مے فیئر فلیٹس کا مالک ….؟ حیران کن انکشافات

اسلام آباد (اے این این، مانیٹرنگ) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں کل پاناما کیس کا اصل معاملہ سامنے آئے گا اور کیس 2ہفتوں تک ختم ہوجائے گا۔ اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے چیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ ملک جس طرح چل رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے، ہماری تاریخ میں طاقتور مجرم کا احتساب نہیں ہوتا اس لیے پاناما کیس ملک کی تاریخ کا سب سے اہم مقدمہ ہے، عدالت میں اصل معاملہ جمعے کو اٹھایا جائے گا اور یہ کیس پیر تک ختم ہوجائے گا جب کہ سپریم کورٹ کے روزانہ سماعت کے فیصلے کی تعریف کرتا ہوں۔ حکومتی رہنماو¿ں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن ثبوت پیش نہیں کرسکی حالانکہ ثبوت اکٹھے کرنا اپوزیشن نہیں اداروں کا کام ہوتا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ حکومت 8 ماہ سے شریف خاندان کی کرپشن کو بچارہی ہے تاہم ہمارا کیس یہ ہے کہ نواز شریف نے یہاں سے پیسہ منی لانڈرنگ کیا، نواز شریف نے بچوں کا پیسہ باہر بھجوا کر بچوں کا نام لگا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاناما انکشافات کے بعد متضاد بیانات سامنے آئے ہیں اور کہانیاں بدلنا شروع ہوگئیں، پہلے قطری شہزادہ آیا اب دیکھتے ہیں کونسا شہزادہ آتا ہے تاہم قطری شہزادے کو مشورہ ہے اگر جیل سے بچنا چاہتے ہو توعدالت نہ آئے۔ انہوں نے کہا کہ موٹو گینگ کی جھوٹ بول بول کر شکلیں بدل گئیں ہیں، وزرا طوطوں کی طرح کہتے ہیں ثبوت نہیں دیے جب کہ کابینہ ملک چلانے کے بجائے سپریم کورٹ میں بیٹھی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی ہمیں قبول ہوگا تاہم موٹوگینگ کی غلط بیانیوں کے بعد ہمیں صورتحال واضح کرنے کے لیے پریس کانفرنس کرنا پڑتی ہے جب کہ وکیل تبدیل کرنے سے کمزورکیس بہتر نہیں ہوسکتا۔ عمران خان نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ جمہوریت میں اپوزیشن کا کام ثبوت دینا نہیں، نشاندہی کرنا ہوتا ہے ، ثبوت تلاش کرنا اداروں کا کام ہے، کل ثابت کریں گے کہ مریم نواز مے فیئرفلیٹس کی مالکن ہیں، نوازشریف نے سچ کہا کہ کرپشن کا پیسہ کوئی اپنے نام پر نہیں رکھتا، امید ہے کہ دوہفتوں میں کیس انجام کو پہنچ جائے گا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کاکہناتھاکہ آٹھ مہینے سے حکومت کا کام صرف نوازشریف کی کرپشن کو چھپانارہ گیا، کل یہ ثابت ہوگا کہ مریم نوازفلیٹس کی مالک ہیں، مسلم لیگ ن یہ پراپیگنڈا کررہی ہے، وزیرطوطوں کی طرح لگے رہتے ہیں کہ ہم ثبوت فراہم نہیں کرسکے، تفتیش کرنا اور ثبوت اکٹھے کرنا اداروں کا کام ہے، ادارے ثبوت اکٹھے کرکے اپوزیشن کو جواب دیتے ہیں، کابینہ ملک چلانے کی بجائے سپریم کورٹ میں بیٹھی ہے، جھوٹ بول بول کر موٹو گینگ کی شکلیں بدل گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکمرانوں پر الزامات لگے تو متضاد بیانات سامنے آئے، قطری شہزادہ چھلانگ لگا کر آگیا لیکن بتادوں کہ اگر قطری شہزادہ جیل نہیں جانا چاہتا تو نہ آئے، قطری کے بعد پتہ نہیں کونسا شہزادہ آئے گا، مریم نوا کہہ چکی ہیں کہ میرا بیرون ملک کوئی اثاثہ نہیں لیکن کل ثابت کریں گے کہ مے فیئرکی مالکن ہیں، نوازشریف نے منی لانڈرنگ سے پیسہ بیرون ملک منتقل کرکے بچوں کے نام پر کمپنیاں بنائیں ۔ عمران خان نے سپریم کورٹ میں پانامالیکس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کو خوش آئند قراردیتے ہوئے کہا کہ ہمارا کیس پیر تک ختم ہوجائے گا، پھر حکومت کا موقف سنا جائے گا، نوازشریف کے بچوں کے بیانات میں تضاد ہے ، اگر آئی سی آئی جے غلط ہے تو حکومت کیس کیوں نہیں کرتی ؟ اسحاق ڈار کا بیان حلفی موجود ہے ،میاں نوازشریف نے ایک ہی سچ بولا ہے کہ کرپشن کا پیسہ کوئی اپنے نام پر نہیں رکھتا، چوری کے پیسے کو چھپانے کے لیے کمپنیاں بنا کران کی آڑ لی۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے عدالت میں زیر سماعت پانامہ کیس پر تبصرے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کے کسی فیصلے کے خلاف نہیں جائیں گے، معاملہ اعلیٰ عدالت میں ہے اس پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں ۔پاناما کیس کی سماعت کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے خلاف کیس اعلی عدلیہ میں زیر سماعت ہے اور دوران سماعت کسی کیس پر تبصرہ کرنا نہیں چاہتے کیونکہ یہ مناسب نہیں، عمران خان نے کہا کہ وزیر اعظم کے خلاف جتنے ثبوت عدالت میں پیش کئے جاچکے ہیں کیا اس کے بعد بھی کسی ثبوت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟۔ عمران خان نے کہا کہ ہم عدالت کی کارروائی کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ موٹو گینگ موٹو گینگ ہے، ہم عدالتی کارروائی یا ریمارکس کیخلاف نہیں جانا چاہتے۔

کارکردگی نہ دکھانیوالے ججز وہاں چلے جائیں ….

لاہور (خبریں رپورٹر) لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے ماتحت عدلیہ کے ججوں پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کارکردگی دکھائیں۔ کیسوں کو جلد نمٹائیں اور فوری حصول انصاف کو یقینی بنائیں۔ کارکردگی نہ دکھانے والے جج صاحبان گھروں کو چلے جائیں وہ ماتحت عدلیہ میں تاریخ میں پہلی بار کیس مینجمنٹ پالیسی وضع کرنے کے بعد میڈیا کو پریس بریفنگ دے رہے تھے انہوں نے کہا کہ نظام عدل پالیسی واضح کر دی گئی ہے اگر ماتحت عدلیہ کے جج کو کوئی مسئلہ درکار ہے یا وہ تبادلہ کروانا چاہتا ہے تو وہ براہ راست مجھ سے مل سکتا ہے میرے چیمبرز کے دروازے ان کے لئے کھلے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے بریفنگ کے دوران میڈیا کو بتایا کہ 6 ماہ کے دوران ہائی کورٹ کے ججوں نے 57 ہزار مقدمات نمٹائے۔ جبکہ صوبہ بھر کی ماتحت عدلیہ کے ججوں نے 8 لاکھ 80 ہزار مقدمات نمٹا کر تاریخ رقم کر دی۔ اب زیر التوا کیسوں کی تعداد کم ہو کر 12 لاکھ 35 ہزار رہ گئی ہے جن کو جلد نمٹانے کے لئے کیس مینجمنٹ پالیسی کا نفاذ کر دیا ہے اور ماتحت عدلیہ کے ججوں کو سول، سروس،کریمینل وغیرہ کیسوں کی سماعت کے لئے کیٹیگری بنا دی گئی ہے پہلے ہر جج کے پاس مکس کیس سماعتکے لئے لگائے جاتے تھے چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 1 لاکھ 53 ہزار تھی۔ جس میں سے 57 ہزار مقدمات نمٹا دیئے گئے۔ باقی مقدمات کو جلد نمٹانے کے لئے ججوں کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے اعلان کیا کہ ماتحت عدلیہ ا ہر جج عبوری طور پر 1 جگہ پر 3 ماہ کے لئے کام کرے گا۔ اس دوران اس کا تبادلہ نہیں کیا جائے گا۔ اگر پراگرس نہ دکھائی تو تبادلہ کر دیا جائے گا کیونکہ بار بار تبادلوں کی وجہ سے ججوں کو کام میں دشواری کا سامنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہر جج 3 ماہ کے لئے 9 جنوری سے 8 اپریل تک کام کرے گا۔ لاہور ہائیکورٹ نے ضلعی عدلیہ میں مقدمات کے جلد فیصلوں کیلئے پنجاب کی ضلعی عدلیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جوڈیشل افسروں کے تبادلوں کی نئی ٹرانسفر پالیسی نافذ کر دی ہے، ابتدائی طور پر ہر جوڈیشل افسر کا تین ماہ سے قبل بلاجواز تبادلہ نہیں ہوگا،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ نے سینئر ججز پر مشتمل ایڈوائزری کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں ضلعی عدلیہ میں مقدمات کے جلد فیصلوں کیلئے جوڈیشل افسروں کے تبادلوں کی نئی ٹرانسفر پالیسی نافذ کر دی ہے۔

اہم ترین شخصیت کو حوالے کرنے پر میری حکومت ختم کی گئی …. سابق وزیر اعظم کا انکشاف

فرید آباد (آئی این پی ) سابق وزیر اعظم پاکستان و ممبر قومی اسمبلی میر ظفراللہ کا جمالی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت ختم کرنے کی بڑی وجوہات ڈاکٹر عبدالقدیر کو حوالے نہ کرنے اور نواب اکبر خان بگٹی کے خلاف آپریشن کے خلاف اجازت نہ دینا تھا ،بینظیر بھٹو کے دور میں رمزی مارا گیا اور نواز شریف کے دور میں ایمل کاسی مارا گیا اگر میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو حوالے کردیتا توگھر واپس نہ آتا اور شرم سے مر جاتا ،میں تین اشخاص کا بہت ہی ممنون ہوں جنھوں نے سیاست میں کردار ادا کیا میر جعفر جمالی جو مجھے سیاست میں لا ئے اگر وہ نہ لاتے تو میں سیاست میں نہ ہو تا دوسرا ذولفقار علی بھٹو جن کے ساتھ میں نے کام کیا اور نواب اکبر خان بگٹی جو میر ا بزرگ ہے جب بگٹی صاحب کامسئلہ آیا میں نے کہا کہ میں صدر صاحب سے کہا کہ میں دستخظ نہیں کروں گا اور کہا کہ نیا وزیراعظم ڈ ھونڈیں اور میں گھر جارہا ہوں میں اپنے بزرگ کو قتل کروں یہ ہو نہیں سکتا ۔ وہ پریس کلب صحبت پور کے تقریب حلف برداری کے موقع پر خطاب کررہے تھے ان کا مزید کہنا تھا کہ سی پیک کا معاملہ اسمبلی میں اٹھاﺅں گا نصیر آباد ڈویژن کے صوبائی اسمبلی کے ممبران کو چاہیے کہ وزیراعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری کے ذریعے سی پیک کے معاملے کو وزیر اعظم کے پاس اٹھائیں ان کا کہنا تھا کہ دو روز قبل بھی میں نے سبی میں خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ بلوچستان کو صرف روڈ دینا ترقی نہیں جب پاکستان نہیں تھا تو بلوچستان تھا اور آج پاکستان ہے تو بھی بلوچستان ہے بلوچستان کو ان کے حقوق ملنے چاہیں ہمیں ہمارا حق دو بلوچوں کوان حق دو کیونکہ بلوچستان لیٹ سے صوبہ بنا اوربلوچستان کو ان کے حقوق ملنے چاہیں ۔

2 ارب کا اسلحہ،منشیات ،نقدی کس نے ہڑپ کی….سنسنی خیز انکشافات

لاہور (خصوصی رپورٹ) پنجاب پولیس میں 2 ارب سے زائد کی مبینہ کرپشن جبکہ سیاسی شخصیات کی جانب سے پولیس کو تحفظ دینے کا انکشاف ہوا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق محکمہ داخلہ کی جانب سے تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق 2011ئ سے اپریل 2015 ءتک مختلف گینگز، دہشت گردوں سے اور سمگلنگ کیخلاف کارروائیوں کے دوران 2 ارب روپے سے زائد کا اسلحہ، منشیات و نقد ی ضبط کی گئی جس کا ابھی تک نہ تو اندراج کیا گیا ہے نہ ہی پکڑا جانیوالا سامان مال خانہ میں جمع کروایاگیا۔ اسلحہ میں 3 ہزار543 ہینڈ گرنیڈز، 5281 کلاشنکوفیں، 48 ہزار 47 رائفلیں، 73ہزار گنز،3 لاکھ 52 ہزار 487 پستول، 53 ہزار 739 کاربین، 31 لاکھ 20 ہزار 527 کارتوس اور 18 ہزار 965 شارپ ایج ویپن شامل ہیں۔ اسی طرح اینٹی نارکوٹکس کی جانب سے ضبط کی گئی منشیات کا بھی اندراج نہیں کیا گیا جس میں 7 ہزار912 کلو گرام ہیروئن،7 ہزار 340 کلو گرام افیون، 1 لاکھ 39 ہزار 908 کلوگرام چرس،26 لاکھ 68 ہزار 885 شراب کی بوتلیں، 15لاکھ 43 ہزار 826 لٹر لائن، 3لاکھ 21 ہزار 342 لٹرمارفین شامل ہے۔ علاوہ ازیں ملزموں سے برآمد کروڑوں روپے کی نقد رقم کا اندراج بھی نہیں کیاگیا۔ اس مبینہ کر پشن کو چھپانے کیلئے مال خانہ کو ایک سا بق سینئر انویسٹی گیشن افسر نے کسی بھی متعلقہ افسر سے ہدایات لئے بغیر سیل کر دیا تھا۔ بعض افسروں نے ایک اجلاس میں تحفظات ظاہر کئے تو مبینہ طور پر معاملات آئی جی پنجاب کی جانب سے دبالئے گئے۔ اس ایشو کو آئندہ اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ ہی نہ بنایا گیا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے محکمہ داخلہ پنجاب نے دو سال قبل رپورٹ تیار کی تھی جس پر تاحال کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ ذرائع کے مطابق محکمہ پولیس کو تحفظ فراہم کرنے میں مبینہ طور پر حکومتی ایوانوں میں موجود سیاسی شخصیات شامل ہیں۔ اس حوالے سے محکمہ داخلہ کے حکام کا کہنا تھا معاملات مختلف کمیٹیوں میں زیر التواہیں، تاہم تحقیقات کر رہے ہیں۔ جبکہ پنجاب پولیس حکام کا کہنا تھا یہ گزشتہ برسوں سے متعلق رپورٹ ہے اور معاملات کی تفتیش جاری ہے۔

” 6 لاکھ کشمیریوں کو شہید کرنے کے بعد بھی دنیا کی ”نام نہاد جمہوریت“ کا کلیجہ ٹھنڈا ہوا “

پیارے بھائی ضیاشاہد صاحب
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
اللہ سے خیریت کی امید ہے
آپ کی خیریت کے حوالے سے محترم صغیر قمر صاحب سے معلومات ہوتی رہتی تھیں‘ مدت ہوئی پابندیوں کی وجہ سے ان سے بھی بات نہیں ہوسکی‘ آپ جانتے ہیں کہ میں برسوں سے قیدوبند کی اذیتیں جھیل رہا ہوں۔ ریاست جموں و کشمیر سات دہائیوں سے ایک جیل کا روپ دھار چکی ہے۔ باہر کی دنیا سے رابطہ کرنا تو مشکل ہے ہی‘ کسی ادارے یا فرد کا ادھر آنا بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ ہم بند پنجرے میں برسوں سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ چھ لاکھ افراد شہید کرنے کے بعد بھی دنیا کی ”نام نہاد جمہوریت“ کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ قصور صرف یہ ہے کہ ہم اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی آرزو کررہے ہیں۔ ہم اس جمہوریت کو اس کے وعدے یاد کرارہے ہیں اور ان وعدوں کی تکمیل پر اصرار کرتے ہیں۔ اس جرم کی پاداش میں لاکھوں شہید‘ ہزاروں معذور کردیئے گئے۔ عفت مآب خواتین کی بے حرمتی کی گئی‘ مال و متاع لوٹا گیا‘ لاکھوں شہریوں کو ہجرت پر مجبور کردیا گیا‘ کتنے ایسے ہیں جو جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘ آزادی کا خواب دیکھنے والی آنکھوں کو بے نور کردیا گیا اور ریاستی جبر کے ذریعے ہمارے جینے کے تمام راستے بند کردیئے گئے۔ آپ کے ذرائع ابلاغ میں جو پیش کیا جارہا ہے یہ اس ظلم کا عشر عشیر بھی نہیں جو اس جنت نظیر خطے کے باسیوں پر ہورہا ہے۔
مہینوں سے ہم بدترین کرفیو کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور کردیئے گئے ہیں اور مجھے نہیں معلوم یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور جبر تلے زندگی گھٹ کر رہ گئی ہے۔ ہمارے نوجوان‘ بچوں‘ بوڑھوں اور عفت مآب خواتین نے اس جبر کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا ہے۔ ہمارے قائدین عقوبت خانوں کی بدترین صعوبتوں کے باوجود حق خودارادیت کے لئے ہرقربانی کے لئے ہر دم تیار ہیں۔ بھارتی حکمران اپنے چند درندہ صفت فوجیوں کی ہلاکت کو بھولنے کے لئے تیار نہیں تو جموں و کشمیرکے باغیرت‘ باہمت اور وفا شعار لوگ اپنے چھ لاکھ شہیدوں کے لہو کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ ان کا عزم جواں ہے۔ آپ کی زیرادارت چلنے والے روزنامہ ”خبریں“ اور ”چینل ۵“کی ہماری تحریک سے پرانی وابستگی ہے اور ہمیشہ ہمارے کاز کی حمایت کی ہے‘ میں آپ کے تجزیئے انٹرنیٹ کے ذریعے پڑھتا رہتا ہوں۔ روزنامہ ”خبریں“ نے بالعموم اور حالیہ دنوں میں بالخصوص ہمارے اوپر بیتنے والے ظلم پر صدائے احتجاج بلند کی ہے اگرچہ یہ آپ کا فرض ہے لیکن میں آپ اور آپ کے اداروں کا بے حد ممنون ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ میرے شکریے کو قبول کرتے ہوئے ہماری آواز کو آزاد دنیا تک پہنچانے میں مزید تعاون کریں گے۔ ہمارے ہاتھ پاﺅں بندھے ہیں لیکن ہماری زبانیں کوئی بند نہیں کرسکتا۔ ہمارے دلوں سے آزادی کی آرزو کوئی بھی کھرچ نہیں سکتا۔ ہم حق پر ہیںاور یقیناً اللہ تعالیٰ حق والوں کے ساتھ ہے۔ میری آپ سے بھی درخواست ہے کہ آپ حق کا ساتھ دیجئے ہمیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ہماری زندگیوں میں اس خطے کو آزادی ملتی ہے یا نہیں بس اتنا یقین ضرور ہے کہ ایک روز آزادی کا سورج طلوع ہوکر رہے گا۔ ستر سال گزر گئے مزید ستر بھی گزر جائیں تو ہماری نسلیں بھارت کے جبر سے تب بھی برسرپیکار رہیں گی۔ بھارت اور اس کے حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ جموں و کشمیر نہ کل ان کا حصہ تھا نہ مستقبل میں وہ اس کو ہڑپ کرسکیں گے۔ جموں و کشمیرکے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے ان کی مرضی اور خواہش کے علی الرغم جو بھی حل تھوپا گیا اسے کبھی ماضی میں قبول کیا نہ آئندہ کریں گے۔
محترمی….!!
میں اس وقت بھی نظربندی کی زندگی گزار رہا ہوں‘ میں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ بھارتی جیلوں اور تعذیب خانوں میں گزارا‘ برسوں کا ظلم ہمیں اپنے مو¿قف سے ایک انچ بھی نہیں ہٹا سکا ‘ ہمارا عہد ہے کہ جب تک ہمارے سرگردنوں پر باقی ہیں‘ ہمارا ایک بھی فرد زندہ ہے ہم ہر حال میں جدوجہد جاری رکھیں گے۔ چاہے اس کے لئے ہمیں مزید کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ آپ سے ہم توقع رکھتے ہیں کہ آپ اسی طرح ہماری حمایت جاری رکھیں گے اور پاکستان اور پاکستان سے باہر ذرائع ابلاغ کو اس کھلے ظلم کی جانب متوجہ کرتے رہیں گے۔
میں ایک بار پھر ریاست جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کی طرف سے بھرپور حمایت اور ظلم کیخلاف احتجاج پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ بالآخر وہ دن آکر رہے گا جس کی ہم تمنا کرتے ہیں۔ان شاءاللہ۔
والسلام
آپ کا خیراندیش
سید علی گیلانی
اسیر‘ حیدرپورہ‘ سری نگر جموں وکشمیر

پنجاب میں اس چیز پر آئندہ سے مکمل پابندی ہو گی …. نوٹیفکیشن بھی جاری

لاہور (خصوصی رپورٹ) محکمہ داخلہ پنجاب نے صوبے بھر میں شیشہ اور حقہ نوشی پر مکمل پابندی عائد کردی‘ جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔ ترجمان محکمہ داخلہ کے مطابق دفعہ 144 کے تحت پابندی عائد کی گئی ہے جس کے تحت پارک، ریسٹورنٹس اور ہوٹل میں بھی شیشہ اور حقہ نوشی پر مکمل پابندی ہوگی جو 31جنوری تک برقرار رہے گی۔
نوٹیفکیشن

مصباح کیلئے آسٹریلیا ٹور ڈراﺅنا خواب بن گیا

سڈنی(آئی این پی)قومی ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے تین ٹیسٹ میچوں کی سریز میں اپنے کیرئیر کی سب سے کم اوسط سکور بنانے کا ریکارڈ بنا لیا ،اس سریز میں انہوں نے 7.60ایوریج سے سکور کیا۔ تفصیل کے مطابق آسٹریلیا کے ساتھ جاری تین میچوں کی ٹیسٹ سریز میں مصبا ح الحق نے پہلے میچ کی ایک اننگز میں 4جبکہ دوسری اننگز میں 5سکور کیے ،دوسرے میچ کی پہلی اننگز میں 11جبکہ دوسری اننگز میں 0سکور پر پویلین لوٹے جبکہ تیسرے میچ کی پہلی اننگز میں وہ صرف 18رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔اس طرح انہوں نے اب تک 7.60کی اوریج سے سکور کیا ہے۔مصباح الحق کی گزشتہ کم ترین اوریج 11.50تھی اور یہ کارکردگی بھی 2002-3میں آسٹریلیا ہی کے خلاف تھی۔

ناقص خوراک ، غیر میعاری دودھ ، گندا پانی ، بچوں کو آئندہ 5 برس تک یہی ملتے رہے تو پاکستان کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ میڈیا پر صرف سیاسی ایشوز پر ہی پروگرامز نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ناقص خوراک اور گندے پانی جیسے بنیادی مسائل پر بھی پروگرامز کئے جانے چاہئیں۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ عوام کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ کیا کھائیں کیا نہ کھائیں۔ نت نئی بیماریاں اور ہسپتالوں میں رش کی بڑی وجہ تو گندا پانی اور خوراک ہے۔ بیرونی ممالک میں تو لوگ اب گھروں میں سبزیاں پھل اگا رہے ہیں تاکہ خالص خوراک حاصل ہو۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کا قیام خوش آئند ہے لیکن ہمارے یہاں سرکاری اداروں کی صورتحال یہ ہے کہ سارا سٹرکچر 99 فیصد تک تباہ و برباد ہو چکا ہے کرپشن کا دور دورہ ہے۔ ان حالات میں کیسے یہ تصور کر لیا جائے کہ فوڈ اتھارٹی کو ایک دم کہاں سے ایسے فرشتہ نما ملازم مل جائینگے جو دباﺅ یا کرپشن کا شکار نہیں ہونگے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ وزیراعظم کےخلاف الزامات پر اعلیٰ عدلیہ میں اوپن کیس چل رہا ہے جبکہ ناقص اشیا تیار کرنے والے بڑے اداروں کا نام تک نہیں بتایا جاتا۔ اربوں کھربوں کا کاروبار کرنے والی کمپنیاں اتنی آسانی سے تو خود کو تبدیل کرنے پر تیار نہ ہونگی جبکہ ان کےلئے کسی افسر کو ٹرانسفر کرانا آسان ہوگا۔ ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی نورالامین مینگل نے پروگرام میں خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں فوڈ اور ڈرگ کنٹرول اتھارٹیز بہت مضبوط ہوتی ہیں۔ پاکستان میں اس طرز کا کوئی ادارہ قائم نہ کیا گیا جو کام 1947ءمیں ہونا چاہیے تھا یہاں اب ہو رہا ہے۔ پانچ دس سال مزید یہی خوراک بچوں کو ملتی رہی تو وطن عزیز کو پھر کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہ رہے گی۔ پنجاب میں 2011 میں فوڈ سکیورٹی ایکٹ پاس کیا گیا اس سے قبل صوبے میں صرف 18 فوڈ انسپکٹرز تھے جو مناسب تعلیم یافتہ تک نہ تھے۔ اب صوبے کی ہر تحصیل میں ایک فوڈ سیفٹی افسر، دو اسسٹنٹ سیفٹی افسر اور دیگر عملہ موجود ہے۔ صوبائی حکومت نے فوڈ اتھارٹی کو بھرپور پاورز دی ہے ادارہ کسی بھی فیکٹری، ریسٹورنٹ، پروڈکشن یونٹ وغیرہ کو سیل کر سکتا ہے۔ فوڈ اتھارٹی اب گروپ کی شکل میں کارروائی کرتی ہے جس کے باعث کرپشن کے امکانات بھی بہت کم ہوتے ہیں۔ فوج اور ایف سی کی طرز پر ایک ویجیلنس ڈائریکٹوریٹ بھی ہے جس کا کام غیرمعیاری اشیاءتیار کرنے والی فیکٹریوں یا جگہوں کا کھوج لگانا ہے دوسرا اس کا کام ہے کہ ادارے میں کرپشن کرنے والے ملازموں پر نظر رکھتا ہے۔ ادارے کے کسی ملازم کو ایک ٹاﺅن میں 6ماہ سے زیادہ نہیں رکھا جاتا، اڑھائی سال بعد دوسرے ضلع میں ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے۔ ڈی جی فوڈ نے کہا کہ کھلا دودھ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے دنیا میں کہیں بھی کھلا دودھ نہیں بکتا ہمارے ہاں 95 فیصد کھلا دودھ بکتا ہے۔ حکومت کو سفارش کی ہے کہ دو یا تین سال کا وقت دیا جائے پھر کھلا دودھ مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔ اس حوالے سے ضروری قانون سازی بھی کی جائے۔ 70 سال سے کسی نے فوڈ انڈسٹری کو چیک نہیں کیا۔ ہمارا اس پر اب پورا فوکس ہے۔ دودھ، گھی اور بچوں کے کھانے کی اشیاءخالص ہوں تو اس سے 90 فیصد بہتری آ جائے گی۔ انڈسٹری کو دو سے تین ماہ میں سیٹ کر دینگے۔ لیبارٹریاں ٹھیک کی جائیں گی اور مسلسل چیکنگ ہوگی۔ مصنوعی طور پر تیار کردہ دودھ انتہائی خطرناک ہے۔ اس حوالے سے سزا بہت کم ہے جو بڑھانے کی سفارش کی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت اب تک کوئی کمپنی ایسی سامنے نہیں آئی جس کو 10/10 نمبر دئیے جا سکیں۔ 60 فیصد ڈبہ پیک دودھ میں دودھ شامل ہی نہیں ہوتا یہ صرف سفید محلول ہوتا ہے جو چائے یا کافی کو سفید کرنے کےلئے استعمال ہوتاہے۔ یورپ میں یہ 1فیصد پاکستان میں 60 فیصد استعمال ہو رہا ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی دو سو ٹیمیں ہیں اپنا دائرہ کار پورے پنجاب تک بڑھا رہے ہیں۔ عشروں کے بگاڑ کو ٹھیک کرنے کےلئے تھوڑا وقت تو درکار ہوگا۔ دو سال تک سب ٹھیک کر دینگے۔ پورا یقین ہے کہ اگر پنجاب فوڈ اتھارٹی ٹھیک کام کرے تو آدھے ہسپتال خالی ہو جائیں گے۔ ملاوٹ شدہ اشیا تیار کرنے والے کو 14 سال قید کی سفارش اور اس کی جگہ ضبط کرنے کی سفارش کی ہے۔ نورالامین مینگل نے کہا کہ پہلے فوڈ لائسنس عام مل جاتا تھا لیکن اب اس کا حصول ایسا ہی ہے جیسے کسی نے اسلحہ لائسنس لینا ہو۔ کھانے پینے کی اشیاءتیار کرنے والوں کو اب لائسنس لازمی لینا ہوگا۔ اس کے بغیر کام کی اجازت نہیں ہوگی۔ کام کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ہم نوٹس دیتے ہیں پھر جرمانہ ہوتا ہے پھر سیل کر دیا جاتا ہے۔ پھر بھی باز نہ آئے تو دوبارہ جگہ سیل کر دیتے ہیں پھرخلاف ورزی کرے تو لائسنس کینسل کر دیا جاتا ہے۔ ایک ڈیری پراڈکٹ تیار کرنے والے کا لائسنس کینسل کیا تو وہ ہائیکورٹ چلے گئے عدالت نے ان کا دعویٰ مسترد کر دیا جو بڑا خوش آئند فیصلہ تھا۔ دنیا بھر میں اچار، مربہ، کیچپ، چائے ایسی اشیاءکہیں بھی کھلی نہیں بیچی جاتیں۔ ہمارا ٹارگٹ بھی یہی ہے۔ ہمارا ایک ذیلی ادارہ ہے جس کا کام یہ چیک کرنا ہے کہ اشیاءکہاں سے بن کر آ رہی ہیں۔ گوشت کے حوالے سے سنسنی زیادہ پھیلائی گئی ہے، ابھی تک کہیں بھی گدھے، کتے یا کسی اور جانور کا گوشت نہیں پکڑا گیا۔ ٹولنٹن مارکیٹ میں بیمار مرغیاں ذبح کر کے بیچ دیتے تھے وہاں کئی بار چھاپے مارے اور منوں کے حساب سے گوشت تلف کیا۔ اب وہ ٹھیک کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ادارے کی ویب سائٹ موجود ہے جہاں کوئی بھی شہری شکایت درج کرا سکتا ہے۔ پنجاب کے علاوہ صرف خیبرپختونخوا میں فوڈ اتھارٹی بنائی گئی ہے۔ سندھ اور بلوچستان کی حکومت کو بھی یہ ادارے بنانے چاہئیں۔ ڈی جی فوڈ نے کہا کہ پچھلے سال پانی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے 313 سیمپل لئے جن میں سے 50 کے رزلٹ آئے ان میں 27 کمپنیوں کا پانی ٹھیک نہیں تھا وہ سب بند کرا دی ہیں۔ ہمارے یہاں بچوں کے کھانے کی چیزیں بہت ہی ناقص ہیں ان پر ہماری خاص نظر ہے۔ ہماری ویب سائٹ پر فوڈ لائسنس کےلئے اپلائی کیا جا سکتا ہے۔ اب ہم ای لائسنس شروع کر رہے ہیں جو پانچ سال تک کےلئے ہوگا۔ ہمیں سیاسی، عدلیہ، سول سوسائٹی، میڈیا سب کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ہماری ایپ، فیس بک سائٹ بھی ہے جہاں شکایت درج کرائی جا سکتی ہے۔

ہندوستان اپنا ” میزائل بخار“ اتارے …. بھارت کو چین کی واننگ

کراچی (خصوصی رپورٹ) چینی میڈیا کا کہنا ہے کہ اگر بھارت نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری جاری رکھی تو چین بھی اس قسم کی ٹیکنالوجی کے حصول میں پاکستان کی معاونت کرے گا۔ چینی اخبار گلوبل ٹائمز نے بھارت کی جانب سے اگنی بیلسٹک میزائل تجربے کے بعد لکھے گئے اپنے اداریئے میں کہا ہے کہ بھارت ایٹمی میزائلوں کی تیاری میں اقوام متحدہ کی مقررہ حدود سے تجاوز کر رہا ہے‘ اسے یہ بخار ختم کرنا ہوگا۔ چین کو بھارتی میزائلوں سے کوئی خطرہ نہیں تاہم بھارت نے یہ سلسلہ جاری رکھا تو چین اپنے دیرینہ دوست پاکستان کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کی تیاری میں معاونت فراہم کرے گا۔ ”بھارت اپنے میزائل جنون کو کم کرے“ کے عنوان سے شائع ہونے والے چینی اخبار کے اداریئے میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان کو بھی جوہری ترقی میں وہ استحقاق حاصل ہونا چاہئے جو بھارت کو حاصل ہے۔
چینی اخبار

جواد احمدکے ویڈیو سانگ ” ہم ہیں جوان“پر مشتمل دستاویزی فلم ریلیز

لاہور(کلچرل رپورٹر)معروف گلوکارجواداحمدنے اپنا نیا ویڈیوسانگ ہم ہیںجواں اورنیولبرل ازم کے صنفی ناہمواری اورتعلیم کے موضوع پربنائی گئی دستاویزی فلم ر یلیزکردی ۔اس حوالے سے تقریب گزشتہ روزلاہورپریس کلب میں ہوئی جس میں ویڈیوڈائریکٹربلال اور دیگر افرادبھی موجود تھے ۔اس موقع پرخطاب کرتے ہوئے جواد احمد کاکہناتھاکہ پاکستان کامروجہ ٹیکس نظام پیچیدہ ،غیر منصفانہ اور صرف مالدارطبقے کے مفادات کاتحفظ کرتاہے جس کی وجہ سے معاشرہ طبقاتی تقسیم اورابتری کاشکارہوچکاہے ۔ٹیکسوں کایہ غیرمنصفانہ نظام غیرملکی قرضوں میں اضافے اوربڑھتی ہوئی غربت کاباعث ہے۔حکومت بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے مہنگائی کے ہاتھوں پسے ہوئے عوام پرٹیکس لگائے جاری ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں شفاف اورمنصفانہ ٹیکس کانظام متعارف کرایاجائے اورامیرطبقے کوٹیکس کے اداکرنے کےلئے قانون سازی کی جائے ۔جواداحمدکاکہناتھاکہ ٹیکس جسٹس کمپین پاکستان کے زیراہتمام سنٹرفارپیس اینڈڈویلپمنٹ انیشیٹواوررائزفا رکوالٹی کے اشتراک سے بنائی گئی ڈاکیومنٹری اورگیت نیولبرل ازم کے تحت حکمرانوں کی محنت کش عوام کے مفادات کے خلاف پالیسیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔گیت میں خصوصی طورپرنوجوانوں کومخاطب کرتے ہوئے ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کی امیدکااظہارکیاگیاہے جہاں تمام انسانوں کےلئے برابری اورمساوات پرمبنی مواقع اورسہولیات میسرہوں۔