تازہ تر ین

فرقہ ورانہ کشیدگی کا خطرہ‘ ٹربیونل غیر قانونی ‘ سانحہ ماڈل کی دوسری رپوٹ آگئی

لاہور (نیااخبار رپورٹ) سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے حوالے سے جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ کے مقابلے میں پنجاب حکومت نے ٹربیونل کی فائنڈنگ اور سانحہ کے حالات و واقعات کے متعلق سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس خلیل الرحمن خان پر مشتمل ایک رکنی کمیٹی کی رپورٹ بھی جاری کر دی ہے۔ جسٹس خلیل الرحمن خان نے اپنی رپورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے واقعے، کمیشن کی حیثیت اور اس کی سفارشات کے حوالے سے متعدد قانونی نکات اٹھاتے ہوئے اپنے حتمی تجزیئے میں حکومت کو تجویز کیا کہ وہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو قبول نہ کرے کیونکہ یہ رپورٹ مفاد عامہ کے منافی ہے۔ اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن عامہ کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ جسٹس خلیل الرحمن نے یہ بھی سفارش کی کہ حکومت اس معاملے میں انکوائری کرے اور اس حوالے سے اسمبلی سے قانون منظور کروائے۔ 52صفحات پر مشتمل خلیل الرحمن رپورٹ میں کہا گیا کہ نجفی ٹربیونل نے وزیراعلیٰ کے حوالے سے جائے وقوعہ کو پولیس سے خالی کروانے سے متعلق جو فائنڈنگ دی ہیں یہ حقائق پر مبنی نہیں ہیں‘ یہ ٹربیونل کی اپنی سوچ کی عکاس ہیں اور اس حوالے سے ٹربیونل کی اپنی رپورٹ میں تضادات ہیں۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں مختلف ملکوں کے اس حوالے سے قوانین اور عدالتی فیصلوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ جسٹس خلیل الرحمن کمیٹی نے لکھا کہ ٹربیونل نے بہت سارے حقائق سامنے نہیں لائے۔ ٹربیونل نے گلو بٹ سے متعلق مختلف چینلز پر چلنے والی فوٹیج اور خبروں کا جائزہ بھی لیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شہریوں کے جان و مال کو تحفظ دیتی ہے۔ حکومت اسے نجی املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ ٹربیونل نے گلو بٹ کے واقعے کا نوٹس ہی نہیں لیا حالانکہ ایس پی طارق عزیز نے اپنے بیان میں اس کا ذکر بھی کیا۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ ٹربیونل نے بہت سے حقائق کو نظرانداز بھی کیا۔ آئی بی کی رپورٹ کو بھی نظرانداز کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ طاہرالقادری کے گھر سے فائرنگ ہوئی جس سے 3پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ اس پہلو کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنایا گیا اور مظاہرین کی براہ راست فائرنگ سے کانسٹیبل ذیشان زخمی ہوا۔ کمیٹی نے لکھا کہ ٹربیونل نے اس معاملے پر اپنا فیصلہ لکھتے ہوئے خود کو جج تصور کر لیا۔ یہ بھی تصور کیا گیا کہ وزیر قانون نے طاہرالقادری کو اپنے مقاصد کے حصول کو پورا نہ ہونے دینے کا فیصلہ کیا‘ حالانکہ شہادت موجود ہے کہ وزیر قانون نے رکاوٹیں ختم کرنے کا فیصلہ قانون کے مطابق کیا اور اس کی کوئی اور وجوہات نہ تھیں۔ ٹربیونل نے جو آبزرویشنز دیں کسی ریکارڈ سے ثابت نہیں ہوتیں۔ ڈاکٹر توقیر شاہ نے بھی بیان دیا تھا کہ رکاوٹیں ہٹانے کا اختیار وزیراعلیٰ کو نہیں وزیر بلدیات کو ہے۔ کمیٹی نے لکھا کہ لاہور ہائیکورٹ کا 2011ءکا حکم اس میٹنگ میں پیش نہیں ہوا۔ کمیٹی نے لکھا کہ یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ ٹربیونل نے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 14 کیوں لکھی حالانہ حقیقت میں یہ 10ہلاکتیں تھیں۔ یہ بھی ریکارڈ ہے کہ پولیس نے رکاوٹیں ہٹانے کے لئے عوامی تحریک کے رہنماﺅں اور ورکروں سے 3بار مذاکرات کرنے کی کوشش کی پھر پولیس کو خفیہ یا ظاہری طور پر فائرنگ کرنے کا کیونکر کہا جاتا۔ گواہوں کے بیانات ہیں کہ عوامی تحریک کے کارکنوں نے فائرنگ کی اور انٹرنیشنل مارکیٹ کی چھت پر پوزیشنیں لیں۔ کمیٹی نے لکھا کہ سٹی گورنمنٹ ایڈمنسٹریشن نے صرف غیرقانونی رکاوٹیں ختم کیں‘ اگر یہ غیرقانونی تھا تو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا تھا۔ ٹربیونل نے خود اپنی رپورٹ میں دو متضاد موقف اختیار کئے۔ ٹربیونل کی پولیس اہلکاروں کی طرف سے خواتین سے بدتمیزی سے متعلق آبزرویشن افسوسناک ہے۔ یہ آبزرویشن ایک گواہ جاوید اقبال کے بیان پر مبنی ہے۔ اس گواہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ خواتین پر فائرنگ کرنے والے پولیس افسر کو پہچان سکتا ہے حالانکہ وہ پولیس افسر کا رینک بھی نہیں بتا سکتا۔ کمیٹی نے لکھا کہ ٹربیونل کی طرف سے اختیارات تفویض نہ کرنے کی شکایت درست نہیں چونکہ اس سانحے پر مقدمات درج ہو چکے تھے اس لئے سیکشن 11کے تحت ٹربیونل کو اختیارات نہیں دیئے جا سکتے تھے۔یہ درست نہیں کہ حکومت نے اختیار نہیں دیا بلکہ حکومت نے آگاہ کیا تھا کہ مقدمات درج ہونے کے بعد ضابطہ فوجداری کے تحت ان مقدمات کی تفتیش پہلے ہی ہو رہی ہے۔ ٹربیونل کا یہ کہنا کہ وزیراعلیٰ نے اپنی پریس کانفرنس میں پولیس کو ہٹانے کے حوالے سے اپنے احکامات کا ذکر نہیں کیا درست نہیں کیونکہ وزیراعلیٰ نے پریس کانفرنس کے آخر میں کہا تھا کہ جب انہیں صبح واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے فوری طور پر اس کا نوٹس لیا۔
جسٹس خلیل الرحمن رپورٹ


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain