لاہور(وقائع نگار/خبر نگار)بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاﺅں پر57 برس سے جاری آبی دہشت گردی کے حوالے سے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام سیمینار کا اہتمام کیا گیا،سیمینار میں چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں ضیا شاہد کو ملک کے اس حساس موضوع پر تکنیکی اور قانونی پہلوﺅںپرخطاب کے لیے مدعو کیا گیا ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں رہ کر پاکستان کی خاطر کسی عظیم مقصدکو حاصل کرنے کےلئے جدوجہد کی جائے تو اللہ پاک کی نصرت اور رحمت انسان کو ملتی ہے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آج سے تین ماہ پہلے جس کام کا آغازنظریہ پاکستان ٹرسٹ سے کیا گیاتھااس کو اتنی پزیرائی ملے گی اور آج یہ آواز یورپی یونین اور برطانوی پارلیمنٹ تک پہنچ چکی ہے جبکہ مغربی ممالک کی سب سے طاقتور تنظیم یورپی یونین اور برطانوی پارلیمنٹ کے آبی مسئلے بارے خطوط آنے شروع ہوگئے ہیں جس کےلئے ہم راوی ستلج واٹر فورم کے زیراہتمام تیاری کر رہے ہیں اور جلد اپنے مندوبین یورپ بھیجیں گے یہ سب کچھ اس ادارے سے شروع کیاگیا۔ درحقیقت یہ صرف دریائی پانی کے استعمال کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کا براہ راست تعلق خطے کی ماحولیات سے ہے اور یہی ہمارا کیس ہے جو ہم دنیا کو سمجھانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزیدکہا کہ میری صحت تو اجازت نہیں دیتی لیکن میں پاکستان کے لیے یہ کام کو مکمل کرنا چاہتا ہوں اوربھارتی آبی دہشت گردی میرا آخری بڑا کام ہے جو میرے اور میرے ملک کے لئے اہم ہے میں نے اس حوالے سے پاکستان بھر میں پچھلے تین ماہ میں دریاﺅں کی صورت حال بارے مختلف علاقوں کے دورے کئے اور کئی اجتماعات سے اس بارے خطاب بھی کئے ان خطابات کے دوران جو مجھے محسوس ہو ا کہ اس لفظ کوآبی دہشت گردی کی بجائے بھارت کی دریائی دہشت گردی کانام دیاجائے کیونکہ ہمارے دریا اسکی دہشت گردی کے شکار ہیں ۔جس پر آج تک کسی نے صحیح معنوں میں کام ہی نہیں کیا میں نے اس پر کام کر نے کےلئے سب سے پہلے انڈس واٹر کمیشن کی دستاویز کا مطالعہ کیا اور اب موجودہ کمشنر مرزا آصف بیگ اور کچھ وکلاءجن میں سے ایک وکیل جو عالمی عدالت میں پانی کا کیس لڑ چکے ہیں سے ملا اور تمام تر معلومات حاصل کر نے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا آج تک جو ہمیں تاثر دیا جاتا رہا کہ 1960میں سند ھ طاس معاہدے کے تحت ہم نے اپنے تین دریا ستلج ،بیاس،روای فروخت کردئے گئے یہ تاثر ہی غلط ہے۔ 1960میں جو معاہدہ ہوا اس کے مطابق ہندوستان سے صرف زرعی پانی کا معاہد ہ ہوا تھا نہ کہ سارے پانی کے استعمال کا معاہدہ ہوا تھا ۔اس میں طے ہونے والی شقوں کو چھپایا جارہا ہے کیوں کہ اس میں ہمارے لیڈروں ،بیورکریٹس اور ماہرین کی نا اہلی تھی اور اس نااہلی کو آج تک ہماری قوم نے بھی نہیں سمجھا کیونکہ یہ کتاب انگریزی میں شائع ہوئی ہے اب میں اس کا ترجمہ کروایا ہے اردو میں شائع کروانگا انشااللہ تاکہ ہماری قوم اس کو پڑھے اور سمجھے کہ بھارت نے تو جو ہمارے ساتھ کیا۔ 1960سندھ طاس معاہدے کے مطابق خطے کے تین دریا چناب ،جہلم اور سندھ ہمارے حصے میں اور ستلج ،بیاس اور راوی بھارت کے حصے میں آئے اسی معاہدے میں بھارت نے ایک شق رکھوائی اور اس کو باور کراتے ہوئے پاکستان سے دستخط بھی کروائے اس شق کے مطابق تین دریا جن میں چناب ،جہلم اور سندھ جو پاکستان کے حصے میں آئے ہیں وہ بھارت کے جس حصے میں بہتے ہیں ان پر زرعی پانی کے علاوہ باقی تینوںطرح کے استعمال پراس کا حق ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔لیکن ہمارے نااہل لوگوں نے بھارت سے یہ باور نہ کرایا کہ تین دریا جو بھارت کے حصے میں آئے ہیں ان پر بھی پاکستان کا ویسا ہی حق ہوگا جیسے بھارت کا ہے اور نہ اس بارے دستخط کراوئے گئے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ زرعی پانی کے علاوہ پانی کے تین استعمال اور بھی تھے پہلا استعمال گھریلو پانی جس سے گھریلو استعمال کےلئے پانی دوسرا آبی حیات جن میں دریائی مخلوق جانور ،مویشی ،چرند پرندوغیرہ اوراس پانی کا تیسرا استعمال ماحولیات کا تھاتاکہ پانی کے بہاﺅ کے اردگرد درختوں کا اگنا سبزہ کا اگتا رہے ۔ انہوں نے 1961-62کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ دریا بند کر دیئے گئے تو ستلج جو ہیڈ سلمانکی سے شروع ہوکر پنجندتک جاتا تھا اس کے کنارے 72ہزار ماہی گیر آباد تھے جن کا ذریعہ معاش صرف مچھلی پکڑنا تھا وہ بے روزگا ر اور بے گھر ہوکر رہے گئے اسطرح بھارت نے پاکستان کا معاشی قتل کیا اسکو دہشت گردی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے۔ ستلج کی صورتحال دیکھنے کےلئے قصور گیا وہاں گنڈاسنگھ کے علاقے میں گیا جہاں پر بھارت نے ستلج کو لکڑی کے پشتوں سے بند کیا ہوا ہے تاکہ پانی پاکستان نہ جائے صاف پانی تو بند کر دیا ہے لیکن بھارت نے صنعتی علاقے کا گندہ زہریلا کیمیکلز زدہ پانی پاکستان میں چھوڑ رہا ہے یہ پانی گنڈاسنگھ ستلج میں اور ہڈیارہ نالے سے راوی میں آرہا ہے جو انتہاہی خطرناک اور مضر صیحت پانی ہماری طرف چھوڑ رہا ہے اور یہ زہریلا پانی راوی کے ذریعے بھی دوسرے دریاﺅں میں جارہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس سے ہٹ کر میں نے سالانہ نیشنل ہیلتھ رپورٹ کا بھی بغور جائزہ لیا اس رپورٹ کے مطابق جنوبی پنجاب کا خاص کر ضلع بہاولنگر اس پانی آبی دہشت گردی کی وجہ سے زیادہ متاثر ہوا ہے اس سے وہاں کے لوگ مہلک امراض جن میں گردوں کا ناکارہ ہونا ،جگر کا ختم ہونا ،کینسر اور ہیپاٹایٹس سی جیسی امراض میں مبتلا ہیں اس کی وجہ جو ماہرین بتاتے ہیں وہ یہ کہ پانی کی سطح اپنے لیول سے کم ہورہی ہے پانی کی کمی کی وجہ سے آرسینک زہر کی مقدار میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے میں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ اس بارے پاکستان کے وزیراعظم سے بات کی جائے تو میں نے سی پی این ای کے پلیٹ فارم سے اپنے ایڈیٹرز کے ساتھ موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں سب سے پہلے یہی پانی کا مسئلہ اٹھا یا اور وزیراعظم سے اپیل کی کہ اس بارے توجہ دیں اس بارے آپکے کمشنر انڈس واٹر بھی انٹرویو دے چکے ہیں اور کمشنر کا یہ بھی کہنا ہے کہ آبی مسئلے بارے وزرات پانی کو بھی لکھ چکے ہیں جس کو سات سال ہوگئے ہیں جس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ میں نے اس آبی مسئلے کے حل کےلئے اپنے اخبار میں شائع ہونے خبروں کے تراشوں اور اس مسئلہ کے حوالے سے خط کے ساتھ ایک ہزار کاپیاں پنجاب اسمبلی ممبران اور قومی اسمبلی اور سینٹرزکو ارسال کیں جن میں سے صر ف چار اراکین کے جواب موصول ہوئے ہیں ان سے میں نے بات کی ہے کہ وہ اس بارے اپنے ایوانوں میں تحریک التو جمع کروائیں تاکہ اس مسئلے کا حل پارلیمان کے ذریعے تلاش کیا جائے ۔ضیاشاہد نے سیمینارکے شرکاءسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں یہاں پر محمد علی درانی کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا انہوں نے اس کام میں میرا بہت بڑا ساتھ دیا ہے وہ بھی جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولپور کے رہائشی ہیں وہ بھی اس آبی دہشت گردی کے مسائل سے دوچار ہیں ہم نے سوچ بچار کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے ہم اس مسئلے پر ہزاروں کی تعداد میں متاثرہ لوگوں سے خطاب بھی کر چکے ہیں چولستان کے متاثرہ لوگوں سے بھی مل چکے ہیں اب اس آواز کو بیرونی ممالک تک پہنچانا چاہیے جس پر محمد علی درانی نے کا مشورہ تھا کہ آج کل پوری دنیا میں ماحولیات کے بارے شعور اجاگر ہورہا ہے اور اس پر انٹرنیشنل سطح پر کانفرنسزبھی ہورہی ہیں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ چین ماحولیات کی وجہ سے اپنی دوسو فیکٹریاں بند کر چکا ہے جن میں 130فیکٹریاں زرعی ادویات بنانے والی ہیں صرف اپنے ملک کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کےلئے کیوں نہ ہمیں ایسے پلیٹ فارموں سے اس آواز کو اٹھانا چائیے ہم نے اس بارے یورپی یونین اوردیگر بیرونی این جی اوز کو خطوط ارسال کئے ۔وسیم اخترجو جماعت اسلامی سے رکن پنجاب اسمبلی ہیں نے بھی ہمارا ساتھ دیا وہ بھی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے WWFکے سربراہ شہزادہ فلپ کو خط لکھا کیونکہ WWFبنیادی طور جنگلی حیات پر کام کر رہی ہے وسیم اختر نے ان کو لکھا ہے کہ ہمارے ہاں پانی کی بندش کی وجہ سے جنگلی حیات ختم ہورہی ہے۔ جس کے بعدWWFنے پانی بندش بارے بھارت سے جواب بھی مانگ لیا ہے۔ ان کی جانب سے پوچھا جارہا ہے کہ آپ کب آنا چاہتے ہیں کس موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیںہمیں بتائیں۔اب اس کیس بارے ہم تمام شواہد اکٹھے کرہے ہیں تاکہ تمام ثبوتوں کے ساتھ جائیں اور بھارت کا اصل چہرہ انکے سامنے رکھیں کہ جوپاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی پھیلا رہا ہے انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے اب یہ مسئلہ حل ہوگا اور بھارت کی آبی جارحیت ختم ہوگی اور ستلج ،راوی کا ماحولیات کی ضرورت کاپانی کھولنے پر مجبور ہوگا ۔آخر میں ضیا شاہد کا کہنا تھا کہ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ملک کے کسی بڑے لیڈر نے اس مسئلے پر کام نہیں کیا جو ہمارے ملک کےلئے سب سے بڑا مسئلہ ہے یہ میرا مسئلہ نہیں ہے یہ ساڑھے تین کروڑ عوام کا مسئلہ ہے جو اس عذاب سے دوچار ہے ہم نے اس مسئلے پر آواز بلند کردی ہے اور انشااللہ یہ مسئلہ اب حل بھی ہوگا۔انہوں نے کہاکہ میں نے پاکستان کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات کی ہے اوران سے درخواست کی ہے کہ ہمیں معاہدے کے مطابق آبی حیات اورماحولیات کے لئے ستلج اورراوی کے پانی میں سے اپنا حصہ وصول کرناچاہئے اوربین الاقوامی عدالت میں جاناچاہیے۔ چیف جسٹس صاحب نے میری بات غورسے سنی اورکہاکہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے اورہمیں جائزہ لیناہوگا کہ کیا قانونی طورپر اس کی ٹھوس گنجائش نکلتی ہے۔
تقریب میں وائس چیرمین نظریہ پاکستان ٹرسٹ ڈاکٹر رفیق احمد اور سیکرٹری نظریہ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید کے علاوہ بڑی تعداد میں دانشوروں اور طالب علموں نے بھی شرکت کی۔