پانچ ججوں کے فیصلے سے ملک کا ستیا ناس ہونا شروع ہوگیا ،نواز شریف کی عدلیہ پر شدید تنقید،سب دنگ رہ گئے

لندن (ویب ڈیسک)سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ پہلے ایک ڈکٹیٹر نے ہماری حکومت ختم کی اور اب پانچ ججوں کے فیصلے سے ملک کا ستیا ناس ہونا شروع ہوگیا ہے۔ لندن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہم نے ملک کو ایٹمی قوت بنایا لیکن اس کا یہ صلہ ملا کہ ہمیں ملک بدر کردیا گیا، جو ریفرنسزمیرے خلاف بنائے گئے ہیں میں ان کو قطعاً نہیں مانتا کیوں کہ یہ انتقام پر مبنی ہے اور ملک میں انتشار پھیلانے کے مترادف ہے۔نوازشریف کا کہنا تھا کہ ایک ڈکٹیٹر نے ہماری حکومت کو ختم کیا اور اب پانچ ججوں کے فیصلے سے ملک کا ستیا ناس ہونا شروع ہوگیا ہے، پاکستان میں گزشتہ 70 سال سے یہ گھناو¿نا مذاق ہورہا ہے جب کہ ہم سے پہلے بھی دہشت گردی تھی اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا گیا اور سب رپورٹس منظرعام پر آنی چاہییں ورنہ کمیشن بنانے کا کیا فائدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی اور کو بھی پکڑو، صرف نوازشریف کا ہی گلا دبوچتے ہو، یہی وجہ ہے کہ جو ملک میں اندھیرے پیدا کرتے ہیں وہ عیش کررہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر کا کہنا تھا کہ ملک میں اب لوڈشیڈنگ ختم ہورہی ہے اور بجلی وافر مقدار میں موجود ہے جب کہ 2013 میں 20،20 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی مگر ہم ملک میں روشنیاں واپس لائے اور لوگوں کی توقعات پر پورا اترے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں 2013 سے دھرنے ہی دیکھتے رہے ہیں، نجانے پاکستان میں کیا رواج بن گیا ہے کہ دھرنے سے کم میں بات ہی نہیں کرتے۔

شہباز شریف نے ماڈل ٹاؤن آپریشن روکنے کا حکم کیوں نہیں دیا، سنسنی خیز انکشاف

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک+ نیوز ایجنسیاں) سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر بنائی گئی نجفی رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے آپریشن روکنے کے احکامات نہیں دیئے تھے، وزیراعلیٰ نے ٹربیونل کو مکمل اختیارات نہ دیئے جس کے ذریعے حقائق کو چھپانے کی کوشش کی گئی۔ تمام افسران ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش کرتے رہے کسی نے ٹربیونل کو نہ بتایا کہ گولی چلانے کا حکم کس نے دیا تھا۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن ملک کی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے۔ حقائق بتاتے ہیں کہ پولیس افسران نے قتل عام میں کھل کر حصہ لیا۔ پنجاب حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کے لارجر بنچ کے حکم پرسانحہ ماڈل ٹاﺅن پر جسٹس باقر نجفی انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ پبلک کردی ۔132صفحات پر مشتمل ٹربیونل کی رپورٹ ڈائریکٹوریٹ جنرل پبلک ریلیشنز پنجاب کی وی سائٹ پر جاری کی گئی ہے ۔رپورٹ کے نکات میں کہا گیا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں حکومت پنجاب کے معصوم ہونے پر شبہ ہے،حکومت پنجاب کی سرد مہری اور لاپروائی نظر آتی ہے،سانحہ سے پہلے آئی جی اورڈی سی او بدلنے سے شبہ ظاہر ہوتا ہے ،ٹریبونل کے سامنے پولیس نے یہ چھپانے کی کوشش کی کہ فائرنگ کا حکم کس نے دیا،ٹربیونل کوسانحہ کی تہہ تک پہنچنے کے لیے مکمل اختیارت نہیں دئیے گئے تھے،ٹریبونل کو مکمل اختیار نہ دے کر سچ کو چھپایا گیا۔جسٹس باقر نجفی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمشنر لاہور نے منہاج القرآن کے ارد گرد تجاوزات کی رپورٹ پیش کی، کمشنر لاہور نے بیریئر لگانے کے غیر قانونی اقدامات کی رپورٹ پیش کی، اجلاس میں تجاوزات ہٹانے کے لیے فوری کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق طاہرالقادری نے23 جون 2014 کو راولپنڈی تا لاہور لانگ مارچ کا کہا جبکہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ طاہرالقادری کو مقاصد حاصل کرنے نہیں دیں گے۔جسٹس باقر نجفی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس اجلاس میں وزیراعلی پنجاب کی جگہ ڈاکٹر توقیر شاہ شریک ہوئے، اجلاس میں ڈاکٹر توقیر شاہ نے بیرئیر ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی، آپریشن کے فیصلے پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے قانونی رائے نہیں لی گئی۔حکومت پنجاب کے تمام ارباب اختیار کے معصوم ہونے پر قوی شبہ ہے،پولیس ، حکومتی مشینری نے بغیر کسی خوف کے آپریشن کیا۔ رپورٹ کے نکات میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس افسران کے حلف نامے عکاسی کرتے ہیں وزیراعلی نے پولیس ہٹانے کا حکم دیا۔انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ کے مطابق زخمی اہلکاروں کی اطلاع ملنے پر پولیس مشتعل ہوئی۔ادارے کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ منہاج القرآن کے گارڈنے چھت سے فائرنگ کی جس سے دوپولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ آئی ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق طاہرالقادری کے گھرکی چھت سے گارڈزکی فائرنگ پروثو ق سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ٹربیونل کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ راناثنااللہ اور سیکرٹری داخلہ نے وزیراعلی کے کسی حکم کا ذکر نہیں کیا۔ سانحہ میں کہیں بھی پولیس کی کمانڈ نظر نہیں آئی۔ آئی ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق پولیس فائرنگ سے 10 لوگ ہلاک،70 زخمی ہوئے،50 کو فائر لگے۔آئی ایس آئی کے سب انسپکٹرنے سیکرٹری ٹوسی ایم کوفون کیاتوجواب ملاوہ کچھ نہیں جانتے۔ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک سب انسپکٹرنے تین ہوائی فائرکیے جس سے کارکنوں میں بھگدڑمچ گئی،سیکرٹری ٹو سی ایم کا کہنا تھا طبیعت ٹھیک نہیں آج دفتر بھی نہیں جائینگے،آئی ایس آئی کے سب انسپکٹرنے سیکرٹری ٹوسی ایم کوفون کیاتوجواب ملاوہ کچھ نہیں جانتے۔ آئی ایس آئی کی ٹربیونل کو رپورٹ کے مطابق پولیس پہنچی تومنہاج القرآن کے کارکنوں نے پتھراﺅ کیا۔پولیس کو17جون کی رات منہاج القرآن کے بیرئیرہٹانے کاسخت حکم ملا۔ٹربیونل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اہلکاروں کا رویہ مظاہرین کی نسبت زیادہ جارحانہ تھا۔ افسران نے دانستہ طور پر معلومات چھپائیں۔ ٹربیونل کے مطابق انسان جھوٹ بول سکتا ہے لیکن حالات نہیں، حالات بتاتے ہیں کہ پولیس والوں نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ پولیس اہلکاروں نے وہی کیا جس کے لیے بھیجا گیا تھا۔ عوامی تحریک کے تین سو کے قریب کارکنوں نے اہلکاروں اور ٹی ایم او سٹاف پر پتھرا کیا اور فائرنگ کی۔ردعمل میں پولیس نے بھی گولیاں چلا دیں جس سے کئی کارکن جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ پورے سانحے میں پولیس کو کون کمانڈ کر رہا تھا؟ یہ معلوم ہی نہیں ہوسکا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی جی نے بتایا کہ انہوں نے ساڑھے گیارہ بجے چارج سنبھالا، انہیں واقعہ کی خبر بارہ بجے ملی۔ اسسٹنٹ کمشنر نے تھانہ ماڈل ٹاﺅن کے ایس ایچ او کو مزاحمت کا بتا دیا تھا۔ پولیس افسران نے دانستہ طورپر ٹربیونل سے معلومات چھپائیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سب ایک دوسرے کو بچانے میں لگے ہوئے تھے۔ایک نجی ٹی وی کے مطابق ٹربیونل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ رانا ثنا اللہ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے دعوے کی تصدیق نہیں کی ۔وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر نے بھی دعوے کی تصدیق نہیں کی۔سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر کسی پولیس اہلکار نے ایک لفظ نہیں بتایا ۔ تمام پولیس افسران انکوائری میں ایک دوسرے کو بچاتے رہے ۔صاف نظر آتاہے کہ تمام اہلکار ٹریبونل سے تعاون نہ کرنے پر متفق ہیں۔ حقائق چھپانے پرپولیس کارویہ سچائی کودفن کرنے کے مترادف ہے۔سانحہ سے پہلے خان بیگ کو آئی جی کے عہدے سے تبدیل کیا گیا جبکہ سانحہ سے قبل ڈی سی او لاہور کو بھی عہدے سے ہٹایا گیا ۔ رانا ثنا اللہ ، ڈاکٹر توقیر اور پولیس افسران سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں معصوم نہیں۔ پولیس کی خاموشی سے لگ رہا تھا کہ انہیں صرف حکم پر عمل کرنا تھا۔ عدالت کے حکم پر عملدرآمد ہوتا تو خون خرابہ روکا جا سکتا تھا۔ رپورٹ پڑھنے والے فیصلہ کر سکتے ہیں کہ سانحہ کی ذمہ داری کس پر ہے ۔ ٹربیونل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ رانا ثنااللہ کی سربراہی میں اجلاس منعقد ہوا جس میں چیف سیکرٹری ، وزیر اعلی کے سیکرٹری ، سیکرٹری داخلہ اور کمشنر لاہور سمیت دیگر اعلی حکام نے شرکت کی ، اس اجلاس میں طاہرالقادری کے 23جون 2014کو راولپنڈی تا لاہور لانگ مارچ کے حوالے سے غور کیا ، اجلاس کے دوران رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ طاہر القادری کو مقاصد حاصل کرنے نہیں دیں گے، سانحہ ماڈل ٹاﺅن آپریشن کے فیصلے پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے قانونی رائے نہیں لی گئی ۔ قانون کے مطابق کمیشن کوپولیس کے ذریعے تفتیش کرانے کاختیارحاصل تھامگر اس کے باوجود ٹربیونل کوکیس کی تہہ تک جانے کے لئے مکمل اختیارات نہیں دیئے گئے۔دوران تحقیقات راناثنااللہ، ڈاکٹرتوقیراورشہبازشریف کے فون کاڈیٹاآئی ایس آئی نے د یا۔ اسپیشل برانچ،آئی بی اورآئی ایس آئی نے الگ الگ رپورٹ کمیشن کودی ۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے حوالے سے تحقیقات کے لئے ٹربیونل اپنے رجسٹرار سمیت منہاج القرآن گیا اور 45 منٹ تک ڈیٹاکامعائنہ کیا۔ شہباز شریف کا حلفیہ بیان ہے کہ 17 جون کو صبح کا واقعہ ٹی وی سے پتہ چلا ہے جبکہ دوسری جانب شہباز شریف کے سیکرٹری نے آگاہ کیا کہ آپریشن کا فیصلہ رانا ثنا نے کیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بات واضح کی گئی کہ آپریشن کا مقصد ادارے کے اردگرد تجاوزات کو ہٹانا تھا، فائرنگ کس کے حکم سے ہوئی پولیس افسران بتانے کے لئے تیار نہیں، فائرنگ احکامات پر خاموشی سے پولیس تعاون کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، صاف نظر آتا ہے کہ تمام اہلکار ٹریبونل سے تعاون نہ کرنے پر متفق ہیں، پولیس کی خاموشی سے لگتا ہے کہ ان کو ہر صورت کسی کے حکم کی تعمیل کرنا تھی۔

 

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ، آخری موقع پر اعلیٰ افسران کے تبادلے کیوں اور کس کے حکم پر ہوئے، بڑی خبر

لاہور (ویب ڈیسک) سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر بنائی گئی نجفی رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے آپریشن روکنے کے احکامات نہیں دیئے تھے، وزیراعلیٰ نے ٹربیونل کو مکمل اختیارات نہ دیئے جس کے ذریعے حقائق کو چھپانے کی کوشش کی گئی۔ تمام افسران ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش کرتے رہے کسی نے ٹربیونل کو نہ بتایا کہ گولی چلانے کا حکم کس نے دیا تھا۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن ملک کی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے۔ حقائق بتاتے ہیں کہ پولیس افسران نے قتل عام میں کھل کر حصہ لیا۔ پنجاب حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کے لارجر بنچ کے حکم پرسانحہ ماڈل ٹاﺅن پر جسٹس باقر نجفی انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ پبلک کردی ۔132صفحات پر مشتمل ٹربیونل کی رپورٹ ڈائریکٹوریٹ جنرل پبلک ریلیشنز پنجاب کی وی سائٹ پر جاری کی گئی ہے ۔رپورٹ کے نکات میں کہا گیا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں حکومت پنجاب کے معصوم ہونے پر شبہ ہے،حکومت پنجاب کی سرد مہری اور لاپروائی نظر آتی ہے،سانحہ سے پہلے آئی جی اورڈی سی او بدلنے سے شبہ ظاہر ہوتا ہے ،ٹریبونل کے سامنے پولیس نے یہ چھپانے کی کوشش کی کہ فائرنگ کا حکم کس نے دیا،ٹربیونل کوسانحہ کی تہہ تک پہنچنے کے لیے مکمل اختیارت نہیں دئیے گئے تھے،ٹریبونل کو مکمل اختیار نہ دے کر سچ کو چھپایا گیا۔جسٹس باقر نجفی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمشنر لاہور نے منہاج القرآن کے ارد گرد تجاوزات کی رپورٹ پیش کی، کمشنر لاہور نے بیریئر لگانے کے غیر قانونی اقدامات کی رپورٹ پیش کی، اجلاس میں تجاوزات ہٹانے کے لیے فوری کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق طاہرالقادری نے23 جون 2014 کو راولپنڈی تا لاہور لانگ مارچ کا کہا جبکہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ طاہرالقادری کو مقاصد حاصل کرنے نہیں دیں گے۔جسٹس باقر نجفی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس اجلاس میں وزیراعلی پنجاب کی جگہ ڈاکٹر توقیر شاہ شریک ہوئے، اجلاس میں ڈاکٹر توقیر شاہ نے بیرئیر ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی، آپریشن کے فیصلے پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے قانونی رائے نہیں لی گئی۔حکومت پنجاب کے تمام ارباب اختیار کے معصوم ہونے پر قوی شبہ ہے،پولیس ، حکومتی مشینری نے بغیر کسی خوف کے آپریشن کیا۔ رپورٹ کے نکات میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس افسران کے حلف نامے عکاسی کرتے ہیں وزیراعلی نے پولیس ہٹانے کا حکم دیا۔انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ کے مطابق زخمی اہلکاروں کی اطلاع ملنے پر پولیس مشتعل ہوئی۔ادارے کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ منہاج القرآن کے گارڈنے چھت سے فائرنگ کی جس سے دوپولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ آئی ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق طاہرالقادری کے گھرکی چھت سے گارڈزکی فائرنگ پروثو ق سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ٹربیونل کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ راناثنااللہ اور سیکرٹری داخلہ نے وزیراعلی کے کسی حکم کا ذکر نہیں کیا۔ سانحہ میں کہیں بھی پولیس کی کمانڈ نظر نہیں آئی۔ آئی ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق پولیس فائرنگ سے 10 لوگ ہلاک،70 زخمی ہوئے،50 کو فائر لگے۔آئی ایس آئی کے سب انسپکٹرنے سیکرٹری ٹوسی ایم کوفون کیاتوجواب ملاوہ کچھ نہیں جانتے۔ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک سب انسپکٹرنے تین ہوائی فائرکیے جس سے کارکنوں میں بھگدڑمچ گئی،سیکرٹری ٹو سی ایم کا کہنا تھا طبیعت ٹھیک نہیں آج دفتر بھی نہیں جائینگے،آئی ایس آئی کے سب انسپکٹرنے سیکرٹری ٹوسی ایم کوفون کیاتوجواب ملاوہ کچھ نہیں جانتے۔ آئی ایس آئی کی ٹربیونل کو رپورٹ کے مطابق پولیس پہنچی تومنہاج القرآن کے کارکنوں نے پتھراﺅ کیا۔پولیس کو17جون کی رات منہاج القرآن کے بیرئیرہٹانے کاسخت حکم ملا۔ٹربیونل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اہلکاروں کا رویہ مظاہرین کی نسبت زیادہ جارحانہ تھا۔ افسران نے دانستہ طور پر معلومات چھپائیں۔ ٹربیونل کے مطابق انسان جھوٹ بول سکتا ہے لیکن حالات نہیں، حالات بتاتے ہیں کہ پولیس والوں نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ پولیس اہلکاروں نے وہی کیا جس کے لیے بھیجا گیا تھا۔ عوامی تحریک کے تین سو کے قریب کارکنوں نے اہلکاروں اور ٹی ایم او سٹاف پر پتھرا کیا اور فائرنگ کی۔ردعمل میں پولیس نے بھی گولیاں چلا دیں جس سے کئی کارکن جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ پورے سانحے میں پولیس کو کون کمانڈ کر رہا تھا؟ یہ معلوم ہی نہیں ہوسکا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی جی نے بتایا کہ انہوں نے ساڑھے گیارہ بجے چارج سنبھالا، انہیں واقعہ کی خبر بارہ بجے ملی۔ اسسٹنٹ کمشنر نے تھانہ ماڈل ٹاﺅن کے ایس ایچ او کو مزاحمت کا بتا دیا تھا۔ پولیس افسران نے دانستہ طورپر ٹربیونل سے معلومات چھپائیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سب ایک دوسرے کو بچانے میں لگے ہوئے تھے۔ایک نجی ٹی وی کے مطابق ٹربیونل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ رانا ثنا اللہ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے دعوے کی تصدیق نہیں کی ۔وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر نے بھی دعوے کی تصدیق نہیں کی۔سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر کسی پولیس اہلکار نے ایک لفظ نہیں بتایا ۔ تمام پولیس افسران انکوائری میں ایک دوسرے کو بچاتے رہے ۔صاف نظر آتاہے کہ تمام اہلکار ٹریبونل سے تعاون نہ کرنے پر متفق ہیں۔ حقائق چھپانے پرپولیس کارویہ سچائی کودفن کرنے کے مترادف ہے۔سانحہ سے پہلے خان بیگ کو آئی جی کے عہدے سے تبدیل کیا گیا جبکہ سانحہ سے قبل ڈی سی او لاہور کو بھی عہدے سے ہٹایا گیا ۔ رانا ثنا اللہ ، ڈاکٹر توقیر اور پولیس افسران سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں معصوم نہیں۔ پولیس کی خاموشی سے لگ رہا تھا کہ انہیں صرف حکم پر عمل کرنا تھا۔ عدالت کے حکم پر عملدرآمد ہوتا تو خون خرابہ روکا جا سکتا تھا۔ رپورٹ پڑھنے والے فیصلہ کر سکتے ہیں کہ سانحہ کی ذمہ داری کس پر ہے ۔ ٹربیونل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ رانا ثنااللہ کی سربراہی میں اجلاس منعقد ہوا جس میں چیف سیکرٹری ، وزیر اعلی کے سیکرٹری ، سیکرٹری داخلہ اور کمشنر لاہور سمیت دیگر اعلی حکام نے شرکت کی ، اس اجلاس میں طاہرالقادری کے 23جون 2014کو راولپنڈی تا لاہور لانگ مارچ کے حوالے سے غور کیا ، اجلاس کے دوران رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ طاہر القادری کو مقاصد حاصل کرنے نہیں دیں گے، سانحہ ماڈل ٹاﺅن آپریشن کے فیصلے پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے قانونی رائے نہیں لی گئی ۔ قانون کے مطابق کمیشن کوپولیس کے ذریعے تفتیش کرانے کاختیارحاصل تھامگر اس کے باوجود ٹربیونل کوکیس کی تہہ تک جانے کے لئے مکمل اختیارات نہیں دیئے گئے۔دوران تحقیقات راناثنااللہ، ڈاکٹرتوقیراورشہبازشریف کے فون کاڈیٹاآئی ایس آئی نے د یا۔ اسپیشل برانچ،آئی بی اورآئی ایس آئی نے الگ الگ رپورٹ کمیشن کودی ۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے حوالے سے تحقیقات کے لئے ٹربیونل اپنے رجسٹرار سمیت منہاج القرآن گیا اور 45 منٹ تک ڈیٹاکامعائنہ کیا۔ شہباز شریف کا حلفیہ بیان ہے کہ 17 جون کو صبح کا واقعہ ٹی وی سے پتہ چلا ہے جبکہ دوسری جانب شہباز شریف کے سیکرٹری نے آگاہ کیا کہ آپریشن کا فیصلہ رانا ثنا نے کیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بات واضح کی گئی کہ آپریشن کا مقصد ادارے کے اردگرد تجاوزات کو ہٹانا تھا، فائرنگ کس کے حکم سے ہوئی پولیس افسران بتانے کے لئے تیار نہیں، فائرنگ احکامات پر خاموشی سے پولیس تعاون کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، صاف نظر آتا ہے کہ تمام اہلکار ٹریبونل سے تعاون نہ کرنے پر متفق ہیں، پولیس کی خاموشی سے لگتا ہے کہ ان کو ہر صورت کسی کے حکم کی تعمیل کرنا تھی۔

 

ملک بھر میں سردی کی لہر جاری، محکمہ موسمیات نے اہم شہر میں بارش کی پیشگوئی کر دی

کراچی (ویب ڈیسک)ملک بھر میں سردی کی لہر جاری ہے جب کہ محکمہ موسمیات نے کراچی میں بارش کی پیشگوئی کی ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں کم سےکم درجہ حرارت 17 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا اور شہر میں ہوا 23 کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہے۔محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کہ ہے کہ آئندہ 24گھنٹے کے دوران کراچی میں موسم سرد اور خشک رہنےکا امکان ہے ج بکہ شہر میں گرد آلود ہوائیں چلیں گی۔دسمبر میں ایک بار پھر کراچی میں سردی ہوگی ،جمعے اور ہفتے سےخشک اور سرد ہوائیں نہیں چلیں گی، دسمبر میں مزید سرد ہواو¿ں کے اسپیل آسکتے ہیں جب کہ موسم سرما میں کراچی میں بارش کا امکان ہے۔

تبدیلی کے کھوکھلے نعرے لگانیوالوں کیلئے شہباز شریف کا اہم پیغام

لاہور (پ ر) وزےراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشرےف نے کہا ہے کہ ہم نے عوام کی خدمت عبادت سمجھ کر کی ہے جبکہ ملک وقوم کی خوشحالی کے دشمنوں نے ترقی کے سفر مےں روڑے اٹکانے کی ہر ممکن کوشش کی لےکن ہماری حکومت نے ترقی کے مخالفین کی پرواہ کئے بغیر عوام کی خدمت جاری رکھی ہے اورآئندہ بھی عوامی خدمت کے سفر کو جاری و ساری رکھیں گے۔ دھرنوں کے ذریعے قوم کا وقت برباد کرنے والوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ تبدیلی کے کھوکھلے نعرے لگانے والوں کو عوام کی ترقی اےک آنکھ نہیں بھاتی۔ ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا کیا عوام کی خدمت ہے؟عوام کی خدمت سے عاری عناصر نے اپنا تمام وقت الزام تراشی اور جھوٹ بولنے پر صرف کیا۔ باشعور عوام 2018 کے انتخابات میں دھرنا دینے والوں کی منفی سیاست کا ایک بار پھر دھڑن تختہ کردیں گے۔ وزےراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشرےف نے ان خےالات کا اظہار مسلم لےگ(ن) کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کےا ۔وزےراعلیٰ شہبازشرےف نے کہا کہ عوام کو صحت، ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر کی جدید سہولتوں کی فراہمی پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیںاورتمام وسائل عوام کو رےلےف کی فراہمی کے منصوبوں پرصرف کےے جارہے ہےں۔متوازن ترقےاتی حکمت عملی کے تحت پسماندہ علاقوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔گورنمنٹ رجب طیب اردوان ہسپتال مظفر گڑھ جنوبی پنجاب کے عوام کو صحت کی جدید و معیاری سہولتوں کی فراہمی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے جبکہ صوبائی دارالحکومت میں پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ بنایا جا رہا ہے اور اس منصوبے کی تکمےل سے گردے اور جگر کے امراض کے علاج کےلئے جدید ترین طبی سہولتیں میسر آئیں گی اور یہ جنوبی ایشیا میںطبی سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے ایک منفرد اور جدید ادارہ ہوگا۔انہوںنے کہاکہ بیجنگ انڈرپاس عوام کو سہولتوں کی فراہمی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس انڈرپاس سے ٹریفک کی روانی میں بہتری آئی ہے اورشہریوں کے قےمتی وقت کی بچت ہو رہی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ صوبے کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے منصوبے تیزی سے مکمل کئے جارہے ہیں اور صحت، ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر کے منصوبے معیار اور شفافیت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ انہوںنے کہاکہ مخالفین کے پاس عوام کو دینے کیلئے کچھ نہیں جبکہ ہمارے عملی اقدامات عوام دوستی کا منہ بولتا شاہکار ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے میرانشاہ میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب دھماکے کی شدید مذمت کی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے دھماکے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کااظہار کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے دلی ہمدردی اور اظہار تعزیت کیا ہے اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کیلئے دعا کی ہے۔

 

کس سابق سپہ سالار کا ساتھ دیکر غلطی کی، عمران خان نے نام بتا دیا

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان عوامی تحریک اگر رپورٹ کے بعد کوئی تحریک چلاتی ہے تو ہر قیمت پر اسکا ساتھ دونگا۔ اب این آر او آیا تو سڑکوں پر آﺅں گا اس کیلئے سب کو ٹرینڈ کر چکاہوں۔ سیاست میں صرف ایک غلطی کی وہ پرویز مشرف کا ساتھ دینا تھا۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہباز شریف بے قصور ہوتا تو جھوٹ کیوں بولتا نواز شریف اور شہباز شریف نے طاہرالقادری کو سبق سکھانا تھا۔ ماڈل ٹاﺅن کا سانحہ پوری قوم نے دیکھا۔ شہباز شریف اور رانا ثناءاسی واقعہ کے ذمہ دار ہیں خواتین پر گولیاں چلانا کہاں کی جمہوریت ہے۔ پی ٹی اے اگر کوئی مووو چلاتی ہے تو میں ہر قیمت پر اس کاساتھ دونگا۔ حق کا ساتھ نہ دیا تو ایسے واقعات دوبارہ ہو سکتے ہیں۔ سیاست میں صرف ایک غلطی کی وہ پرویز مشرف کا ساتھ دیا آئندہ بھی ڈکٹیٹر کا ساتھ نہیں دونگا۔ نواز شریف اور آصف زرداری اندر سے آج بھی ملے ہوئے ہیں اوپر اوپر سے دکھاتے ہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف ہیں جبکہ انکے مفاد ایک ہیں۔ پاکستان کو مشرف کے دو این آر اوز نے شاید نقصان پہنچایا ایک نواز شریف کو باہر بھیج کر اور دوسرا آصف زرداری کے ساتھ اگر اب این آر او ہوا تو سڑکوں کیلئے سب کو ٹرینڈ کر چکاہوں۔ طالبان کی کئی اقسام تھیں۔ جو پولیو ورکر کو مار رہے تھے۔ سمیع الحق نے ہمارا ساتھ دیا، وہ ہمارے ساتھ کھڑا ہوا۔ اور پولیو ورکر کو بچایا۔ انہوں نے فتویٰ دیا کہ پولیو قطرے ٹھیک ہیں۔ آج تک مدرسوں کو کوئی بھی مین سٹریم نہیں لے کر آیا۔ سمیع الحق کے ساتھ ایم او یہ سائن کیا،۔ ان کی ایک بڑی چین ہے۔ طالبان کون ہیں؟ وہ ہمارے ملک سے آئے ہوئے۔ یہ دو قسم کے ہیں۔ ایک جنہیں پیسے دئیے جاتے ہیں اور وہ تباہی مچاتے ہیں۔ دوسرے وہ جن کے لوگ مارے گئے۔ وہ اس لئے طالبان بنتے ہیں کہ ان کے ا پنے مارے گئے۔ ہماری فوج نے مارے یا کسی اور نے۔ ان کا بندہ مر گیا۔ برطانیہ میں آئی آر جو دہشتگرد تصور ہوتا تھا۔ اب مین سٹریم میں ہیں، بدلہ لینے کےلئے لڑنے والے ویسے طالبان نہیں جو پیسے لے کر تباہی مچاتے ہیں۔ طالبان کے دفتر کھولنے کا وقت گزر گیا۔ ریاست اور قوم مل کر لڑی ہے تو وہ جہاد ہوتاہے۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ ریاست ہی کسی کے ساتھ ملی ہوئی ہو تو انفرادی جہاد کا فیصلہ کون کرے۔ فوراً الیکشن ہونے چاہئیں نہیں تو اس وقت پر جب ہونے ہیں، اس میں ڈیلے نہیں ہونا چاہیے۔ انسان کوشش کرتا ہے اللہ کامیابی دیتا ہے اگلا وزیراعظم بن سکتا ہوں جنرل مشرف پاکستان کی سیاست کو سمجھتا نہیں۔ اس کے دو بندوں کو ہم پر دوبارہ مسلط کر دیا اور خود باہر چلے گئے۔ احتساب کروا کر الیکشن کرواتے تو درست ہوتا۔ کے پی کے حکومت نے 300 ارب روپے بجلی میں انویسٹمنٹ کروائے ہیں ہم ہائیڈل پاور پروجیکٹ بنا رہے ہیں اگر حکومت پانی سے بجلی بناتی تو سستی ہوتی۔ ان کی میٹرو بہت مہنگی بنی، ہم بہت سستی بنا رہے ہیں، ہماری میٹرو پیسے کما کر دے گی تفصیل پرویز خٹک بتا سکتے ہیں۔ ہم ماڈرن پشاور بنانے جا رہے ہیں۔ جب ہم اقتدار میں آئے کے پی کے میں دہشتگردی تھی۔ تب میں نے کہا تھا گورنر ہاﺅس کو لائبریری بنا دونگا۔ اب پولیس نے کہا ہے کہ امن قائم ہو چکا ہے۔ ہم اقتدار میں آئے تو تمام گورنر اور وزیراعلیٰ ہاﺅس سادگی اپنائیں گے۔ پرویز خٹک مثالی شخص ہے۔ سب سے کامیاب وزیراعلیٰ ہے پھر بنائیں گے۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے احتساب کمشنر مقرر کرنا ہے۔ ہم آزاد احتساب چاہتے تھے۔ تسلیم کرتاہوں کہ آزاد احتساب کمیٹی قائم نہیں کر سکے۔ ڈی جی احتساب اور احتساب کمیشن میں کلیش ہو گیا۔ کمیشن ناکامیاب ہوگیا۔ پہلی مرتبہ احتساب نے ہمارا منسٹر پکڑا۔ احتساب کمیٹی کی طرف سے مسئلہ تھا اس لئے وہ بند ہوا۔ تحریک ا نصاف ن لیگ، پی پی پی، فضل الرحمن سے اشتراک نہیں کرے گی۔ ایک ایم کیو ایم الطاف کی تھی، اب دوسری ایم کیو ایم ہے اگر اکثریت نہ ہوئی تو دوسروں کو ساتھ ملا لیں گے۔ جاوید ہاشمی پی ٹی آئی میں غلط آئے تھے۔ اب بالکل صحیح جگہ چلے گئے۔ عوام فیصلہ کرتی ہے باغی یا داغی۔ عامر لیاقت حسین کے ساتھ اچھی بات چیت تھی، انہوں نے فیصلہ کیا کہ ابھی نہیں۔

 

پاکستان میں ایک ڈکٹیٹر سمیت 4سے 5 لوگ ایسے ہیں جو وزیراعظم کو ہی آکر پکڑتے ہیں: نواز شریف

لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہاہے کہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں ایک ڈکٹیٹر سمیت 4سے 5 لوگ ایسے ہیں جو وزیراعظم کو ہی آکر پکڑتے ہیں،اگر میری کسی سے نہیں بنتی تو باقی وزرائے اعظم کو کیوں نکالاگیا؟ تفصیلات کے مطابق لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف کا کہناتھا کہ ہم 2013 سے اقتدا میں آئے اور دھرنے دیکھتے رہے،نہ جانے پاکستان میں کیا رواج بن گیا ہے؟لوگ دھرنے کے علاوہ بات ہی نہیں کرتے ۔لیکن ان سب کے باوجود عوام کو سہیولیات مہیا کیں،ہم نے عوام سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کاوعدہ کیا تھا ۔2013 میں 20گھنٹے لوڈ شیڈنگ تھی اور اب ملک میں لوڈ شیڈنگ ختم ہی نہیں بلکہ بجلی وافر مقدار میں موجود ہے۔انہوں نے کہاکہ افسوسناک بات ہے کہ پاکستان میں ایک ڈکٹیٹر سمیت 4سے 5 لوگ ایسے ہیں جو وزیراعظم کو ہی آکر پکڑتے ہیں،میں پوچھتا ہوں کہ صرف وزیراعظم کا گلا ہی کیوں پکڑا جاتا ہے؟ کسی اور کا گلہ بھی پکڑو،پاکستان میں گزشتہ 70سال سے گھناونا مذاق ہورہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ میری کسی سے نہیں بنتی اگر میری کسی سے نہیں بنتی تو باقی وزرائے اعظم کو کیوں نکالاگیا؟ نواز شریف نے کہاکہ نیب ریفرنس انتقام پر مبنی ہے ایسے احتساب کو نہیں مانتا،ملک میں اندھیرے پیدا کرنے والے عیش کرتے ہیں اور روشنیاں لے کر آنے والے نااہلی کا سامنا کرتے ہیں جبکہ5 ججوں کے فیصلے سے ملک کا ستیاناس ہونا شروع ہوگیا ہے۔انہوں نے کہاکہ میں وہی ہوں جس نے پاکستان کے ایٹمی بٹن کو دبایا تھا لیکن آج میرے خاندان کا احتساب کیا جارہاہے ۔ہر چیز کاایک وقت ہوتا ہے اور وہ وقت آرہا ہے جب پاکستان میں ہر بات کھل کر سامنے آجائے گی۔

سی پیک میں خوفناک کرپشن کا بھانڈا‘بیچ چوراہے پھوٹ گیا

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) چین نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت سڑکوں کے نیٹ کے بعض منصوبوں کی مالی امداد عارضی طور پر روک دی۔ یہ فیصلہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے ایک کھرب روپے سے زائد کے منصوبوں پر اثر انداز ہوگا تاہم یہ ابھی واضح نہیں کہ اس کا اثر کتنا وسیع ہوگا۔ ایک سینئر حکومتی اہلکار کے مطابق بیجنگ نے اس حوالے سے فیصلہ کیا ہے کہ چین سے جاری ہونے والی نئی ہدایات تک یہ امداد روکی جائے گی۔ ابتدائی رپورٹ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کم سے کم تین منصوبوں کو تاخیر کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جو منصوبے متاثر ہوں گے ان میں 210 کلومیٹر کا ڈیرہ اسماعیل خان‘ ڑوب شاہراہ، جس کا تخمینہ 81 ارب روپے تک لگایا گیا ہے، جس میں 66 ارب روپے سڑک کی تعمیر جبکہ 15 ارب روپے زمین کے حصول پر خرچ کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ 19 ارب 76 کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والے 110 کلومیٹر طویل خضدار کی سڑک بھی متاثر ہو گی جبکہ 8ارب 5 کروڑ روپے سے قراقرم ہائی وے (کے کے ایچ) کا رائے کوٹ سے تھاکوٹ تک رہ جانے والا 136 کلومیٹر کا حصہ بھی متاثر ہو گا۔ اہلکار نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان تینوں منصوبوں کے لیے فنڈز گزشتہ برس چھٹے جے سی سی اجلاس میں منظور کیے گئے تھے اور یہ امید کی جارہی تھی کہ ضروری رسمی طریقہ کار کے بعد تینوں منصوبوں کی فنڈنگ کو 20 نومبر کو جوائنٹ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو جی) کے اجلاس میں حتمی شکل دے دی جائے گی لیکن اجلاس میں پاکستان کو بتایا گیا کہ بیجنگ کی جانب سے نئی ہدایات جاری کی جائیں گی، جس میں فنڈز کے لیے نیا طریقہ کار بیان کیا جائے گا۔ جے ڈبلیو جی کے اجلاس میں پاکستان کو چینی حکومت کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا تھا جس کے بعد فنڈز کے حصول کا موجودہ طریقہ کار ختم ہو گیا تھا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نئے طریقہ کار کے اثرات سرکاری طور پر بیان کردہ تین سڑکوں سے کہیں زیادہ وسیع ہوسکتے ہیں۔تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ چینی حکام سی پیک کے منصوبوں میں کرپشن کے حوالے سے پاکستان میں شائع ہونے والی خبروں پر کافی پریشان تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عارضی طور پر راہداری کے لئے فنڈز روک دیئے ہیں۔
مالی امداد روک دی

کارکن تیار ہیں ‘ کسی بھی وقت دمادم مست قلندر ہونے لگا ہے

لاہور(خصوصی رپورٹ)صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاﺅن سے متعلق جسٹس باقر علی نجفی کی انکوائری رپورٹ پبلک کر دی ہے، اس رپورٹ کو بنیاد بنا کر اپنی سیاست چمکانے والے اس میں سے جو ڈھونڈنا چاہیں ڈھونڈ لیں۔ پنجاب حکومت کی طرف سے رپورٹ پبلک نہ کرنے کا فیصلہ ٹھوس دلائل پر تھا۔ کیونکہ رپورٹ پبلک کرنے سے فرقہ واریت کو ہوا ملنے کا خدشہ تھا جبکہ یہ رپورٹ نامکمل اور قانونی لحاظ سے بھی جامع نہیں، نقائص سے بھری پڑی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں کے ساتھ پریس کانفرنس میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پنجاب حکومت میرٹ اور رول آف لا پر یقین رکھتی ہے۔ رپورٹ میں ایک بھی لفظ نہیں جو وزیراعلی کو سانحہ ماڈل ٹاﺅن کا ذمہ دار ٹھہراتا ہو۔ مروجہ قانون ہے جس کے مطابق بیان حلفی کو من و عن تسلیم کیا جائے یا پھر من محلف کو بلا کر جرح کی جائے۔ مگر وزیراعلی کو نہیں بلایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اجلاس میں غیر قانونی بیریئرز ہٹانے کی ہدایت دی تھی۔ کسی کو مرنے یا مارنے کا حکم دینے کی بات محض الزام ہے۔ انہوں نے کہا کہ انکوائری میں صرف حکومت کی طرف سے معلومات دی گئی ہیں عوامی تحریک نے انکوائری کا بائیکاٹ کیا۔ انکوائری میں ذرائع سے ملنے والی رپورٹس پر انحصار کیا گیا جو قانون شہادت کے تحت قابل انحصار نہیں تھیں۔ رپورٹ اس اعتبار سے نامکمل تھی کیونکہ اس میں فائرنگ کرنے والوں کا تعین نہیں کیا گیا۔ رپورٹ کے آخر میں کہا گیا کہ کمشن ذمہ داری کے تعین کے حوالے سے کسی نتیجے پر نہیں پہنچا۔ مگر رپورٹ پڑھنے والے اس بارے میں آسانی سے نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔ اگر ہر پڑھنے والا اپنی مرضی سے ذمہ داری کا تعین کرنے بیٹھ جاتا ہے تو علامہ طاہر القادری سمیت تمام لوگ اس کی زد میں آ جاتے۔ اسی لئے وزیراعلی نے رپورٹ پبلک نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت نے سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خلیل الرحمن خان کو رپورٹ کا جائزہ لینے کے لئے مقرر کیا۔ انہوں نے 70 صفحات پر مشتمل جائزہ رپورٹ دی جس میں کہا گیا کہ جسٹس باقر نجفی رپورٹ پبلک کرنے سے فرقہ واریت کا ایشو پیدا ہو سکتا ہے، اس لئے پبلک نہ کیا جائے۔ انہوں نے جسٹس باقر نجفی رپورٹ کے صفحہ نمبر 57 میں لائن 6 کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کو نہیں پڑھ سکتے۔ عوام خود ہی دیکھ لیں گے کہ حکومت کن حساس معاملات کی وجہ سے رپورٹ پبلک نہیں کر رہی تھی۔ رانا ثنا نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں عوامی تحریک نے دو ایف آئی آر درج کروائیں، 16 افراد کو نامزد کیا گیا۔ عوامی تحریک کے 42 کارکنوں کا بھی چالان کیا گیا جبکہ 64 گواہوں کے بیانات بھی قلمبند ہوئے اس لئے یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کیس میں کچھ ہوا ہی نہیں۔ جب کیس پر فیصلے کا وقت آیا تو عوامی تحریک نے استغاثہ دائر کر دیا جبکہ 135 ملزم نامزد کردیئے۔ ٹرائل کورٹ نے 12 سیاسی شخصیات کے علاوہ باقی ملزمان کو سمن جاری کر دیئے کیونکہ ان شخصیات کے خلاف استغاثہ میں کوئی شہادت نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس بات کا خدشہ تھا کہ نامکمل انکوائری رپورٹ سے اپنی مرضی کی چیزیں نکال کر نہ صرف سیاسی مفادات حاصل کئے جائیں گے بلکہ معاملات کو عدالت کی بجائے سڑکوں اور چوراہوں میں لے جانے کی کوشش کی جائے گی اور عوام کو گمراہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کمشن نے جائے وقوعہ کا دورہ تک نہیں کیا اور پھر ذرائع سے حاصل رپورٹس پر انحصار کرتے ہوئے حتمی رپورٹ دے دی جبکہ ذرائع سے حاصل رپورٹس کو حتمی رپورٹ کا حصہ بھی نہیں بنایا۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ وہ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ طاہر القادری کو سب پتہ ہے کہ موقع پر کیا ہوا۔ وہ صرف اس ایشو سے سیاسی مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ طاہر القادری قرآن پاک کو درمیان رکھ کر اب بھی حکومت سے بات کر لیں۔ وزیراعلی پر جو الزام ہے اس بارے وہ واضح کہیں گے کہ اس کو علم نہیں تھا مگر طاہر القادری قرآن پاک پر اپنی صفائی نہیں دے پائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ رپورٹ پبلک ہونے سے اگر حالات خراب ہوئے تو اس کی ذمہ داری رپورٹ پبلک کرنے اورکروانے والوں پر ہو گی۔ رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں دوطرفہ فائرنگ ہوئی۔ سب کو پتہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے وقوعہ میں عوامی تحریک کے کارکنوں نے غیر قانونی اقدام کئے۔ کارکنوں کو کہا گیا کہ شہادت کا وقت آگیا۔ ان لوگوں کو لانگ مارچ کے لئے لاشیں درکار تھیں۔ صوبائی وزیر سید زعیم حسین قادری نے کہا ہے کہ سازش کے تحت شہباز شریف کو سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں ملوث کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ جانا ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے۔ شہباز شریف کی سیاست ختم کرنا پی ٹی آئی کی خواہش ہی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس دیگر 2 جے آئی ٹی رپورٹس موجود ہیں جو مختلف تھیں۔ کمشن رپورٹ کے بعد جے آئی ٹی رپورٹس کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ کسی بھی رپورٹ میں وزیر قانون یا حکومتی عہدیدار کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔لاہور+لندن (نیااخبار رپورٹ) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا ہے
لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں، یہ انصاف کی فتح ہے۔ جسٹس باقر نجفی کمشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم مظلوموں کو انصاف کی فراہمی کی طرف اہم قدم ہے۔ 14 لاشیں گرانے والے اور 100 لوگوں کو گولیاں مارنے والے سفاک درندے جب پھانسیوں پر چڑھیں تو پھر شہدائے ماڈل ٹاﺅن کے ورثا کو سکون ملے گا۔ رپورٹ کی کاپی ملنے کے بعد جائزہ لیں گے اور حتمی لائحہ عمل طے کرینگے۔ شہدائے ماڈل ٹاﺅن کے ورثا اور کارکنان پرامن طریقے سے آج سول سیکرٹریٹ جائیں گے اور رپورٹ کی مصدقہ کاپی مانگیں گے۔ ہمارا احتجاج پرامن ہو گا میرا کنٹینر بھی تیار ہے۔ رپورٹ میں سے کچھ ڈیلیٹ کرنے والے خود ڈیلیٹ ہو جائینگے۔ جو کہتے ہیں عدالتی فیصلوں سے قیادت نہیں بدلتی انہیں شرم آنی چاہئے، لاشیں گرانے اور انسانیت کا خون بہانے والی نام نہاد قیادت اب ہر حال میں کیفر کردار کو پہنچے گی۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے کہا تھا کہ انگلی بھی اٹھی تو مستعفی ہو جاﺅں گا۔ یہ سارے بیانات ریکارڈ پر ہیں، انہوں نے کہا کہ نواز شریف سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی منصوبہ بندی میں شامل ہیں۔ ان کے بغیر اتنا بڑا اقدام نہیں ہو سکتا۔ سانحہ سے قبل وزرا کے دھمکی آمیز بیانات ان کے ارادوں کو ظاہر کررہے تھے کہ وہ خون کی ہولی کھیلنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی ایف آئی آر سابق آرمی چیف کے حکم پر درج ہوئی تھی۔ ہمارا ہدف قصاص ہے اور اس کے لیے ہم کسی حد تک بھی جائینگے۔ ہم نے پرامن طریقے سے قانونی جنگ لڑی ہے حکمرانوں کا گھٹیا پروپیگنڈا بھی برداشت کیا۔ ہمارے بے گناہ کارکنوں کے قاتل شریف برادران ہیں، انشا اللہ تعالی سچ سامنے آکررہے گا اور قاتل اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے مسلم لیگ (ن)کے سوا پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، ق لیگ، جماعت اسلامی، مجلس وحدت مسلمین سمیت تمام سیاسی مذہبی جماعتوں کی قیادت اور کارکنوں کو دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک ہمیں رپورٹ نہیں ملے گی اس وقت تک احتجاج جاری رہیگا، سانحہ منہاج القرآن ریاست پاکستان کا مسئلہ ہے ہمیں ابھی تک پوری طرح انصاف نہیں ملا، ہائیکورٹ نے جسٹس باقر نجفی رپورٹ 30دنوں میں متاثرین کو فوری دینے کا حکم دیا ہے، حکمرانوں کا ضمیر مر چکا اور ان میں اخلاقی اقدار ختم ہو چکی ہیں ابھی انصاف کا دروازہ کھلا ہے لیکن بہت سے مر حلے باقی ہیں۔ عوامی تحریک کے ترجمان نوراللہ صدیقی نے عوامی تحریک کی سنٹرل کور کمیٹی کے ہنگامی اجلاس کے بعد بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزیر قانون اور سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے مرکزی کردار رانا ثنا اللہ کی پریس کانفرنس ایک ہارے ہوئے جواری کا واویلا تھی۔ ترجمان نے مزید کہا کہ آج کارکن خرم نواز گنڈاپور کی قیادت میں پرامن طریقے سے سول سیکرٹریٹ جائینگے ۔ لاہور ہائیکورٹ کے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی انکوائری پورٹ منظر عام پر لانے کا حکم پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اپوزیشن رہنماﺅں نے کہا ہے کہ آج انصاف کی جیت ہوئی ہے۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا حکومت کی کوشش تھی کہ اہم رپورٹ منظر عام پر نہ آئے، سیاست نہیں کرنا چاہتا۔ اہم فیصلے پر امن وامان کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات چوہدری منظور نے کہا کہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آتے ہی اس کے مطابق ایف آئی آر درج کی جائے، عدالتی کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داران کو بھی فوری گرفتار کیا جائے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا ان کا تابوت نکلے گا اب سپریم کورٹ بھی ان کا کیس نہیں سنے گی، یہ لوگ اپنے آپ کو خدا سمجھتے تھے، پنجاب حکومت نے ماڈل ٹاﺅن میں ظلم کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کو مارچ سے پہلے کِک مارچ ہوجائے گا۔ سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے کہا ہے کہ جسٹس نجفی رپورٹ جاری کرنے کا عدالتی فیصلہ انصاف کی فتح ہے۔ سانحہ ماڈل ٹان قاتل حکمرانوں کے گلے کا پھندا ضرور بنے گا۔ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ چند ماہ میں پاکستان کی سیاست میں انقلابی تبدیلیاں ہونے والی ہیں۔

فرقہ ورانہ کشیدگی کا خطرہ‘ ٹربیونل غیر قانونی ‘ سانحہ ماڈل کی دوسری رپوٹ آگئی

لاہور (نیااخبار رپورٹ) سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے حوالے سے جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ کے مقابلے میں پنجاب حکومت نے ٹربیونل کی فائنڈنگ اور سانحہ کے حالات و واقعات کے متعلق سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس خلیل الرحمن خان پر مشتمل ایک رکنی کمیٹی کی رپورٹ بھی جاری کر دی ہے۔ جسٹس خلیل الرحمن خان نے اپنی رپورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے واقعے، کمیشن کی حیثیت اور اس کی سفارشات کے حوالے سے متعدد قانونی نکات اٹھاتے ہوئے اپنے حتمی تجزیئے میں حکومت کو تجویز کیا کہ وہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو قبول نہ کرے کیونکہ یہ رپورٹ مفاد عامہ کے منافی ہے۔ اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن عامہ کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ جسٹس خلیل الرحمن نے یہ بھی سفارش کی کہ حکومت اس معاملے میں انکوائری کرے اور اس حوالے سے اسمبلی سے قانون منظور کروائے۔ 52صفحات پر مشتمل خلیل الرحمن رپورٹ میں کہا گیا کہ نجفی ٹربیونل نے وزیراعلیٰ کے حوالے سے جائے وقوعہ کو پولیس سے خالی کروانے سے متعلق جو فائنڈنگ دی ہیں یہ حقائق پر مبنی نہیں ہیں‘ یہ ٹربیونل کی اپنی سوچ کی عکاس ہیں اور اس حوالے سے ٹربیونل کی اپنی رپورٹ میں تضادات ہیں۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں مختلف ملکوں کے اس حوالے سے قوانین اور عدالتی فیصلوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ جسٹس خلیل الرحمن کمیٹی نے لکھا کہ ٹربیونل نے بہت سارے حقائق سامنے نہیں لائے۔ ٹربیونل نے گلو بٹ سے متعلق مختلف چینلز پر چلنے والی فوٹیج اور خبروں کا جائزہ بھی لیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شہریوں کے جان و مال کو تحفظ دیتی ہے۔ حکومت اسے نجی املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ ٹربیونل نے گلو بٹ کے واقعے کا نوٹس ہی نہیں لیا حالانکہ ایس پی طارق عزیز نے اپنے بیان میں اس کا ذکر بھی کیا۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ ٹربیونل نے بہت سے حقائق کو نظرانداز بھی کیا۔ آئی بی کی رپورٹ کو بھی نظرانداز کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ طاہرالقادری کے گھر سے فائرنگ ہوئی جس سے 3پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ اس پہلو کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنایا گیا اور مظاہرین کی براہ راست فائرنگ سے کانسٹیبل ذیشان زخمی ہوا۔ کمیٹی نے لکھا کہ ٹربیونل نے اس معاملے پر اپنا فیصلہ لکھتے ہوئے خود کو جج تصور کر لیا۔ یہ بھی تصور کیا گیا کہ وزیر قانون نے طاہرالقادری کو اپنے مقاصد کے حصول کو پورا نہ ہونے دینے کا فیصلہ کیا‘ حالانکہ شہادت موجود ہے کہ وزیر قانون نے رکاوٹیں ختم کرنے کا فیصلہ قانون کے مطابق کیا اور اس کی کوئی اور وجوہات نہ تھیں۔ ٹربیونل نے جو آبزرویشنز دیں کسی ریکارڈ سے ثابت نہیں ہوتیں۔ ڈاکٹر توقیر شاہ نے بھی بیان دیا تھا کہ رکاوٹیں ہٹانے کا اختیار وزیراعلیٰ کو نہیں وزیر بلدیات کو ہے۔ کمیٹی نے لکھا کہ لاہور ہائیکورٹ کا 2011ءکا حکم اس میٹنگ میں پیش نہیں ہوا۔ کمیٹی نے لکھا کہ یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ ٹربیونل نے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 14 کیوں لکھی حالانہ حقیقت میں یہ 10ہلاکتیں تھیں۔ یہ بھی ریکارڈ ہے کہ پولیس نے رکاوٹیں ہٹانے کے لئے عوامی تحریک کے رہنماﺅں اور ورکروں سے 3بار مذاکرات کرنے کی کوشش کی پھر پولیس کو خفیہ یا ظاہری طور پر فائرنگ کرنے کا کیونکر کہا جاتا۔ گواہوں کے بیانات ہیں کہ عوامی تحریک کے کارکنوں نے فائرنگ کی اور انٹرنیشنل مارکیٹ کی چھت پر پوزیشنیں لیں۔ کمیٹی نے لکھا کہ سٹی گورنمنٹ ایڈمنسٹریشن نے صرف غیرقانونی رکاوٹیں ختم کیں‘ اگر یہ غیرقانونی تھا تو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا تھا۔ ٹربیونل نے خود اپنی رپورٹ میں دو متضاد موقف اختیار کئے۔ ٹربیونل کی پولیس اہلکاروں کی طرف سے خواتین سے بدتمیزی سے متعلق آبزرویشن افسوسناک ہے۔ یہ آبزرویشن ایک گواہ جاوید اقبال کے بیان پر مبنی ہے۔ اس گواہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ خواتین پر فائرنگ کرنے والے پولیس افسر کو پہچان سکتا ہے حالانکہ وہ پولیس افسر کا رینک بھی نہیں بتا سکتا۔ کمیٹی نے لکھا کہ ٹربیونل کی طرف سے اختیارات تفویض نہ کرنے کی شکایت درست نہیں چونکہ اس سانحے پر مقدمات درج ہو چکے تھے اس لئے سیکشن 11کے تحت ٹربیونل کو اختیارات نہیں دیئے جا سکتے تھے۔یہ درست نہیں کہ حکومت نے اختیار نہیں دیا بلکہ حکومت نے آگاہ کیا تھا کہ مقدمات درج ہونے کے بعد ضابطہ فوجداری کے تحت ان مقدمات کی تفتیش پہلے ہی ہو رہی ہے۔ ٹربیونل کا یہ کہنا کہ وزیراعلیٰ نے اپنی پریس کانفرنس میں پولیس کو ہٹانے کے حوالے سے اپنے احکامات کا ذکر نہیں کیا درست نہیں کیونکہ وزیراعلیٰ نے پریس کانفرنس کے آخر میں کہا تھا کہ جب انہیں صبح واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے فوری طور پر اس کا نوٹس لیا۔
جسٹس خلیل الرحمن رپورٹ