی وجہ سے وہ نہریں بھی تباہ ہوگئی ہیں اور بہاولپور،رحیم یار خان اور بہاولنگر اور پاکپتن،ساہیوال اور لودھراں متاثر ہوئے ہیں، نواب آف بہاولپور نے کہا تھا، چولستان اور ریاست کے باقی اضلاع پاکستان کی فوڈ باسکٹ ہوگی مگر پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ رقبہ بنجر پڑا ہے، بیکانیر ریاست اور بہاولپور کے درمیان بھی پانی لینے کا معاہدہ ہوا۔ انڈیا نے ستلج بند کیا تو ساری نہروں کا رخ راجھستان کی طرف موڑ کر اسے سرسبز شاداب بنا دیا گیا جبکہ ہماراچولستان ٹوٹل بنجر ہوچکا ہے ۔محکمہ صحت کی رپورٹ ہے کہ بہاولنگر میں گردے کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، آرسینک کی مقدار بڑھ گئی ہے اب کرنا کیا ہے؟جبکہ راوی تو سیوریج کا دریا بن چکا ہے،جس کا ایک گھونٹ بھی منہ کو نہیں لگایا جاسکتا۔ انہوں نے کہا 1970ءکے انٹرنیشنل واٹر کنونشن رولز کے مطابق بھی کوئی ملک دریاﺅں کو مکمل بند نہیں کرسکتا ،اس لیے بھارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ کم از کم بیس فیصد پانی ان دریاﺅں میں چھوڑے، ضیاشاہد نے کہا ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ معاہدہ پر جانے سے قبل ایک ملاقات میں کہا تھا کہ معاہدے صرف کاغذ کا ٹکڑا ہوتے ہیں جنہیں کسی وقت بھی پھاڑا جاسکتا ہے لیکن ہمیں سندھ طاس معاہدے کوپھاڑنا تو نہیں چاہیئے مگر انڈیا پر اتنا عوامی پریشر ڈالا جائے کہ وہ ان دریاﺅں میں پانی چھوڑنے پر مجبور ہوجائے،تقریب کی نظامت کے فرائض سکرٹری شاہد رشید نے ادا کیے، تقریب میں شرکاءکی کثیر تعداد موجود تھی جن میں مختلف یونیورسٹیز اور کالجز کے طلباءوطالبات بھی شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ انڈس واٹر ٹریٹی میں واضح طور پر درج ہے کہ بھارت جہلم چناب اور سندھ جن بھارتی علاقوں سے گزرتا ہے وہاں اسے پینے کےلئے پانی، ماحولیات کےلئے پانی اور آبی حیات کے لئے پانی لینے اور استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ جب اپنے لئے اسی معاہدے کے تحت یہ تینوں قسم کا پانی جائز قرار دیتا ہے جو پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاﺅں سے لیا جا رہا ہے تو ہمارے غیر زرعی استعمال کےلئے ستلج بیاس اور راوی سے ماحولیات، آبی حیات اور پینے کا پانی کیوں بند کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1970 کے انٹرنیشنل واٹر معاہدے کے تحت دریا کے زیریں حصے میں خواہ وہ کسی ملک کے حصے میں ہو 100فیصد پانی بند نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کاشتکاروں اور شہریوں سے اپیل کی کہ جو سہولت جہلم ستلج اور بیراج سے حاصل کر رہا ہے وہی سہولت بیاس اور راوی میں پانی چھوڑ کر پاکستانیوں کو دی جائے۔ انہوں نے کہا یہ بات بھی غلط ہے کہ ہم نے دو دریا بھارت کے ہاتھ بیچ دئیے تھے۔ سندھ طاس معاہدہ میں صاف درج ہے کہ یہ دریاﺅں کا معاہدہ نہیں جنہیں پورا کسی ایک ملک کے سپرد کیا جا سکے بلکہ زرعی صاف پانی کا معاہدہ ہے چنانچہ بھارت راوی اور ستلج کا جو حصہ ہمارے ملک میں سے گزرتا ہے اس میں آبی حیات ماحولیات اور پینے کےلئے پانی چھوڑنے پر مجبور ہے اور ہم انٹرنیشنل کنونشن کے بتائے ہوئے قوانین کے تحت عالمی عدالت میں جا سکتے ہیں جو اب پوری دنیا کے ہر ملک میں تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ضیاشاہد نے کہا کہ 100فیصد پانی کی بندش سے ستلج اور راوی سے ری چارجنگ ختم ہو گئی ہے اور پانی بہت نیچے چلا گیا ہے۔ ریاست بہاولپور کے تین اضلاع میں پانی 100 فٹ سے زیادہ گہرے پانی میں بھی سنکھیا کی آمد شروع ہو گئی ہے جس سے جگر گردے کے امراض اور یرقان اور کینسر تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی عوام سے اپیل کی کہ اس صورتحال کو بھارت کی آبی جارحیت نہ کہا جائے بلکہ یہ آبی دہشتگردی ہے۔ جو ہمیں پینے کا پانی، درختوں، سبزے اور آبی حیات سے محروم کر رہی ہے۔ پاکستانی اور بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمے دائر کریں۔