حکومت اور دھرنا قیادت کے درمیان مذاکرات کا ایک دور ناکام

اسلام آباد(ویب ڈیسک) فیض آباد انٹرچینچ پر گزشتہ 15 روز سے جاری دھرنا ختم کرانے کے لئے حکومت اور دھرنا کمیٹی کے درمیان مذاکرات میں کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوسکی۔پنجاب ہاؤس میں ڈھائی گھنٹے تک بات چیت کا سلسلہ جاری رہا تاہم کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا اور دھرنا ختم کرنے کے معاملے پر اب بھی حکومت اور مظاہرین کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار ہے۔اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں ہونے والے مذاکرات میں حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر قانون زاہد حامد، مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما راجا ظفر الحق، وزیر قانون پنجاب راجا ثنااللہ، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ، چیف سیکریٹری پنجاب،آئی جی پنجاب اور کمشنر راولپنڈی بھی شریک تھے۔مذاکرات کے لئے دھرنا کمیٹی کے وفد میں اظہر حسین رضوی، شفیق امینی، پیر عنایت الحق شاہ اور وحید نور بھی پنجاب ہاؤس میں موجود تھے۔مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ’’ہم نے ایک ایک چیز کی وضاحت کردی ہے، حکومت کی کوشش ہے کہ بات چیت سے مسئلے کا حل نکلے، جو وضاحت ممکن تھی وہ کی گئی ہے، زاہد حامد نے آئین اور قانون کی روشنی میں وضاحت کی‘‘۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ عدالت کہہ چکی ہے کہ لوگوں کو تکلیف ہے راستہ کھول دیا جائے،عدالتی فیصلوں کا احترام کرنا پڑتا ہے، احتجاجی مظاہرین کے وکیل کی درخواست پرجسٹس شوکت عزیزصدیقی نےنوٹس لے لیا ہے، اس معاملے پر ایک راجہ ظفر الحق کمیٹی کام کررہی ہے اور دوسرا اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس چل رہاہے۔

نیب کا چونکا دینے والا اقدام ،نواز ،شہباز ،ڈار کے بعد مسلم لیگ ن کے اہم ترین وفاقی وزیر کیخلاف کاروائی شروع

لاہور (ویب ڈ یسک) نیب نے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کیخلاف بھی کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق نیب نے آشیانہ ہاوسنگ سکیم میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کیخلاف بھی تحقیقات کے آغاز کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نیب نے تحقیقات کے سلسلے میں خواجہ سعد رفیق کی ہاوسنگ سوسائٹی پیراگون کی انتظامیہ کو تفتیش کے سلسلے میں طلب کیا ہے۔خواجہ سعد رفیق پر الزام ہے کہ انہوں نے دوستوں کے نام پر قرضے حاصل کرکے بلیک منی کو وائٹ کیا۔ جبکہ پیراگون ہاوسنگ سوسائٹی کیلئے کئی دیہات کے غریبوں کی زمینوں پر غیر قانونی قبضے کروائے گئے۔ نیب نے اس تمام معاملے کی تحقیقات چئیرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی منظوری کے بعد شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

؎

اسلام آباد،تھانہ کھنہ میں خادم حسین رضوی اور دیگر تین نامزد افرادکیخلاف پولیس اہلکاروں کو مارنے پیٹنے اور اغواء کی کوشش کرنے کا مقدمہ درج

اسلام آباد(ویب ڈیسک)تھانہ کھنہ میں تحریک لبیک کے امیر خادم حسین رضوی اور دیگر تین نامزد افرادکے خلاف پولیس اہلکاروں کو مارنے پیٹنے اور اغواء کی کوشش کرنے کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق تھانہ کھنہ پولیس نے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں جاری دھرنے کے شرکاء کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کر لیا ہے ۔ جس میں تحریک لبیک کے امیر سمیت تین دیگر افرادکو نامزد کیا گیا ہے۔ مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ دھرنے کے شرکاء نے پولیس اہلکار کو مارا پیٹا جس سے وہ زخمی ہو گیا اور پولیس افسر ایس ایچ او تھانہ کورال کو اغواء کر نے کی کوشش کی ۔ تھانہ کھنہ میں پولیس افسر آئی پی الطاف کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

لال مسجد اور سانحہ ماڈل ٹاﺅن جیسا واقعہ ۔۔۔؟دھرنے بارے وزیر داخلہ کا اہم بیان

 اسلام آباد(ویب ڈیسک) وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ملک کے حالات کسی بھی قسم کے تشدد کی اجازت نہیں دیتے اور ملک میں خون خرابہ نہیں کرنا چاہیے تاہم سازشی چاہتے ہیں کہ ملک میں لال مسجد اور ماڈل ٹاؤن جیسا واقعہ ہو۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ عدالت کو اپنی کوشش سے آگاہ کیا اور کہا کہ ہمیں کچھ موقع دیاجائے جب کہ شہر کے علما و مشائخ نے بھی دھرنا ختم کرانے میں اپنا کردارادا کیا ہے، ہماری خواہش ہے کہ دھرنا پرامن طور پر ختم ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کی کوشش کر رہے ہیں تاہم اطلاعات ہیں کہ دھرنے میں موجود کچھ عناصر انتشار چاہتے ہیں۔وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ختم نبوت کا قانون پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکا ہے، قانون کو قیامت تک کے لیے مضبوط بنادیا ہے لہذا ختم نبوت پر کسی سمجھوتے کا تاثر دیناغلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے کا فائدہ ملک دشمن اٹھانا چاہتے ہیں، دھرنے والے ختم نبوت کی خدمت نہیں بلکہ ملک دشمنوں کو خوش کررہے ہیں جب کہ مظاہرین نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، ملک کے حالات کسی بھی قسم کے تشدد کی اجازت نہیں دیتے، ملک میں خون خرابہ نہیں کرنا چاہیے جب کہ سازشی چاہتے ہیں کہ ملک میں لال مسجد اور ماڈل ٹاؤن جیسا واقعہ ہو۔احسن اقبال کا کہنا تھا کہ میں ذمہ داری لیتا ہوں انتظامیہ میری کمانڈ میں کام کر رہی ہے، عدالت نے ہمیں جمعرات تک کا وقت دیا ہے تاہم اگلے 24 سے 48 گھنٹے میں دھرنا ختم کرانے کا پرامن حل تلاش کرلیں گے جب کہ عدالت کو بتایاہے کہ آئندہ اسلام آباد میں کسی کو دھرنانہیں کرنے دیاجائےگا۔

نواز ،شہباز شریف کیخلاف سلطانی گواہ ،چونکا دینے والی خبر

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشیدنے کہاہے کہ ایبٹ آبادمیں نوازشریف نے پاکستان کے سب سے چھوٹے گراؤنڈمیں جلسہ کیا، میں جلسے میں موجودہوتاتونوازشریف کوکہتاچل جھوٹا،نوازشریف اس ملک کی فوج کوتباہ کرناچاہتے ہیں ،نوازشریف جنرل قمرجاویدباجوہ کامتبادل ڈھونڈرہے تھے ،ملک کی سیاسی صورتحال20دسمبرتک واضح ہوجائیگی ،مارچ میں موجودہ حکومت کی مارچ ہوجائے گی۔اتوارکے روزنجی ٹی وی کوانٹرویودیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ نوازشریف بھول گئے ہیں کہ انہیں کیوں نکالاگیا،نوازشریف بھول گئے کہ وہ دس سال کامعاہدہ کرکے بیرون ملک فرارہوگئے تھے ،پھربھی وہ کہتے ہیں میں ڈرنے والانہیں ہوں ،شیخ رشیدنے کہاکہ نوازشریف کی حالت قابلرحم ہے ،کچھ دنوں بعدنوازشریف کوعوام پتھرمارنانہ شروع کردیں ،نوازشریف یہ تاثردینے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ،نوازشریف عوام کویہ نہیں بتارہے کہ ان کے خلاف سپریم کورٹ سے نظرثانی اپیل کافیصلہ کیاآیاہے ،نوازشریف ایبٹ آبادکے سب سے چھوٹے گراؤنڈمیں جلسہ کیا، اگرمیں ایبٹ آبادمیں ہوتاتوزورسے کہتاچل جھوٹا،نوا ز شریف نے جونیجوسے کواتارجونوازشریف کے محسن تھے ۔انہوں نے کہاکہ شریف خاندان کوجسٹس عبدالقیوم جیساجج چاہئے ،نوازشریف کسی فوجی جرنیل کوہتھکڑی لگواناچاہتے ہیں ،موجودہ آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ کونوازشریف نے خودآرمی چیف بنایا،نوازشریف بعدمیں قمرجاویدباجوہ کوہٹاناچاہتے تھے ،نوازشریف کی آج تک کسی جرنیل سے نہیں بنی ،نوازشریف کوئی جرنیل بٹ ڈھونڈرہے ہیں ،نوازشریف کاایجنڈااس ملک کی فوج کوتباہ کرناہے ۔انہوں نے کہاکہ جب 1999ء میں مارشل لاء لگاتوقدرت کی طرف سے مجھے پہلے ہی ارشاہ مل گیاتھامیں نے چھ دن پہلے ہی اپناسامان پیک کرلیاتھا،نوازشریف کواس وجہ سے مجھ پرشک ہواکہ مجھے کیسے پہلے پتہ چل گیا۔نوازشریف ووٹ کے تقدس کی بات کررہے ہیں ،عمران خان چارسال تک چارحلقوں کی بات کرتے رہے لیکن ان کی نہیں سنی گئی ،خواجہ سعدرفیق آج بھی سٹے آرڈرپرہیں ۔جب انصاف ختم ہوجاتاہے توملک تباہ ہوجاتاہے ۔انہوں نے کہاکہ نوازشریف لوگوں کوخریدنے کافن خوب جانتے ہیں ،سی پیک منصوبے کے اصل فیصلے دبئی میں ہوئے تھے ،ادھرصرف دیکھاواہوتاہے ۔انہوں نے کہاکہ اگرپی پی پی اورایم کیوایم حلقہ بندیوں کے لئے ترمیم کیلئے ووٹ نہ دیتی توحکومت کے پاس 228ارکان نہ ہوتے اوربل نہ پاس ہوتا،بل پاس ہونے کے دن ن لیگ کے صرف68ارکان موجودتھے ،ملکی معیشت دم توڑرہی ہے ،حکومت کے پاس قرضے کی قسط دینے کیلئے پیس نہیں ہیں ۔آرمی چیف اوروزیراعظم سعودی عرب جارہے ہیں ،پیسے لینے کیلئے ۔انہوں نے کہاکہ 20دسمبرتک نوازشریف کے خلاف سب کیسزکے فیصلے آجائیں گے ،مارچ میں موجودہ حکومت کک مارچ ہوجائے گی ،ماڈل ٹاؤن کافیصلہ بھی جلدآجائے گا،ماڈل ٹاؤن کافیصلہ آنے کے بعدجن پولیس اہلکاروں کوشہبازشریف نے باہربھیج دیاتھاوہ سلطانی گواہ بن جائیں گے ۔اسحاق ڈاربھی سلطانی گواہ بن جائیں گے ،اگراسحاق ڈارملک واپس آئے توحدیبیہ کیس میں وہ اپناپرانابیان واپس دیں گے ۔انہوں نے کہاکہ بیس دسمبرتک ملک کی صورتحال واضح ہوجائے گی ۔اب مارشل لاء لگانے والی فوج نہیں رہی ،مشرف دورکے چالیس سے ساٹھ ممبران اسمبلی اگلی حکومت میں بھی شامل ہوں گے ،یہ ممبران پی پی پی کے ساتھ بھی موجودرہے اوراب ن لیگ کے ساتھ موجودہیں ۔انہوں نے کہاکہ ختم نبوت کامسئلہ خودپیداکیاگیا،یہ سازش تھی ،فیض آبادمیں بیٹھے لوگ اس بات پرسچے ہیں کہ دھرنے والوں کوایمبولینس اورلوگوں کاخیال رکھناچاہئے ،ختم نبوت قانون کے لئے بڑے برے مولویوں نے سینٹ میں ووٹ دیا،میں نے ختم نبوت قانون میں غلطی کی نشاندہی کی ،سیون اے اورسیون بی میں نے شامل کرایا۔شیخ رشیدنے کہاکہ ڈیرہ اسماعیل خان واقعے کے حوالے سے مجھے خاص علم نہیں ہے ،لوگ آج اپنی مرغی کوخودگولی مارکرالزام دوسرے پرلگادیتے ہیں ،عمران خان کبھی ناانصافی کاساتھ نہیں دیں گ

’’آزاد بلوچستان‘‘ ۔۔۔گھناؤنی بین الاقوامی سازش اہم ملک کا مرکزی کردار، رونگٹے کھڑے کر دینے والامنصوبہ، عالم اسلام کی تباہی کی باز گشت

لاہور(توصیف احمد خان)حال ہی میں سوئیزرلینڈ، امریکہ اور انگلینڈ میں گاڑیوں اور سڑکوں پر لگائے گے نام نہاد ”آزاد بلوچستان “ کے پوسٹر اور بینرز ایسا معاملہنہیں جسے آسانی سے نظرانداز کردیاجائے، اسے محض بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کا کام بھی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پاکستان کے خلاف ایک منظم سازش کا حصہ ہے جس میں ان بلوچ عناصر کو استعمال کیا گیا ہے جبکہ وہ خود بھی استعمال ہونے کیلئے تیار ہیں، اس معاملے کا گہری نظر سے جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پس پردہ کچھ عالمی طاقتیں بھی ہیں جن کا مقصد اسرائیل کو پورے خطے میں تسلط دلاناہے ، اسکے لئے جو منصوبے بنائے گئے ہیں آزاد بلوچستان کے نعرے کا اسی سے تعلق ہے، گذشتہ کچھ عرصہ سے اس بارے میں باقاعدہ فضا ہموار کی جارہی ہے ، عراق ، شام ، یمن ، لیبیا اور دیگر ممالک کا بحران اس سلسلے کی کڑی ہے ، ان منصوبوں میں طے کیاگیا ہے کہ پورے مشرق وسطیٰ کو ایسے چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کردیاجائے جو آپس میں لڑ تے رہیں اور اسرائیل کی تابعداری کریں، گذشتہ چند برسوں سے مغربی میڈیا میں ان منصوبوں کی بازگشت اکثر سننے میں آتی رہی ہے، گلوبل ریسرچ کی ایک رپورٹ میں مشرق وسطیٰ کی سرحدوں کی ازسرنو تشکیل کی تفصیل دی گئی ہے ، کہا گیا ہے کہ یہ ایک نئے مشرق وسطیٰ کا پراجیکٹ ہے، ایک سابق امریکی یہودی کرنل رالف پیٹر کی کتاب میں بھی ”خونیں سرحدیں “ کے عنوان سے ایک مضمون شامل ہے جس میں نئے مشرق وسطیٰ کا ایک نقشہ دیاگیا ہے، جو سراسر عالم اسلام کی تباہی و بربادی کا منصوبہ ہے، منصوبے میں عرب ممالک کے علاوہ پاکستان ، ایران ، افغانستان اور ترکی کو بھی شامل کیا گیا ہے ، اس کا دعویٰ ہے کہ ملکوں کی سرحدیں کبھی جامد نہیں رہیں، ان میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے ، اسی یہودی نے پاکستان اور سعودی عرب کو غیر حقیقی مملکتیں قرار دیا ہے، 29ستمبر 2013کے نیویارک ٹائمز کے سنڈے ریویو میں رابن رائٹ کا ایک تجزیہ ہے جس میں سعودی عرب، شام ، لیبیا ، یمن اور عراق کو 14ممالک میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے ، جو فرقہ ورانہ بنیادوں پر قائم ہونگے، شیعہ اور سنی کے علاوہ کردوں کو بھی ان میں حصہ دار بنانے کا ذکر ہے ، سعودی عرب اور پاکستان کو غیر حقیقی ممالک قرار دیتے ہوئے انکی بڑے پیمانے پر ٹوٹ پھوٹ کا ذکر ہے ، یہ تمام فریق اپنی شرانگیزی میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ انہوں نے اسلام کے مقدس ترین مقامات یعنی مکہ اور مدینہ کے بارے میں بھی ایک منصوبہ تیار کیا ہے ، منصوبہ یہ ہے کہ ان دونوں شہروں کے نظم و نسق کیلئے ایک کونسل بنادی جائے جس میں تمام مسلم ممالک اور تحریکوں کو نمائندگی حاصل ہو اور سب کو باری باری اختیارات حاصل ہوں، اس کونسل کی حیثیت ویٹی کن کی سی ہوگی جہاں اسلام کے مستقبل کے بارے میں بحث و مباحثہ بھی کیا جائےگا، موجودہ سعودی مملکت کو ریاض اور اردگرد کے علاقوں تک محدود کردیاگیاہے۔ ان منصوبوں کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں بھی شرانگیزی کی گئی ہے ، ان قوتوں نے طے کیا ہے کہ سابقہ صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختونخوا کو افغانستان کے حوالے کردیا جائے، شمال مغربی سرحدی قبائل افغانستان کے ساتھ مل جائیں گے، منصوبے میں بلوچستان کو ایک آزاد ریاست کے طور پر دکھایاگیا ہے ، مغربی ممالک میں آزاد بلوچستان کے حوالے سے چلائی جانے والی مہم بھی اسی منصوبے کا حصہ معلوم ہوتی ہے، ہم پاکستان کے بعض لیڈروں کے بیانات پر غور کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا منصوبے سے گہرا تعلق ہے ، اس سلسلہ میں بلوچ لیڈر محمود خان اچکزئی اور سرحدی گاندھی غفار خان کے پوتے اسفند یار ولی کے بیانات خاص طور پر قابل غور ہیں، محمود اچکزئی نے کچھ عرصہ پہلے بیان دیاتھا کہ کوئی مائی کالال افغان مہاجرین کو کے پی کے سے نہیں نکال سکتا کیونکہ یہ انکا بھی علاقہ ہے ، اس بیان سے تاثر ملتا ہے کہ مسٹر اچکزئی نہ صرف منصوبے سے پوری طرح آگاہ ہیں بلکہ اس پر عملدرآمد کی ابتداءبھی کی جارہی ہے ، اسی طرح اسفندیارولی بھی خود کو افغانی قرار دیتے ہیں، اور اپنے آپ کو افغانستان کا حصہ سمجھتے ہیں ، ایسی ہی صورتحال انکے والد ولی خان اور دادا غفار خان کے حوالے سے تھی، منصوبے سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ آزاد بلوچستان کی حالیہ مہم گہری بین الاقوامی سازش ہے جس میں اسرائیل کا کردار اہم ہے۔ مذکورہ مہم اس منصوبے پر عملدرآمد کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔ منصوبے میں پاکستان کا وجود بہت مختصر سے علاقے پر مشتمل دکھایاگیا ہے۔ یہ علاقہ دریائے سندھ کا مشرقی حصہ ہے جو پنجاب اور سندھ کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے۔ تاہم اس میں مغربی کنارے سے کراچی کو بھی شامل کیا گیا ہے منصوبہ سازوں نے قرار دیا ہے کہ اس کے بعد پاکستان فطری ریاست بن سکے گا۔ پاکستان اور دیگر ممالک کے حوالے سے کرنل پیٹرر الف نے جو نقشہ تیار کیا ہے وہ جون 2006ءمیں امریکہ کے ”آرمڈ فورسز جرنل“ میں شائع ہو چکا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اگریہ سرکاری دستاویز نہیں لیکن اسے سینئر فوجی افسروں کیلئے ناٹو کے ڈیفنس کالج میں تربیتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ ان نقشوں میں سے ایک ہے جن میں مشرق وسطیٰ کے ممالک کی سرحدوں کو پہلی جنگ عظیم والی پوزیشن پر دکھایا گیا ہے جب امریکہ میں ووڈرو ولسن صدر تھے۔ ان نقشوں کو نیشنل وار اکیڈمی اور فوجی منصوبہ بندی میں استعمال کیے جانے کا بھی امکان ہے۔ منصوبہ سازوں کا خیال ہے کہ اس پر عملدرآمد کی صورت میں مشرق وسطیٰ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔اس قسم کے نقشے پر اسلامی ممالک میں صرف ترکی نے احتجاج کیا تھا۔ 15 ستمبر 2006ءمیں ترکی کی طرف سے جو پریس ریلیز جاری کیا گیا اس میں نقشے پر بہت برہمی کا اظہار کیا گیا ، جو ناٹو کے روم (اٹلی) میں ملٹری کالج میں آویزاں تھا۔ نقشے میں ترکی کے حصے بخرے کرنے کا بھی ذکر ہے جسے دیکھ کر ترکی فوجی افسر غصے میں آ گئے۔ بتایا گیا ہے کہ ناٹو کالج میں آویزاں کرنے سے پہلے نقشے کو کسی نہ کسی حد تک امریکی نیشنل وار اکیڈمی کی منظوری بھی حاصل تھی۔ اس وقت کے ترک چیف آف سٹاف نے امریکی چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف سے رابطہ کیا اور ان سے نقشے کے بارے میں احتجاج کیا۔ تاہم امریکی حکام نے یقین دلایا کہ یہ نقشہ علاقے میں امریکی پالیسی کی عکاسی نہیں کرتا ، یہ وضاحت افغانستان میں ناٹو کی فوج کے اقدامات کے بالکل برعکس ہے۔اگرچہ ”ٹرانسپورٹ فار لندن “ نے آزاد بلوچستان کی اشتہاری مہم پر پاکستان سے معذرت کرلی ہے مگر یہ ایسا معاملہ نہیں جسے محض ایک معذرت سے ٹالا جاسکتا ہو، یہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہوتا ہے جس پر پاکستان کے عوام اور حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔لاہور(توصیف احمد خان)حال ہی میں سوئیزرلینڈ، امریکہ اور انگلینڈ میں گاڑیوں اور سڑکوں پر لگائے گے نام نہاد ”آزاد بلوچستان “ کے پوسٹر اور بینرز ایسا معاملہنہیں جسے آسانی سے نظرانداز کردیاجائے، اسے محض بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کا کام بھی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پاکستان کے خلاف ایک منظم سازش کا حصہ ہے جس میں ان بلوچ عناصر کو استعمال کیا گیا ہے جبکہ وہ خود بھی استعمال ہونے کیلئے تیار ہیں، اس معاملے کا گہری نظر سے جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پس پردہ کچھ عالمی طاقتیں بھی ہیں جن کا مقصد اسرائیل کو پورے خطے میں تسلط دلاناہے ، اسکے لئے جو منصوبے بنائے گئے ہیں آزاد بلوچستان کے نعرے کا اسی سے تعلق ہے، گذشتہ کچھ عرصہ سے اس بارے میں باقاعدہ فضا ہموار کی جارہی ہے ، عراق ، شام ، یمن ، لیبیا اور دیگر ممالک کا بحران اس سلسلے کی کڑی ہے ، ان منصوبوں میں طے کیاگیا ہے کہ پورے مشرق وسطیٰ کو ایسے چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کردیاجائے جو آپس میں لڑ تے رہیں اور اسرائیل کی تابعداری کریں، گذشتہ چند برسوں سے مغربی میڈیا میں ان منصوبوں کی بازگشت اکثر سننے میں آتی رہی ہے، گلوبل ریسرچ کی ایک رپورٹ میں مشرق وسطیٰ کی سرحدوں کی ازسرنو تشکیل کی تفصیل دی گئی ہے ، کہا گیا ہے کہ یہ ایک نئے مشرق وسطیٰ کا پراجیکٹ ہے، ایک سابق امریکی یہودی کرنل رالف پیٹر کی کتاب میں بھی ”خونیں سرحدیں “ کے عنوان سے ایک مضمون شامل ہے جس میں نئے مشرق وسطیٰ کا ایک نقشہ دیاگیا ہے، جو سراسر عالم اسلام کی تباہی و بربادی کا منصوبہ ہے، منصوبے میں عرب ممالک کے علاوہ پاکستان ، ایران ، افغانستان اور ترکی کو بھی شامل کیا گیا ہے ، اس کا دعویٰ ہے کہ ملکوں کی سرحدیں کبھی جامد نہیں رہیں، ان میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے ، اسی یہودی نے پاکستان اور سعودی عرب کو غیر حقیقی مملکتیں قرار دیا ہے، 29ستمبر 2013کے نیویارک ٹائمز کے سنڈے ریویو میں رابن رائٹ کا ایک تجزیہ ہے جس میں سعودی عرب، شام ، لیبیا ، یمن اور عراق کو 14ممالک میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے ، جو فرقہ ورانہ بنیادوں پر قائم ہونگے، شیعہ اور سنی کے علاوہ کردوں کو بھی ان میں حصہ دار بنانے کا ذکر ہے ، سعودی عرب اور پاکستان کو غیر حقیقی ممالک قرار دیتے ہوئے انکی بڑے پیمانے پر ٹوٹ پھوٹ کا ذکر ہے ، یہ تمام فریق اپنی شرانگیزی میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ انہوں نے اسلام کے مقدس ترین مقامات یعنی مکہ اور مدینہ کے بارے میں بھی ایک منصوبہ تیار کیا ہے ، منصوبہ یہ ہے کہ ان دونوں شہروں کے نظم و نسق کیلئے ایک کونسل بنادی جائے جس میں تمام مسلم ممالک اور تحریکوں کو نمائندگی حاصل ہو اور سب کو باری باری اختیارات حاصل ہوں، اس کونسل کی حیثیت ویٹی کن کی سی ہوگی جہاں اسلام کے مستقبل کے بارے میں بحث و مباحثہ بھی کیا جائےگا، موجودہ سعودی مملکت کو ریاض اور اردگرد کے علاقوں تک محدود کردیاگیاہے۔ ان منصوبوں کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں بھی شرانگیزی کی گئی ہے ، ان قوتوں نے طے کیا ہے کہ سابقہ صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختونخوا کو افغانستان کے حوالے کردیا جائے، شمال مغربی سرحدی قبائل افغانستان کے ساتھ مل جائیں گے، منصوبے میں بلوچستان کو ایک آزاد ریاست کے طور پر دکھایاگیا ہے ، مغربی ممالک میں آزاد بلوچستان کے حوالے سے چلائی جانے والی مہم بھی اسی منصوبے کا حصہ معلوم ہوتی ہے، ہم پاکستان کے بعض لیڈروں کے بیانات پر غور کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا منصوبے سے گہرا تعلق ہے ، اس سلسلہ میں بلوچ لیڈر محمود خان اچکزئی اور سرحدی گاندھی غفار خان کے پوتے اسفند یار ولی کے بیانات خاص طور پر قابل غور ہیں، محمود اچکزئی نے کچھ عرصہ پہلے بیان دیاتھا کہ کوئی مائی کالال افغان مہاجرین کو کے پی کے سے نہیں نکال سکتا کیونکہ یہ انکا بھی علاقہ ہے ، اس بیان سے تاثر ملتا ہے کہ مسٹر اچکزئی نہ صرف منصوبے سے پوری طرح آگاہ ہیں بلکہ اس پر عملدرآمد کی ابتداءبھی کی جارہی ہے ، اسی طرح اسفندیارولی بھی خود کو افغانی قرار دیتے ہیں، اور اپنے آپ کو افغانستان کا حصہ سمجھتے ہیں ، ایسی ہی صورتحال انکے والد ولی خان اور دادا غفار خان کے حوالے سے تھی، منصوبے سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ آزاد بلوچستان کی حالیہ مہم گہری بین الاقوامی سازش ہے جس میں اسرائیل کا کردار اہم ہے۔ مذکورہ مہم اس منصوبے پر عملدرآمد کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔ منصوبے میں پاکستان کا وجود بہت مختصر سے علاقے پر مشتمل دکھایاگیا ہے۔ یہ علاقہ دریائے سندھ کا مشرقی حصہ ہے جو پنجاب اور سندھ کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے۔ تاہم اس میں مغربی کنارے سے کراچی کو بھی شامل کیا گیا ہے منصوبہ سازوں نے قرار دیا ہے کہ اس کے بعد پاکستان فطری ریاست بن سکے گا۔ پاکستان اور دیگر ممالک کے حوالے سے کرنل پیٹرر الف نے جو نقشہ تیار کیا ہے وہ جون 2006ءمیں امریکہ کے ”آرمڈ فورسز جرنل“ میں شائع ہو چکا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اگریہ سرکاری دستاویز نہیں لیکن اسے سینئر فوجی افسروں کیلئے ناٹو کے ڈیفنس کالج میں تربیتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ ان نقشوں میں سے ایک ہے جن میں مشرق وسطیٰ کے ممالک کی سرحدوں کو پہلی جنگ عظیم والی پوزیشن پر دکھایا گیا ہے جب امریکہ میں ووڈرو ولسن صدر تھے۔ ان نقشوں کو نیشنل وار اکیڈمی اور فوجی منصوبہ بندی میں استعمال کیے جانے کا بھی امکان ہے۔ منصوبہ سازوں کا خیال ہے کہ اس پر عملدرآمد کی صورت میں مشرق وسطیٰ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔اس قسم کے نقشے پر اسلامی ممالک میں صرف ترکی نے احتجاج کیا تھا۔ 15 ستمبر 2006ءمیں ترکی کی طرف سے جو پریس ریلیز جاری کیا گیا اس میں نقشے پر بہت برہمی کا اظہار کیا گیا ، جو ناٹو کے روم (اٹلی) میں ملٹری کالج میں آویزاں تھا۔ نقشے میں ترکی کے حصے بخرے کرنے کا بھی ذکر ہے جسے دیکھ کر ترکی فوجی افسر غصے میں آ گئے۔ بتایا گیا ہے کہ ناٹو کالج میں آویزاں کرنے سے پہلے نقشے کو کسی نہ کسی حد تک امریکی نیشنل وار اکیڈمی کی منظوری بھی حاصل تھی۔ اس وقت کے ترک چیف آف سٹاف نے امریکی چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف سے رابطہ کیا اور ان سے نقشے کے بارے میں احتجاج کیا۔ تاہم امریکی حکام نے یقین دلایا کہ یہ نقشہ علاقے میں امریکی پالیسی کی عکاسی نہیں کرتا ، یہ وضاحت افغانستان میں ناٹو کی فوج کے اقدامات کے بالکل برعکس ہے۔اگرچہ ”ٹرانسپورٹ فار لندن “ نے آزاد بلوچستان کی اشتہاری مہم پر پاکستان سے معذرت کرلی ہے مگر یہ ایسا معاملہ نہیں جسے محض ایک معذرت سے ٹالا جاسکتا ہو، یہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہوتا ہے جس پر پاکستان کے عوام اور حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

کوکا کولا نے فوڈ میلہ بغیر اجازت کنسرٹ میں بدل دیا، شہری عذاب میں مبتلا

لاہور (کرائم رپورٹر)کوک انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کی نا اہلی ،مقامی ہوٹل میں منعقد کیا جانے والا فوڈ فیسٹیول شہریوں کےلیے وبال جان بن گیا ،فیسٹیول کے موقع پر سٹی ٹریفک پولیس کے 3لفٹر اور درجنوں اہلکار ٹریفک کنٹرول کر نے میں بری طرح ناکام ،شالیمار، باغبانپورہ اور مغلپورہ کے علاقے لاہور سے کٹ کر رہ گئے، بدترین ٹریفک جام سے شہری بدحال ، ایمبولینسیں اور دیگر امدادی گاڑیاں بھی ٹریفک جام میں پھنسی رہیں۔بتایا گیا ہے کہ گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں کوک فوڈفیسٹیول کا انعقاد کیا گیا جس میں موسیقی سمیت مختلف اسٹالز وغیرہ لگا ئے گئے تھے ۔ اتوار کے روز چھٹی ہونے کی وجہ سے کوک فوڈفیسٹیول میں شہریوں کی بڑی تعداد کی آمد پرکوک فوڈ فیسٹیول منعقد کروانے والی انتظامیہ کی جانب سے ناقص انتظامات کی بناءپر ہوٹل کے باہر رانگ پارکنگ اور ٹریفک کے درہم برہم نظام کے باعث گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگ گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے بدترین ٹریفک جام ہو گیا ۔ اس موقع پر لاہور ٹریفک پولیس کی جانب سے بھی ناقص حکمت عملی اور غیر سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے اس بے ہنگم رانگ پارکنگ کے باعث جام ہونے والی ٹریفک کو بحال نہ کیا جاسکا جبکہ اس موقع پر ٹریفک پولیس کے 3لفٹر موقع پر موجود تھے جن کی ڈیوٹی میں شامل تھا کہ سڑک پر رانگ پارک ہونےوالی گاڑیوں کو اٹھا کر سائیڈ پر کریں تاکہ ٹریفک کی روانگی متاثر نہ ہو لیکن ٹریفک وارڈنز کی جانب سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر تے ہوئے خوش گپیوں کو ترجیح دی گئی جس کے باعث ٹریفک کا نظام تباہ ہو گیا اور مغلپورہ ، شالیمار اور باغپانپورہ کے علاقے لاہور سے کٹ کر رہے گئے ۔ اس موقع پر گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگ گئیں اور شہری کئی گھنٹوں تک بدترین ٹریفک جام میں اذیت سے دوچار ہوتے رہے ۔ ٹریفک جام میں متعدد ایمبولینسیں اور پولیس سمیت دیگر امدادی گاڑیاں بھی پھنس گئیں جس سے امدادی کاروائیوں میں بھی شدید خلل پڑا ۔

 

لندن میں شریف فیملی کا مہنگا ترین شاپنگ پلازہ، منی لانڈرنگ کیسے ہوئی؟ خبریں انوسٹی گیشن ٹیم کے انکشافات

لندن (وجاہت علی خان سے) ”حدیبیہ پیپر ملز“ کا 17 سالہ پرانا مقدمہ کھلنے کے بعد لندن کی قاضی فیملی ایک دفعہ پھر اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ خبریں انویسٹی گیشن کے مطابق انکشاف ہوا ہے کہ قاضی فیملی شریف فیملی اور اسحاق ڈار کے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا یہ وہی قاضی فیملی ہے جس کا الزام ہے کہ اسحاق ڈار نے دھوکہ دہی سے ان کے پاسپورٹ کی فوٹو کاپیز پر لاہور میں غیرملکی بینکوں میں ان کے نام پر اکاﺅنٹس کھلوائے اور بینکوں سے بڑی رقم کے قرض حاصل کر کے ملٹی ملینز پاﺅنڈز کی منی لانڈرنگ کی جس سے لندن میں مے فیئرز کے فلیٹس دے کر جائیدادیں خریدنے کے علاوہ ہمارے انہی اکاﺅنٹس پر حدیبیہ پیپر ملز بھیجے بھاری رقوم حاصل کی اور پھر اسی آفر میں منی لانڈرنگ بھی کی۔ معلوم ہوا ہے کہ قاضی فیملی پر بظاہر تو یہی کلیم کرتی ہے لیکن حقائق یہ ہیں کہ 20 سال پہلے درمیانے درجے کی مالی حیثیت کھنے والا ادارہ قاضی فیملی آج خود ملٹی ملینز ہو چکی ہے اور انکے صرف لندن میں ہی تین ایسے بڑے سٹور میں جہاں ڈیزائنر جینز اور دیگر ریڈی میڈ کے فروخت ہوتے ہیں حیران کن حد تک 90 کی دہائی کے آخر میں UTTER NUTTER کے نام سے ایک چھوٹی سی دکان نے مہنگے ترین ڈیزائنر سٹور کی برانچز تک کا سفر بڑی تیزی سے طے کیا اور یہ سفر اسحاق ڈار کی طرف سے اس فیملی کے جعلی اکاﺅنٹس کھلوانے کے بعد شروع ہوا۔ اطلاعات کے مطابق مذکورہ دونوں خاندانوں کے مابین کوئی خلیج نہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ سالوں میں قاضی فیملی کے پاکستان کے کی وی آئی پیز دوسرے بھی ریکارڈ ہیں اور لندن میں بھی اسحاق ڈار اور شریف فیملی نے ان کی ہر طرح سے لک آفٹر کی آج بھی ان کے باہمی روابط موجود ہیں انہیں لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ اور دیگر جگہوں سے اکٹھابھی دیکھا گیا ہے۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ اتفاق یہ بھی ہے کہ مشرقی لندن کے علاقہ الفورڈ میں واقع مہنگی ترین کثیر المنزلہ عمارت کے شاپنگ مال میں بھی قاضی فیملی کا ایک بڑا سٹور موجود ہے عمارت مبینہ طور پر شریف فیملی کی ملکیت ہے۔ خبریں کو اس بات کے شواہد بھی ملے ہیں کہ قاضی فیملی 1997-98 میں اس وقت منظر عام پر آئی جب لندن میں سکارٹ لینڈ یارڈ پولیس کا اپنا ایک آفیسر سارجنٹ پاول منشیات کے الزام میں پکڑا گیا اور اس کے بیگ سے قاضی فیملی کے انہی پاسپورٹس کی فوٹو کاپیز برآمد ہوئیںجو اس فیمی کے مطابق انہوں نے اسحاق ڈار کو اس لیے دی تھیں کہ وہ ان کے شناختی کارڈ بنوادے تاکہ انہیں پاکستان جا کر آسانی رہے لیکن اسحاق ڈار نے انکے ساتھ ریپ کیا اور یہیں سے ہماری زندگیاں تبدیل ہو گئیں۔ کاشف قاضی کے مطابق 1992ءمیں ہمیں امریکن بینک لاہور سے پہلی بینک سٹیمنٹ موصول ہوئی تو ہم حیران رہ گئے ہم نے اسحاق ڈار سے پوچھا تو انہوں نے کہا پریشان مت ہوں یہ غیرقانونی نہیں بس تھوڑے پیسے بنانے کاذریعہ ہے لیکن بعدازاں ہمیں علم ہوا کہ لاہور میں سٹی بینک الفیصل بینک لمیٹڈ اطلس بوٹ انویسٹمنٹ بینک لمیٹڈ اور بینک آف امریکہ سے ہمارے نام پر اربوں روپے رقوم حاصل کی گئیں اور بینکوں کو تاثر دیا گیا کہ یہ قوم حدیبیہ پیپرز پرائیویٹ لمیٹڈ جنرل بورڈ ملز لمیٹڈ چودھری شوگر ملز لمیڈ اور لندن کے مے فیئرز فلیٹس کے بطور قرض لی گئی ہیں۔ کاشف قاضی کے مطابق جلد ہی مذکورہ بینکوں کی طرف سے ہمیں تواتر کے ساتھ ڈیمانڈ لیٹر آنا شروع ہو گئے کہ ہ گئے گئے قرضوں کی اقساط ادا کریں کیونکہ 440 ملین پونڈ سے زیادہ کی رقم میری والدہ سکندرا ان کی بہو نزہت گوہر اور ہمارے دیگر فیملی ممبرز کے نام پر حاصل کی گئی تھیں یہی وہ بیان تھا جو قاضی فیملی نے پولیس کی اس تفتیش کے دوران دیا کہ ان کی فمیلی کے پاسپورٹس کی فوٹو کاپیز سارجنٹ پاول کے بیگ سے کیسے برآمد ہوئیں؟ منشیات کے اس کیس شائستہ خان اور خامیتا خان گرفتار ہوئے اور یہ انہوں نے اعتراف جرم بھی کیا۔ اس کیس میں شریف فیملی کے چند انتہائی قریبی لوگوں کے نام بھی آئے ان میں سے سے ایک شخص ابھی تک امریکہ کو بھی مطلوب ہے انہی دنوں کاشف قاضی نے میڈیا کو جو بیانات دیئے وہ بھی ریکارڈکا حصہ ہیں انہوں نے بتایا کہ اسحٰق ڈار1960ءکی دہائی میں ہمارے ایک مشترکہ دوست کے توسط سے مزید تعلیم کیلئے لندن آئے، میرے والد مسعود قاضی نے ہی انہیں سپانسر کیاتھا انہوں نے ہم چاروں بھائیوں کے ساتھ اسحٰق ڈار کو چھوٹا بیٹا بنا کر رکھا، وہ سات سال تک ہماے ساتھ رہا اور1974ءمیں واپس پاکستان چلا گیا، لیکن وہ جب بھی لندن آتا ہمارے ساتھ ہی رہتا تھا لکین اس نے ہمارے ساتھ محسن کشی کی اور معاشرے میں ہماری ساکھ خراب کی، علاوہ ازیں1.242 کھرب روپے مالیت کا” حدیبیہ پیپرز ملز“ کیس مارچ2000 ءکو منظر عام پر آیا اور اسے احتساب عدالت کے سامنے پیش کیا گیا اور میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو اس میں مرکزی ملزم نامزد کیا گیا تھا جبکہ مریم نواز، حمزہ، عباس شریف اور انکی بیگم صبیحہ شریف بھی نامزد تھیں لیکن شریف فیملی کی سعودی عرب جلا وطنی کیوجہ سے یہ کیس دب گیا پھر مئی2014 ءمیں ہائی کورٹ نے یہ کیس ختم کردیا، لیکن رواں سال ستمبر میں” نیب“ نے ایک دفعہ پھر ان کیس کو چیلنج کیا اور عدالت سے کہا ہمارے پاس کچھ تازہ ترین ثبوت بھی موجود ہیں، یاد رہے کہ اسی کیس میں25 اپریل2000 ءکو اسحٰق ڈار نے ضلعی مجسٹریٹ کو43 صفحات پر مشتمل اپنا اعترافی بیان دیاتھا کہ نواز شریف اور شہباز شریف14.886 ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے سکندر مسعود قاضی اور طلعت مسعود قاضی کے نام پر اکاو¿نٹ کھلوائے جس سے شریف برادران کے کہنے پر منی لانڈرنگ کی اور میں نے ہی قاضی فیملی کو1990ءمیں لاہور میں ہونے والی ایک تقریب میں نواز شریف سے تعارف کروایا اور میں نے قاضی فیملی کے118 اکاو¿نٹس بھی نواز شریف کے کہنے پر ہی کھلوائے تھے کیونکہ نواز شریف چاہتے تھے کہ میں انہیں کم و بیش100 ملین روپے کی کریڈٹ لائن مہیا کروں، اسحٰق ڈار نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف نے مجھے باور کروایا کہ قاضی فیملی کا سربراہ راضی ہے کہ ان کے نام پر یہ ”بے نامی“ اکاو¿نٹس کو کسی بھی قسم کی انکوائری سے استثنٰی دے دیا گیا، تاہم اسحٰق ڈار حالیہ برسوں میں بارہا کہہ چکے ہیں کہ مذکورہ اعترافی بیان ان سے دباو¿ ڈال کر لیا گیا تھا،” خبریں“ انویسٹی گیشن میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ چند ہفتے پہلے” حدیبیہ پیپرز ملز“ کیس کے سلسلہ میں ہی” نیب“ کی ٹیم نے لندن میں قاضی فیملی کے افراد سے ملاقات کی کوشش کی تھی یہ ملاقات تو نہیں ہوئی لیکن ٹیلی فون رابطہ پر قاضی فیملی نے پاکستان آکر عدالت میں اپنا بیان دینے پر نیم رضا مندی ظاہر تو کی تھی لیکن یہ بھی کہا تھا کہ وہاں ہماری جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔” خبریں“ ذرائع کا کہنا ہے کہ قاضی فیملی قطعی طور پراس کیس میں دوبارہ الجھنا نہیں چاہتی اور ان کی فیملی کا کوئی فرد پاکستان جاکر عدالت میں پیش نہیں ہوگا کیونکہ ایک تو اسحٰق ڈار اور شریف فیملی آج بھی ان کے قریب ہے دوسرا وہ کسی ایسی عدالتی یا ریاستی اداروں کی انکوائری کا حصہ نہیں بنیں گے جس میں گواہی دیتے ہوئے ان کی اپنی تفتیش شروع ہوجائے کہ آپ کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی۔

 

تمام قیاس آرائیوں کا خاتمہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کا اپنے استعفے بارے اہم اعلان

اسلام آباد (ویب ڈیسک ):وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے حالات کی درستگی کے لیے مستعفی ہونے کی پیشکش کر دی۔تفصیلات کے مطابق فیض آباد میں مذہبی جماعتوں کا دھرنا پندرھویں روز میں داخل ہو چکا ہے۔دھرنے کے باعث رہائشیوں کی روز مرہ زندگی برے طریقے سے متاثر ہو رہی ہے۔ایسے میں اسلام آباد ہائیکورٹ انتظامیہ کو حکم دے چکی ہے کہ دھرنا ختم کروا کر راستے صاف کروائے جائیں مگر عدالتی حکم کے باوجود انتظامیہ دھرنا ختم کروانے سے قاصر ہے اور دوسری طرف دھرنے کے منتظمین نے دھرنے کی برخاستگی وزیر قانون کے استعفے سے مشروط کر رکھی ہے۔ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے حالات کی درستگی کے لیے مستعفی ہونے کی پیشکش کر دی ہے۔وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کا کہنا ہے کہ اگر میرے استعفے سے معاملہ حل ہوتا ہے تو میں جانے کے لیے تیار ہوں مگر حکومتی مذاکراتی ٹیم نے اس بات کے امکان کو مسترد کر دیا۔

سکھر میں کوئلے سے بھرا ٹرک وین پر الٹنے سے 18 افراد جاں بحق

سکھر(ویب ڈیسک) نیشنل ہائی وے پر کوئلے سے بھرا ٹرک وین پر الٹ گیا جس کے نتیجے میں 18 افراد جاں بحق اور 6 زخمی ہوگئے۔تفصیلات کے مطابق ٹھیری بائی پاس کے قریب نیشنل ہائی وے پر کوئلے سے بھرا ٹرک وین پر الٹ گیا جس کے نتیجے میں 18 افراد جاں بحق اور 6 زخمی ہوگئے۔موٹروے پولیس اور ریکسیو اداروں نے جائے حادثہ پر پہنچ کر امدادی کارروائیاں کرتے ہوئے ٹرک کے نیچے دبے لوگوں کو نکالا۔لاشوں اور زخمیوں کو خیر پور کے سول اسپتال منتقل کردیا گیا ہے جہاں 2 افراد کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ جاں بحق ہونے والے افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ حکام کے مطابق مسافر وین خیرپور سے سکھر جارہی تھی کہ دھند کی وجہ سے حادثہ پیش آگیا۔ وین میں سوار تمام مسافر محنت کش تھے اور مزدوری کے لیے کام پر جارہے تھے۔