لاہور (خصوصی رپورٹ) سانحہ قصور کی گتھیاں سلجھنے کی بجائے مزید اُلجھنے لگیں۔ دو ماہ قبل تعینات ہونے والے ڈی پی او قصور کے اعلیٰ افسر کے عزیز کے ساتھ اُن کے اہل خانہ کا تعلق بھی اہم اور با اثر گھرانے سے ہے۔ اُن کو معطل کیے جانے کے بعد مزید سوالات نے جنم لیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، آر پی او قصور، آٓئی جی پنجاب سے سخت نالاں ہیں جبکہ حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق ڈی پی او قصور ذوالفقار احمد نے زینب کی لاش ملنے کے بعد ہونے والے احتجاج کو تین نکاتی مطالبات کے عوض ختم کروا دیا تھا۔ مطالبات دو تھانے کے ایس ایچ اوز کی جانب سے زینب کے لواحقین سے کی جانے والی بد تمیزی پر اُنہیں معطل اور زینب واقعہ کی انکوائری جے آئی ٹی کے ذریعے کروانے اور جے آئی ٹی میں حساس اداروں کے افسران شامل کرنے پر مشتمل تھے۔ رات گئے زینب کے لواحقین سے طے پانے کے بعد احتجاج ختم کر دیا گیا تھا۔ اور صبح گیارہ بجے ڈی پی او جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے پنجاب حکومت کو خط لکھوانے کے علاوہ ایس ایچ اوز کی معطلی کے احکامات جاری کرنے کا صبح گیارہ بجے کا باہمی رضا مندی سے وقت سے طے ہوا۔ آرپی او شیخوپورہ، ذوالفقار حمید نے ڈی پی او اور لواحقین کے مذاکرات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ جبکہ قصور سے تعلق رکھنے والے ایک طاقت اور سیاسی خاندان کی جانب سے لواحقین کو ڈی پی او کے خلاف اُکسانے کی رپورٹ سامنے آئی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سانحہ قصور کے پیش نظر خاصے پریشان نظر آتے ہیں۔ معتبر ذرائع کے مطابق ڈی پی او قصور زینب کے لواحقین کے درمیان مقامی مسلم لیگی رہنما خادم قصوری مذاکرات طے کروانے میں کامیاب ہو گئے تھے مگر مسلم لیگ (ن) ضلع قصور کی آپس کی چپقلش کی وجہ سے سانحہ کو طول دیا گیا۔ سابق ڈی پی او کی جانب سے زینب کیس سے قبل اپنی تعیناتی کے دوران گیارہ بد فعلی کے کیسوں کے ملزمان کو گرفتار کر کے مقابلے میں مارے جانے کے دعوے بھی کئے گئے۔ ڈی این اے رپورٹ بارہ بد فعلی کے کیسوںمیں ایک ہی ملزم کے نمونے پر ناصر رضوی کا پول کھول دیا ہے۔ اور کئی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ ناصر رضوی نے اس کے ملزمان کو پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا وہ کون تھے؟ محکمہ پولیس، سول انتظامیہ اور حساس ادارے رپورٹس میں واقعہ واضح تضاد پایا جاتا ہے۔
